تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     24-08-2019

عارضی محبتیں

اس دنیا میں انسان کو کئی چیزوں سے محبت ہو جاتی ہے ۔اس وقت اسے ایسا محسوس ہوتاہے کہ جیسے اس چیز کے نہ ملنے سے وہ مر جائے گا‘لیکن جب ایسا ہوتاہے تو مرتا کوئی نہیں ۔ میں نو ‘ دس سال کا تھا جب ہم ایک نئے مکان میں منتقل ہوئے ۔ یہاں ایک بلّی خوراک کی تلاش میں منڈلاتی نظر آیا کرتی۔ہمیں دیکھتے ہی وہ تیزی سے غائب ہو جاتی ۔ میں نے اور میرے چھوٹے بھائی نے بہت کوشش کی کہ وہ ہم سے مانوس ہو جائے ۔ ہم اس کے لیے ایک برتن میں دودھ ڈال کر رکھ دیا کرتے ۔ وہ ہمیں دیکھتی رہتی‘ جب ہم دور چلے جاتے تو پھر وہ آ کر دودھ پی لیتی ۔ وقت گزرتا گیا‘ بلی ہم سے مانوس ہونے لگی ؛حتیٰ کہ اس کا خوف مکمل طور پر ختم ہو گیا ۔ یہ بلّی ہماری زندگی کا ایک حصہ بن گئی ۔مجھے وہ دن یاد ہے ‘ جب اس نے دو بلونگڑوں کو جنم دیا ۔ ہم دونوں بھائیوں کو اس چیز کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ حمل سے ہے ۔ اس وقت بالوں سے محروم یہ بچّے چوہوں جیسے لگ رہے تھے۔ چند ہفتوں میں ان کے بال آئے تو وہ انتہائی خوبصورت دکھائی دینے لگے ۔ یوں اس بلّی سے ہمار ے جذباتی لگائو میں اور اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ 
وقت گزرتا گیا ۔جب یہ بچّے بڑے ہوئے تو ایک ایک کرکے دونوں بچّے نجائے کہاں غائب ہوگئے ۔ کچھ عرصہ گزرا‘ پھر وہ دوسری بار حاملہ ہوئی ۔ اس بار اس نے تین بلونگڑوں کو جنم دیا ۔ بلی میں ویسے بھی بہت خوبصورتی ہوتی ہے ‘لیکن اس کے بچّے تو جیسے معصومیت اور انتہائی خوبصورتی کا ایک نمونہ ہوتے ہیں ۔ یہی وہ دن تھے‘ جب مہینے بھر کے لیے ہمیں ہمارے آبائی شہر رحیم یار خان جانا پڑا ۔میری عمر اس وقت بارہ برس تھی ۔ میں پریشان تھا کہ وہ کیسے سروائیو کرے گی لیکن کر کچھ نہیں سکتا تھا ۔ ایک ماہ بعد جب ہم واپس آئے تو پڑوسیوں نے بتایا کہ وہ اپنے بچوں کو اٹھا کران کے گھر لے گئی تھی ۔ جب واپس آکر ہم نے اسے دیکھا تو اس کا ایک بچّہ غائب تھا اور وہ ایک ٹانگ اٹھا کر تین ٹانگوں پر لنگڑاتی ہوئی چل رہی تھی ۔ معلوم ہوا کہ پڑوسیوں کا ڈرائیور گاڑی ریورس کر کے باہر نکال رہا تھا۔ ایک بچہ ٹائر سے جڑ کر بیٹھا ہواتھا ‘ جسے وہ دیکھ نہ سکا۔ وہ ٹائر کے نیچے آ کر موقعے پر ہی مر گیا۔ پڑوسیوں نے بتایا کہ ہماری بلّی نے اس بچّے کا بہت غم منایا۔ وہ اسے اُٹھا اُٹھا کر پھرتی رہی ؛حتیٰ کہ اس سے اٹھنے والا تعفن ناقابلِ برداشت ہو گیا ۔ میں اس کی حالتِ زار اور اس حادثے پر بہت غمگین ہوا ۔ اسے لنگڑاتے دیکھ کر اور دکھ ہو رہا تھا۔ کچھ عرصہ گزرا تو آہستہ آہستہ اس نے وہ ٹانگ نیچے رکھنی شروع کر دی ۔کسی چوٹ سے ہونے والایہ نقصان عارضی تھا ۔ کچھ وقت گزرا ‘ ایک ایک کرکے اس کے بچّے پھر غائب ہو گئے ۔ معلوم نہیں ‘ محلے کے بچوں میں سے کوئی ان کی طاق میں تھا ؟ اس بلّی سے میری جذباتی وابستگی بہت شدید تھی۔ جب اسے بھوک لگتی تو یہ چیخنا شروع کر دیتی ۔ ہم اس کے سامنے کھانا رکھتے تو یہ اس پہ جھپٹ پڑتی ۔جب ہم بیٹھے ہوتے تو یہ ہماری ٹانگوں سے اپنا جسم رگڑتی رہتی ۔ اس کے گلے میں جب انگلیاں پھیرتے تو یہ اپنی آنکھیں بند کر لیتی‘ جیسے اسے بہت سکون مل رہا ہو۔ 
وقت گزرتا گیا۔ آہستہ آہستہ اس بلّی کی عادات بدلتی چلی گئیں ۔ اس نے بھاگنا دوڑنا ختم کر دیا۔ اب وہ زیادہ وقت لیٹی رہتی ۔ جب اسے کھانا دیا جاتا تو بے دلی سے ذرا سا کھا لیتی ۔ اسے یوں بھوکا پڑے دیکھ کر مجھے غم محسوس ہوتا۔ وقت گزرتا چلا گیا۔ آہستہ آہستہ اس بلّی کو یوں سر پھینک کر بیٹھا دیکھ کر ہونے والا غم بے زاری میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ شاید وہ بوڑھی ہو چکی تھی ۔ 
انہی دنوں جب میںآٹھویں جماعت میں داخل ہوا تو مجھے ہاسٹل بھجوا دیا گیا۔ مہینے میں ایک دن کے لیے میں اپنے گھر آیا کرتا۔وہ اسی طرح پڑی ہوتی ۔ وقت گزرتا گیا۔ ایک دن جب میں ہاسٹل سے گھر واپس آیا تو والدہ نے بتایا کہ بلّی مر گئی ۔ چھوٹے بھائی نے ایک دن گھر آکر روتے ہوئے انہیں بتایا کہ گھر کے قریب ہی ایک جگہ پر وہ مری پڑی ہے ۔ غالباًاس نے کوئی زہریلی چیز کھا لی تھی ۔ اس کا جسم نیلا پڑا ہوا تھا ۔ والدہ میری طرف دیکھ رہی تھیں کہ میرا ردّعمل کیا ہوتا ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ جس بلّی کو لنگڑاتے دیکھ کر اور اس کے بچے کی موت کا سن کر میں دیر تک روتا رہا تھا‘ اس کی موت پر مجھے غم کی بجائے اطمینان محسوس ہو رہا تھا۔ کم و بیش ایک سال تک خاموشی سے پڑی رہنے والی یہ بلّی اب ایک بہت بڑا بوجھ بن چکی تھی ۔ اطمینان اس چیز کا محسوس ہو رہا تھا کہ تکلیف سے اس کی جان بھی چھٹ گئی اور ہماری بھی۔ 
یہ ہے انسان کی محبت اور یہ ہے اس محبت کا انجام ۔ پروفیسر احمد رفیق اختر بتاتے ہیں کہ ایک خاتون ان سے کہنے لگی کہ میرے نانا کومہ کی حالت میں ہسپتال پڑے ہیں ‘ دعا کیجیے کہ وہ ٹھیک ہو جائیں ۔ وہ رو رہی تھی‘ اس کی آنکھوں میں اپنے نانا کی محبت تھی ۔ڈیڑھ دو ماہ بعد وہ دوبارہ آئی۔اس نے کہا: پروفیسر صاحب ‘ نانا اسی حالت میں ہیں ‘ دعا کریں کہ اللہ ان کے لیے بھی آسانی فرمائے ۔ پھر ایک ڈیڑھ ماہ بعد وہ دوبارہ آئی۔ اس نے کہا:پروفیسر صاحب ‘ نانا اسی حال میں ہیں‘دعا کریں کہ اللہ انہیں ان سختیوں سے نکال کر اپنی رحمت میں جگہ دے دیں اور ہمارے لیے بھی آسانی کر دیں۔ یہ ہے انسان کی محبت اور یہ ہے اس محبت کا انجام۔ جس محبوب کی خاطر انسان آنسو بہاتا ہے ‘ اگر اسی محبوب کو فالج کی حالت میں چھ ماہ سنبھالنا پڑے تو آہستہ آہستہ محبت کی جگہ بے زاری لے لیتی ہے ۔ گو کہ دنیا میں کچھ لوگ‘ بالخصوص مائیں ایسی ہوتی ہیں جو دو دو ‘ تین تین عشرے بھی اپنے پیاروں کی بہت محبت سے دیکھ بھال کرتی رہتی ہیں‘ لیکن بات اکثریت کی ہو رہی ہے ۔ زیادہ تر انسانی محبتیں خودغرضی پہ مشتمل ہوتی ہیں ورنہ ہمیشہ خوبصورت لوگ ہی کیوں محبوب کے طور پر چنے جاتے ۔ ویسے علم بھی ایک بڑا کردار ادا کرتاہے ۔ اس زمانے میں اتنی سمجھ نہیں تھی ۔ اگر میں اپنی بلّی کو جانوروں کے ڈاکٹر کے پاس لے جاتا اور وہ بتا دیتا کہ یہ بوڑھی ہو چکی ہے اور اپنی زندگی کے آخری برس گزار رہی ہے تو شاید میں اس کا زیادہ خیال رکھتا ۔ اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ علم بھی ایک بہت بڑا کردار ادا کرتاہے ۔ 
یہاں مجھے اپنا دوست فرخ عباد یاد آتاہے ۔ جب اس نے سکول چھوڑااور واپس اپنے شہر سیالکوٹ چلا گیا تو میں انتہائی غمگین تھا۔ پندرہ سولہ برس گزر گئے۔ہم مل نہ سکے ۔پھر ایک دن اچانک اس کی موت کی خبر آئی ۔ یہ اطلاع میں نے اس طرح سنی ‘ جس طرح ایک اجنبی کی موت کی خبر سنی جاتی ہے ۔ وہ ساری محبت ‘ وہ تعلق کہاں گیا ؟اگر پندرہ برس بعد یہ حال ہے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ حشر میں انسان اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کو پہچاننے سے انکا رکیوں کر ڈالے گا !
مجھے اپنا دوست فرخ عباد یاد آتاہے ۔ جب اس نے سکول چھوڑااور واپس اپنے شہر سیالکوٹ چلا گیا تو میں انتہائی غمگین تھا۔ پندرہ سولہ برس گزر گئے۔ہم مل نہ سکے ۔پھر ایک دن اچانک اس کی موت کی خبر آئی ۔ یہ اطلاع میں نے اس طرح سنی ‘ جس طرح ایک اجنبی کی موت کی خبر سنی جاتی ہے ۔ وہ ساری محبت ‘ وہ تعلق کہاں گیا ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved