تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     24-08-2019

مزا نہ آئے تو پیسے واپس!

کسی بھی معاشرے میں اکثریت ''جیسا ہے‘ جہاں ہے‘‘ کی بنیاد پر زندگی بسر کرتی ہے۔ صلاحیت و محنت کے نتائج اور حالات و واقعات نے جہاں تک پہنچادیا ہے وہاں سے آگے بڑھنے میں ایک طرف تو تذبذب مانع ہوتا ہے اور دوسری طرف تساہل بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔ کچھ خوف بھی لاحق رہتا ہے۔ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہو وہ اُسے جان سے پیارا محسوس ہوتا ہے۔ یہ بات اچھی بھی ہے اور بُری بھی۔ بُری یوں کہ جو کچھ ہے اُس سے شدید محبت کچھ نیا کرنے‘ آگے بڑھنے سے روکتی ہے۔ 
تبدیلی انسان کے لیے سب سے مشکل اور پیچیدہ عمل ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ بہت سوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ واضح سوچ اور منصوبہ سازی کے ساتھ تبدیل ہونے سے امکانات کا گراف بلند ہوگا مگر پھر بھی وہ تبدیلی یقینی بنانے کے حوالے سے کچھ کرنے سے کتراتے ہیں‘ دور بھاگتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں تبدیلی سے بچنے کی کوشش کرنے والوں کا تناسب خاصا کم ہے۔ ترقی پذیر معاشروں میں زیادہ سے زیادہ 10 افراد خود کو بدلنے سے متعلق سوچتے ہیں‘ سنجیدگی اختیار کرتے ہیں۔ پسماندہ معاشروں میں تبدیلی سے بھاگنے والوں کا تناسب 98 فیصد سے بھی زائد ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایسے معاشروں کیپنپنے‘ کچھ کر دکھانے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کا امکان بھی زیادہ توانا نہیں ہوتا۔ ایسے معاشرے عشروں تک رنگ نہیں بدلتے‘ ایک ہی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں اور اُن میں کوئی ایسی جوہری یا بنیادی تبدیلی رونما نہیں ہوتی جو سب کو مجموعی طور پر آگے لے جاسکے۔ 
تبدیلی سے روکنے والا سب سے بڑا عامل حالات کے ناموافق ہو جانے کا خطرہ ہے۔ انسان سوچتا ہے کہ جو کچھ اُس نے بہت محنت سے حاصل کیا ہے کہیں وہ پورا کا پورا داؤ پر نہ لگ جائے۔ یہ خطرہ بجائے خود غیر حقیقی نہیں۔ ہر معاشرے میں ایسی بہت سے مثالیں پائی جاتی ہیں کہ کسی نے اپنے آپ کو بدلنے‘ بہتر معاشی امکانات پیدا کرنے کی کوشش کی اور جو کچھ ہاتھ میں تھا اُس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔ خاص طور پر ذاتی کاروبار شروع کرنے کے حوالے سے ایسا ہونا زیادہ حیرت انگیز نہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ نہیں کہ کاروبار کرنا کوئی بہت خطرناک عمل ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ بہتر معاشی امکانات تلاش کرنے یا یقینی بنانے کی راہ پر گامزن ہوتے وقت لوگ اس راہ کی ممکنہ رکاوٹوں کے بارے میں نہیں سوچتے اور نہ ہی ضروری حد تک کسی سے مشاورت کرتے ہیں۔ کسی بھی کاروبار کو شروع کرتے وقت یعنی اپنی جمع پونجی داؤ پر لگاتے وقت انسان کو بہت سے عوامل پر غور کرنا چاہیے۔ کسی سے بھرپور مشاورت لازمی طور پر کرنی چاہیے تاکہ اس راہ میں پائی جانے والی رکاوٹوں کو دور کرنا آسان ہوسکے۔ کسی بھی معاشرے میں تبدیلی کے لیے تمام متعلقہ بنیادی عوامل کو ذہن نشین رکھنا اور اس حوالے سے خود کو اعصابی سطح پر تیار کرنا لازم ہوا کرتا ہے۔ 
کیریئر کی تبدیلی انسان سے بہت کچھ داؤ پر لگانے کا مطالبہ یا تقاضا نہیں کرتی مگر سیلف ایمپلائمنٹ کی صورت میں پریشان کن صورتِ حال پیدا ہونے کا خطرہ کئی گنا ہوتا ہے۔ جب انسان سرمایہ لگاکر کوئی کام شروع کرتا ہے تو ناکامی کی صورت میں دوسروں سے مزید پیچھے رہ جاتا ہے۔ کیریئر تبدیل کرنے کے لیے کوئی نیا ہنر سیکھنا اور اُس میں مہارت حاصل کرنا لازم ہوتا ہے۔ یہ عمل انسان کو مختلف حوالوں سے مضبوط کرتا ہے۔ کامیابی اگر مطلوبہ معیار کی نہ ہو تب بھی کسی حد تک تشفّی بخش ضرور ہوتی ہے۔ اور مہارت کے بل پر انسان کچھ مدت کے بعد بھی اپنے لیے بہتر امکانات کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ 
کسی بھی معاشرے میں تبدیلی کا عمل پھولوں کی سیج والا ماحول فراہم نہیں کرتا۔ خود کو بدلنے کے لیے ماحول اور حالات کا تھوڑا بہت جبر سہنا ہی پڑتا ہے۔ کہیں یہ عمل بہت پیچیدہ ہے اور کہیں کم پیچیدہ۔ بہر کیف‘ تبدیلی کی خواہش رکھنے والے ہر انسان کو ایک خاص حد تک تو مشکلات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے کا بھی ایک بنیادی المیہ یہ ہے کہ جو کچھ ہے لوگ اُسی پر قناعت کیے بیٹھے رہتے ہیں اور غیر معمولی ناکامی کے خوف کے باعث کوئی بڑا قدم اٹھانے سے کتراتے ہیں۔ معاشرے میں عمومی سطح پر ہچکچاہٹ کا چلن نمایاں ہے۔ بیشتر معاملات میں لوگ تذبذب کا شکار رہتے ہیں‘ کوئی بھی نیا کام کرتے ہوئے اَٹک سے جاتے ہیں۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ ذہن واضح نہیں اور ایک یا دو قدم آگے جاکر کچھ کرنے کی ہمت پیدا نہیں ہو پارہی۔ 
معاشی امور سے متعلق نئی سوچ اپنانے کے معاملے میں دنیا بہت آگے جاچکی ہے ‘مگر ہم اب تک وہیں کھڑے ہیں جہاں چالیس پچاس سال پہلے تھے۔ کوئی اگر کسی دکان میں نوکری کر رہا ہے تو بیس پچیس سال گزار دیتا ہے اور کبھی سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا کہ ایسا کرکے وہ اپنے اندر کتنا جمود پیدا کر رہا ہے‘ اپنی صلاحیت و سکت پر کس قدر کائی جمنے دے رہا ہے۔ چھوٹے شہروں میں لوگ انتہائی لگی بندھی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بڑے شہروں کا حال یہ ہے کہ تھوڑی بہت تبدیلی دکھائی تو دیتی ہے ‘مگر یہ سب کچھ اس قدر نیم دِلانہ انداز سے ہوتا ہے کہ کوئی بڑی بنیادی تبدیلی واقع ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ جو لوگ اپنے لیے کوئی دائرہ متعین کرکے اُس سے باہر قدم نکالنے کو جرم یا گناہ سمجھتے ہیں وہ اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ اپنے آپ کو نہ بدل کر وہ اپنا ہی نہیں بلکہ دنیا کا بھی کس قدر نقصان کر رہے ہوتے ہیں۔ نئی زندگی کے لیے تھوڑا بہت خطرہ تو مول لینا پڑتا ہے۔ اس معاملے میں دانش مندی کا کردار بہت اہم ہے۔ جو لوگ کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں انہیں متعلقہ امور کا تمام پہلوؤں سے جائزہ لینا چاہیے تاکہ قدم غلط پڑنے کی صورت میں کوئی بڑی خرابی پیدا نہ ہو۔ 
تبدیلی سے خوف کھانا حیرت انگیز نہیں‘ مگر اس سے زیادہ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ تبدیلی کی کوشش میں ناکام ہوجانے پر بھی سب کچھ ہاتھ سے نہیں جاتا رہتا۔ پھر ڈرنے کی ضرورت کیا ہے؟ اگر ریاست چاہتی ہے کہ لوگ تمباکو نوشی ترک کردیں تو تمباکو نوشی کے عادی افراد سرکار کا تھوڑا سا کہنا مان کر دیکھ لیں۔ بازار میں سگریٹ کے کئی برانڈ دستیاب ہیں۔ سگریٹ کا عادی ہر شخص اپنا برانڈ ترک کرکے دیکھ لے۔ اگر ایک ڈیڑھ ماہ میں خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو تو ذرا نہ گھبرائے کہ سگریٹ کے تمام برانڈز بازار میں دستیاب ہیں۔ سوال صرف ایک بار پوری تندہی سے خود کو آزمانے کا ہے۔ جو لوگ تبدیل ہونا چاہتے ہیں وہ تبدیل ہو جاتے ہیں۔ چاہت درکار ہے۔ جو اپنے مقصد کو چاہے گا وہ کامیاب ہوگا۔ اگر کسی بھی وجہ سے کامیابی ممکن نہ ہو تو کوئی بات نہیں‘ پرانی زندگی کی طرف لوٹنے کا آپشن تو موجود ہے! کس نے روکا ہے؟ مگر پہلے حُجّت تو تمام کی جائے۔ 
پاکستانیوں کی واضح اکثریت ذہنی یا نفسی حوالے سے اَٹک کر رہ گئی ہے۔ اہلِ جہاں سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لیے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے‘ مگر کوئی نہ کوئی خوف تبدیل ہونے‘ آگے بڑھنے سے روکتا ہے۔ اس حوالے سے ایسا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس میں لوگ خاصے پُرامید ہوکر کچھ نیا کرنے پر راضی ہوں۔ کچھ نیا کرنے کی تحریک دینے کے لیے متعلقہ لٹریچر کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ ٹی وی ڈراموں کے ذریعے لغویات ذہنوں میں ٹھونسنے کے بجائے کچھ نیا کرنے کی تحریک کو بھی بنیادی مقصد کے طور پر اپنایا جاسکتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved