رواں ماہ کے آخر میں جاپان یوکوہاما میں افریقی ترقی سے متعلق ساتویں ٹوکیو بین الاقوامی کانفرنس (ٹی آئی سی اے ڈی) کی میزبانی کرے گا۔ یہ کانفرنس براعظم افریقہ میں جاپان کی ترقیاتی کوششوں کا سنگ بنیاد سمجھی جا رہی ہے ۔جاپان متعدد بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مشترکہ طور پر منظم طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے‘ جن میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام‘ عالمی بینک اور افریقی یونین کمیشن شامل ہیں۔ رواںسال کے سربراہی اجلاس میں افریقہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مشترکہ شراکت داری میں امداد پر توجہ دینے سے ٹوکیو کے مؤقف میں واضح تبدیلی دیکھی گئی ۔ جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے نے 2016ء میں کینیا میں منعقدہ آخری کانفرنس میں کہا تھا کہ جاپان چاہتا ہے کہ افریقی ممالک محض ڈونر کی بجائے ٹوکیو کو شراکت دار کے طور پر دیکھیں۔
روایتی طور پر ٹوکیو‘ افریقہ میں اپنی کاوشوں کو ڈپلومیسی کے طوراستعمال کر رہا ہے ‘ بنیادی طور پر ترقیاتی امداد کی فراہمی کے ذریعے بہت کچھ بدل رہا ہے ۔یہ بھی ایک سچ ہے کہ جاپان کے سائز اور اس کی مقامی معاشی پریشانیوں کے پیش نظر‘ براعظم کے دوسرے کھلاڑیوں خصوصاًچین کے ساتھ مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے ۔افریقہ میں جاپان کے مضبوط تعلقات کے باوجود‘ خاص طور پر الجیریا‘ نائیجیریا اور جنوبی افریقہ میں چین نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اگرچہ جاپان کی افریقہ میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بہت زیادہ ہے‘ مگر چین کے مقابلے میں کم ہے ۔ تجارت و ترقی کے بارے میں اقوام متحدہ کی کانفرنس کے مطابق 2017ء کے آخر تک افریقہ میں چین کی سرمایہ کاری کا حجم43ارب ڈالر تھا۔ 2019-2018ء میں اس میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملا۔ جاپان نے اخراجات میں کمی کردی‘ چین نے گزشتہ پانچ سالوں میں اپنی سرمایہ کاری کو دگنا کردیا ہے اور یہ رجحان جاری ہے۔
جب تجارت کی بات ہو تو کہانی اس سے بھی بدتر ہوتی ہے۔ افریقہ میں جاپانی برآمدات گزشتہ دہائی کے دوران تقریباً نصف ہو گئیں اور اب یہ لگ بھگ 7 بلین ڈالر ہیں۔ چینی تجارت ناگہانی رفتار سے تیز ہوگئی ہے‘ جس کی برآمدات 2018ء میں 100 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئیں۔ چین کی افریقہ سے تقریبا100 ارب ڈالر مالیت کی درآمدات بھی ہیں۔ جاپان اور اتحادیوں کے اس اقدام کے بعد چین سے خدشات کے باوجود بیشتر افریقی ریاستوں نے کھل کر بیجنگ کے فلیگ شپ بیلٹ اورون بیلٹ ون روڈ کی توثیق کی‘ قریب تر معاشی تعلقات میں سیاسی استحکام بھی پیدا ہوا ہے۔
کوئی دو رائے نہیں‘جاپان چین کے ساتھ حقیقی مالی معاملات میں اس خلا کو کم کرنے سے قاصر ہے‘ لیکن یہ ایک قابلِ اعتماد متبادل فراہم کرسکتا ہے۔ افریقہ میں چینی سرمایہ کاری صرف وسائل تک رسائی حاصل کرنے پر مرکوز نہیں ہے بلکہ اس میں سیاسی اور سلامتی کے اثاثے بھی ہیں جن میں جبوتی میں چین کا پہلا بیرونِ ملک فوجی اڈہ اور اس کے ساتھ تائیوان کے باقی چند سفارتی اتحادیوں کا تبادلہ بھی شامل ہے۔ افریقہ میں چین کا قدم جماناجاپان کے لئے پیچیدگیاں پیدا کیے ہوئے ہے۔ ٹوکیو نے بھی جبوتی میں ایک فوجی اڈہ قائم کر رکھا ہے‘ ان کے اڈوں کی قرابت داری میں امریکہ بھی پیچھے نہیں‘امریکہ بھی اڈہ قائم کیے ہوئے ہے۔
چین سے ہٹ کر‘ جاپان بھی امید کرتا ہے کہ افریقہ کی پائیدار ترقی کے لئے اس کی مدد سے جاپان کو اقوام متحدہ‘ خاص طور پر امریکی سلامتی کونسل میں اصلاحات کے لئے ٹی آئی سی اے ڈی کے دیگر ممبروں کی حمایت حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ ٹوکیو امریکہ کے سب سے بڑے عطیہ دہندگان میں سے ہے‘ جاپان طویل عرصے سے سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے لئے لبیک کہہ رہا ہے اور کئی سالوں کے دوران افریقی ریاستیں بھی اس عہدے کی حمایت کرنے پر زور دیے ہوئے ہیں۔ افریقہ میں ووٹ کی تعداد پر غور کرتے ہوئے ‘یہ مہم خاص طور پر اہم رہی ہے۔ 54 افریقی ممالک نے اس سال اقوام متحدہ میں جاپان کی حمایت کی ہے۔چینی سرمایہ کاری ایک چیلنج ہوسکتی ہے لیکن جاپان اب بھی افریقہ کے ساتھ اپنی دیرینہ وابستگی کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
جاپان نے افریقی ممالک کو پائیدار ترقی کی طرف بڑھنے میں مدد فراہم کرنے والے کینیا میں جیوتھرمل پلانٹ کی تعمیر اور بوٹسوانا میں ڈیجیٹل نشریاتی انفراسٹرکچر کو بڑھانے سمیت اعلیٰ معیار کے انفراسٹرکچر کی فراہمی جاری رکھی ہوئی ہے۔ ایسا کرنا اہم ہے کیونکہ براعظم میں اپنے پائیدار ترقیاتی اہداف کو پورا کرنے اور ایجنڈے میں شامل افریقی یونین کے ذریعے طویل مدتی ترقیاتی ویژن کوپانا آسان ہوگا ۔ ان علاقوں میں ریکارڈدیکھیں تو وہاں موجود سپلائی چین کی بدولت افریقی کاروبار میں علاقائی اتحاد کو فروغ ملا ہے ۔ جاپان بحر ہند اور بحر الکاہل کو مشرقی افریقہ سے لے کر شمالی امریکہ کے مغربی کنارے تک پھیلتا ہوا دیکھتا ہے‘ وہ پائیدار انفراسٹرکچر کو فروغ دینا چاہتا ہے‘ مواصلات کی آزاد سمندری خطوں کی حفاظت اور اسے برقرار رکھنے کے لئے پورے خطے میں رابطوں کو مؤثر بنا رہا ہے۔
جاپان اپنے FOIP نقطہ نظر میں شمولیت پر زور دے رہا ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ چین کے ساتھ مسابقت کوئی پیش قیاسی نتیجہ نہیں ہے‘ حالانکہ بیجنگ اس طرح کے دعووں سے محتاط ہے پھر بھی جاپان خود ہی افریقی ممالک کے لئے پائیدار ترقی کا متبادل فراہم کرنے میں ایک مشکل کام کا سامنا کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ‘ ہندوستان‘ فرانس اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر اور امریکہ کے زیادہ تعاون سے جاپان وہاں طاقت کی کاری ضرب لگانے والا ملک بن سکتا ہے۔در حقیقت ان سبھی ممالک نے بحر الکاہل پر اپنی اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے وہاں ترقیاتی کاموں کو فروغ دیا ہے اور افریقہ میں وسیع پیمانے پر اسی طرح کے اہداف کو آزادانہ اور کھلی سرمایہ کاری پر بانٹتے ہیں۔ یہی سمجھا جا رہاہے کہ مزید باہمی تعاون کے لئے افریقہ زرخیز زمین ثابت ہوسکتی ہے۔