تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     23-08-2019

ہماری بھی سمجھ نہیں آتی!

بابا بلھے شاہؒ کی دھرتی قصور کے نواحی گاؤں بھکی ونڈ کے ایک ڈیرے پر محفل جمی ہوئی تھی۔ڈیرے کے سامنے ایک چھوٹی سی سڑک تھی‘ جس کے بالکل ساتھ‘ چڑھا ہوا دریائے ستلج پوری آب وتاب کے ساتھ بہہ رہا تھا۔ یوں تو درجنوں مرتبہ قصور جانے کا موقع مل چکا‘ لیکن یہ تو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ کبھی قصور سے تقریباً 18کلومیٹر دُور بھکی ونڈ میں بھی جا پہنچیں گے۔ یہاں آنے کا مقصد پیشہ وارانہ اُمور کی انجام دہی تھا۔ جاننا مقصود تھا کہ دریائے ستلج میں بھارت کی طرف سے چھوڑے جانیوالے سیلابی ریلے کے بعد علاقے کی کیا صورتحال ہے۔کلنجرہ‘ گاؤں چندا سنگھ اور دوسرے دیہاتوں سے گھومتے گھماتے بھکی ونڈ پہنچے تو پھر کئی گھنٹوں کیلئے یہیں کے ہورہے۔ ماحول ہی کچھ ایسا خوب صورت تھا ۔طرح طرح کے پرندے فضا میں اُڑانیں بھر رہے تھے۔ دیہاتی اپنے ڈھورڈنگروں کو چراگاہوں سے واپس لا رہے تھے‘ اسی ماحول میں گاؤں کے ڈیرے پر محفل جمی ہوئی تھی۔ موضوع گفتگو لامحالہ دریائے ستلج میں آنیوالا سیلابی ریلا تھا۔ دریامیں چڑھنے والے پانی پر گفتگو ضرور ہورہی تھی‘ لیکن یقین جانیے کہ ان میں سے کسی ایک بھی شخص کے چہرے پر پریشانی کے آثار نہیں تھے۔ چاٹی کی لسی کے دور چل رہے تھے اور ساتھ میں حقے کی گڑگڑاہٹ بھی بلند ہورہی تھی۔قہقہے بھی لگائے جارہے تھے اور یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے سب کچھ نارمل ہے۔چڑھے دریا کودیکھنے کے باوجود ان دیہاتیوں کا یہ رویہ ہمارے لیے بھی حیران کن تھا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ہمارے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ دریا میں پانی آنے سے یہ لوگ پریشان نہیں ‘بلکہ خوش ہیں ۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ تھوڑی بہت مشکل تو ضرور پیش آئے گی‘ لیکن ہر مشکل کے بعد راحت بھی ہوتی ہے۔ یہ جانتے تھے کہ ہلکے پھلکے سیلاب کا یہ پانی اپنے ساتھ تازہ اور طاقتور مٹی لے کر آئے گا۔اسی تازہ اور نئی مٹی سے شاندار فصلیں اُگیں گی۔ دریا کے اردگرد کے علاقوں میں زیرزمین پانی کی سطح بلند ہوگی۔اس پانی کافی حصہ ہیڈ سلیمانکی اور پنجند کے مقامات پر جمع کرلیا جائے گا‘ جو کافی عرصے کیلئے دریا کے اردگرد رہنے والوں کی ضروریات کو پورا کرے گا۔یہاں کے رہنے والوں نے یہ منظرکئی سال کے بعد دیکھا تھا‘ ورنہ تو ہمارے ملک کا یہ دوسرا سب سے بڑا دریا برسوں سے خشک پڑا تھا اور اب اگر یہاں پانی آیا تھاتو ان کیلئے اس میں کچھ زیادہ پریشانی کی بات نہیں تھی۔ اس حد تک پریشانی ضرور تھی کہ اگر پانی کی مقدار میں اضافہ ہواتو پھر حالات قدرے خراب ہوسکتے ہیں۔ماحول اور گفتگو ‘ دونوں ہی یہاں سے اُٹھنے نہیں دے رہے تھے‘ لیکن چاروناچار واپس آنا ہی پڑا۔
راستے بھر یہ سوچیں ذہن میںآتی رہیں کہ طویل عرصے بعد دریا میں آنیوالے پانی کی زحمت قرار دیا جائے یا نعمت؟اسے بھارت کی آبی جارحیت کا نام دیا جائے یا پھر اس بات پر شکر ادا کیا جائے کہ چلو کچھ تو ہاتھ لگا؟1960ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے سندھ طاس معاہدے کے تحت ‘ دریائے ستلج ‘ بیاس اور راوی ہندوستان کو بیچ دئیے گئے۔دریائے بیاس سرحد کے اُس پار ہی دریائے ستلج میں ضم ہوجاتا ہے ۔ سندھ طاس معاہدے کے بعد ہندوستان نے بتدریج دونوں دریاؤں کا پانی روکنے کی صلاحیت حاصل کرلی۔ یاد پڑتا ہے کہ دریائے راوی میں آخری مرتبہ سیلاب1990ء میں آیا تھا اور دریائے ستلج میں غالباً1992ء میں دیکھا گیا تھا۔ اُس کے بعد سے تو دونوں ہی دریا بتدریج خشک ہوتے چلے گئے۔ چار سال قبل دریائے ستلج میں آخری مرتبہ تقریباً ایک لاکھ کیوسک کے قریب سیلابی ریلا آیا تھا۔اب اگر ان دونوں دریاؤں میں کبھی پانی آجائے تو بلاشبہ اِسے نعمت سے کم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دریائے راوی میں بھی بہت طویل عرصے کے بعد کافی مقدار میں پانی آیا‘ ورنہ بھارت کی طرف دریائے راوی پر تین ڈیم تعمیر کیے جانے کے بعد تو اب سرحد پار سے پانی کا ایک قطرہ بھی اس طرف نہیں آتا۔اب اگر اتنا پانی آہی گیا کہ اس سے کم از کم دریا کی گندگی ختم ہوگئی تو اسے بھی ہم آبی جارحیت کا نام دے رہے ہیں۔کیسی بات ہے کہ ہم ہمیشہ پانی کی کمی کا رونا روتا رہتے ہیں‘ لیکن دریائے ستلج میں آنیوالے پانی کی بڑی مقدار بھی دریائے سندھ میں گرکر بالآخرسمندر برد ہو گئی۔ اگر ہمارے پاس کوئی مناسب انتظام موجود ہوتا تو اس پانی کو ملک کے صحرائی علاقوں میں تقسیم کیا جاسکتا تھا۔چولستان اور تھل کا بڑا رقبہ اس سے سیراب ہوسکتا تھا ‘لیکن ہمارے پاس کوئی انتظام ہی نہیں سوائے اس کے کہ ہاتھ لگنے والے پانی کو ضائع کردیا جائے۔ 
آج یہ دور ہے کہ دنیا کے کئی ایک ممالک نے کم از کم ایک سال تک پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبوں پر کام شروع کررکھا ہے اور ہم 30دن سے آگے نہیں بڑھ پا رہے۔یہ ملکی واٹر پالیسی میں شامل ہے کہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھایا جائے گا ‘لیکن عملًا اس حوالے سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا یا جارہا۔اُلٹا ہمارے پاس پہلے سے موجود ڈیمز سلٹ سے بھرتے جارہے ہیں ۔ سلٹ کے باعث ان ڈیمز میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بتدریج کم ہوتی چلی جارہی ہے اور ہم ہیں کہ چندے سے ڈیمز بنانے چلے ہیں۔کوئی نہیں سوچتا کہ وقتی ڈرامے کس طرح سے صورت حال کو خراب کرتے ہیں۔ایک اُٹھتا ہے اور کہتا کہ آپ کو اسلام چاہیے؟اب کون مسلمان کہے گا کہ وہ اسلام نہیں چاہتا۔ اچھا اگر آپ اسلام چاہتے ہیں تو پھر میں پانچ سال کیلئے صدر ہوں۔ یوں تو ہماری تاریخ ہی قسم قسم کے ڈراموں سے بھری پڑی ہے ‘لیکن زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ دیکھ لیجئے کہ تبدیلی کے دعویداروں نے ملک کا کیا حال کردیا ہے۔ 365دن گزر گئے‘ لیکن کوئی ایک بھی مثبت تبدیلی دیکھنے میں نہیں آرہی۔ بس احتساب کا ڈھونڈرا پیٹا جارہا ہے۔ ملک کو قرض سے نجات دلانے کے دعوے بھی ہوا ہوچکے۔ غیرملکی سرمایہ کاری لانے کے دعویدار ‘ اپنے ملک کے سرمایہ کاروں کو ہی سرمایہ کاری کیلئے آمادہ نہیں کرپارہے۔ چینی سے لے کر خوردنی تیل‘ پٹرول سے لے کر دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں ۔ بے روزگاری کی شرح میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے ۔ صرف ایک چیز وافر مقدار میں میسر آرہی ہے اور وہ بہتری کے دعوے ہیں۔ حقائق کو اتنی ڈھٹائی سے جھٹلایا جارہا ہے کہ سچ پر سے اعتبار ہی اُٹھ گیا ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا احساس کی تو موت ہی واقع ہوچکی۔انسان کم از کم اپنی غلطی کو تسلیم ہی کرلے تودکھ کا احساس کسی قدر کم ہوجاتا ہے لیکن یہ تو ہم نے شاید سیکھا ہی نہیں ۔ یہی صورت حال ہم نے پانی کے حوالے سے پیدا کررکھی ہے۔ ہم یہ بات کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ ہم نے دریاؤں میں تجاوزات قائم کرلی ہیں۔ ہم یہ ماننے کیلئے تیار ہی نہیں کہ بیشتر صورتوں میں ہماری اپنی کوتاہیاں ہی ہمارے لیے نقصان کا باعث بنتی ہیں۔مان لیجئے کہ ہم نے پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا روپ دھارتے ہوئے پانی کی کمی کے مسئلے کی سنگینی کا ادارک ہی نہیں کیا۔ ہمارا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے‘ جو دنیا میں سب سے زیادہ پانی استعمال کرنیوالے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ ہمارے ملک میں ہرسال بارشوں سے قریباً 145ملین ایکٹر فٹ پانی آتا ہے‘ لیکن ہم بمشکل 13.7ملین ایکٹر فٹ پانی بچا پاتے ہیں۔اب جو پانی ہمارے مشرقی دریاؤں میں آیا تو اسے بھارت کی آبی جارحیت کا نام دے لیں یا کچھ اور؟الغرض ہماری بھی سمجھ نہیں آتی‘ پانی نہ ہوتو بھی رونا اور اگر ہو تو تب بھی رونا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved