ذرائع ابلاغ کی دنیا میں یہ ایک انقلاب کی سی فضا جو ہم اس دور میں دیکھ رہے ہیں ،جب نہیں تھی تو دنیا میں کوئی بھی پیش رفت ہو ،اس پر قوموں کا ردعمل بہت آہستہ آہستہ سامنے آتا تھا۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا تھا کہ لیڈروں کو وقت مل جاتا تھا کہ وہ کسی بھی منفی یا مثبت ردعمل سے نبرد آزما ہونے کے لیے حکمت عملی بنالیں۔آج کل لیڈروں کو یہ سہولت میسر نہیں ہے۔ اس دور میں جب بھی کوئی اہم واقعہ پیش آتا ہے تو میڈیا اس تیزی سے اس کو پھیلا دیتا ہے کہ جو ملک یا ممالک اس واقعے سے متعلق ہوں ان کے طول و عرض میں فوری طور پر ردعمل مرتب ہوجاتا ہے اور پھر حکومتیں اس رد عمل کی غلام بن جاتی ہیں کیونکہ انہوں نے عوام سے ووٹ لینے ہوتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ کی موت سے متعلق ہے۔ بھارت نے اگرچہ سرکاری طور پر یہ تسلیم نہیں کیا کہ سربجیت سنگھ اس کے کسی خفیہ ادارے کا اہلکار تھا اور اس کو تخریبی سرگرمیوں کے لیے پاکستان بھیجا گیا تھا لیکن جس انداز میں بھارت نے سربجیت کے مردہ جسم کو اپنے ہاں پروٹوکول دیا ہے اس میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ وہ بھارتی جاسوس ہی تھا۔ بذریعہ خصوصی پرواز سربجیت کے تابوت کو لاہور سے امرتسر بھیجا گیا۔ وہاں سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس کے آبائی علاقے لے جا کر اس کی آخری رسوم ادا کی گئیں۔ اندراگاندھی کے پوتے اور راجیو گاندھی کے بیٹے راہول گاندھی جو بھارتی کانگریس پارٹی کے ایک طرح وارث سمجھے جاتے ہیں، بہ نفسِ نفیس آخری رسوم میں شریک ہوئے۔ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ پرکاش سنگھ بادل نے سربجیت کے لیے ایک کروڑ روپے کے انعام کا اعلان کیا اور بھی بہت سی تفصیل ہے جو بھارتی خفیہ ایجنسی کے ایک معمولی سے اہلکارکے لیے، جو کچھ اس نے اپنے ملک کے لیے کیا، کی مناسبت سے بہت زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیاں غالباً تقسیم ہند کے وقت ہی سے ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہیں اور معلوم نہیں سربجیت سنگھ قسم کے کتنے جاسوس ہوں گے جو اپنے اپنے ملک کے لیے کیے گئے مشنوں میں کام آگئے ہوں گے۔ تاہم سربجیت سنگھ کے معاملے میں میڈیا کو موقع مل گیا اور پھر بھارت میں حزب مخالف کی جماعتوں نے کانگریس کی قیادت میں برسراقتدار جماعتوں کو نیچا دکھانے کے لیے میڈیا کے ہاتھ اور بھی مضبوط کیے اور یوں پورے بھارت میں سربجیت کے انتقام کی گونج سنائی دینے لگی۔ بھارت کی پوری برسراقتدار قیادت اس گونج کی غلام بن چکی تھی کیونکہ ذرائع ابلاغ کی وجہ سے اس تیزی سے پورے ملک میں ردعمل مرتب ہوا کہ اس نے لیڈروں کو کوئی حکمت بنانے کی مہلت ہی نہ دی۔ یہاں یہ باور نہیں کر لینا چاہیے کہ بھارتی لیڈروں کو اگر اس واقعے سے نمٹنے کیلئے کوئی حکمت عملی بنانے کا وافر وقت مل جاتا تو وہ پاکستان کے حق میں نسبتاً بہتر حکمت عملی بنا لیتے۔ ہرگز نہیں۔ انہوں نے تو اپنے سیاسی فائدے کے لیے اس واقعہ کو استعمال کرنا تھا اور چاہے پاکستان پر اس سے بھی زیادہ دبائو پڑ جاتا جتنا اس وقت بھارت ڈالنا چاہتا ہے۔ بہرحال بھارت میں میڈیا نے اپنے پورے ملک میں اس واقعے پر جو منفی ردعمل پیدا کردیا اور جس کو بھارت میں حزب مخالف کے سیاستدانوں کی خاص حمایت حاصل تھی اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے سب سے پہلے برسراقتدار لوگوں کو ایک ایسے واقعے کی ضرورت تھی جس سے بھارتی عوام کی انتقام کی آگ تھوڑی بہت ٹھنڈی ہوسکے۔ لہٰذا بھارت میں ایک پاکستانی قیدی پر تشدد کا واقعہ ہوا۔ اب بھارت لاکھ کہے کہ اس کے زیر قبضہ کشمیر کی ایک جیل میں قید‘ ایک پاکستانی کو جو سربجیت سنگھ سے ملتی جلتی کیفیت میں پہنچا دیا گیا ہے‘ اس سے بھارتی حکومت کا کوئی تعلق نہیں تو یہاں پاکستان میں اس کو کوئی نہیں مانے گا۔ اگر آپ سچی بات پوچھیں تو بھارتی حکومت کے اس موقف کو پورے بھارت میں بھی کوئی نہیں مانے گا۔ وہاں لوگ اگرچہ اس بات پر اطمینان کا اظہار کریں گے کہ بھارت نے ایک پاکستانی کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرکے سربجیت کا بدلہ لے لیا ہے لیکن ان کا دل یہ گواہی دے گا کہ یہ بھارت کے اہلکاروں ہی کی کارروائی ہے۔ ہمارے ہاں بھارت میں پاکستانی قیدی پر تشدد کے خلاف انتقامی ردعمل آنے کا امکان کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم افضل گورو کو پھانسی دیے جانے کی وجہ سے بھارت پر جو برہم تھے وہ برہمی سربجیت کے اس انجام تک پہنچنے سے کافی کم ہوچکی ہے۔ اب ہمارا ردعمل ایسے بیانات تک رہے گا کہ بھارت کو اپنی جیلوں میں پاکستانی قیدیوں کی حفاظت میں اضافہ کرنا چاہیے یا یہ کہ پاکستانی قیدی پر بھارتی جیل میں تشدد سربجیت کی موت کے ردعمل میں ہوا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اب ہوگا کیا؟بھارت میں سربجیت سنگھ کی موت پر اور بھی کافی بیان بازی ہوگی۔ وہاں سیاسی جماعتیں اس واقعہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش اس وقت تک کرتی رہیں گی جب تک ان کے ہاتھ کوئی اور ایسا واقعہ نہیں آجاتا جو سربجیت سنگھ کی موت کے واقعہ کو پس منظر میں دھکیل دے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارت سربجیت سنگھ کی موت کے واقعے کو پاکستان سے مخاصمت بڑھانے کے لیے موزوں خیال نہیں کرتا کیونکہ اگر اس کی نیت ایسا کرنے کی ہو تی تو پھر ہمیں یہ نہ دیکھنا پڑتا کہ مقبوضہ کشمیر کی جیل میں ایک پاکستانی قیدی کی تقریباً وہی حالت کر دی گئی ہے جو سر بجیت سنگھ کی کوٹ لکھپت جیل میں کر دی گئی تھی۔ اس کے بجائے بھارت اپنی پراپیگنڈہ مہم تیز کرتا۔ اگر آپ بھارت کے حالات کا پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے جائزہ لیں تو وہاں سیاستدانوں نے نا عاقبت اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف اس قدر نفرت اپنے عوام کے سینوں میں بھر دی ہے کہ وہ اب ہمارے لیے کم اور ان کے اپنے لیے زیادہ بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ ہم تو اب بھارت کو اپنا سب سے بڑا مسئلہ بھی نہیں سمجھتے۔ اندرون ملک ہمیں جو چیلنج درپیش ہیں ہم ان سے نمٹنے کو اپنی اولین حکمت عملی سمجھتے ہیں۔ یہ سب باتیں بھارت کے علم میں ہیں لیکن وہاں سیاسی جماعتوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں انتخابات میں پاکستان دشمنی کے نعرے پر اب بھی سیاسی فائدہ ہوجاتا ہے جبکہ ہماری سیاست بھارت دشمنی کے نعرے کی اسیر نہیں رہی۔ بھارت کے وزیرخارجہ کے اس بیان سے اس امر کی تصدیق ہوجاتی ہے جس میں انہوں نے اس بات پر مسرت کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کے حالیہ انتخابات میں بھارت دشمنی کو ایشو نہیں بنایا جارہا۔ مگر انہوں نے یہ کہنے سے گریز کیا کہ بھارت کی سیاسی جماعتیں پاکستان دشمنی کو ایشو بنا رہی ہیں۔ ہمیں تو طالبان کی وجہ سے عقل آئی ہے۔ دیکھیں بھارت کو کیسے عقل آتی ہے۔ اگر کسی تباہی کے بعد عقل آئی تو یہ برصغیر کے لیے انتہائی بدقسمتی کی بات ہوگی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved