تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     25-08-2019

تبدیلی کھیل نہیں!

بازیافتگی کا عمل سست رو سہی‘ شروع تو ہوا۔ مسائل کا انبار کوہ ہمالیہ سے بھی بلند‘ تقریباًنصف صدی سے بڑھتا ہوا آج اپنی خوفناک شکل میں سب کے سامنے ہے۔ کوئی ایک حکومت‘ فردِ واحد‘ یا ایک سیاسی جماعت اس کی ذمہ دار نہیں؛ہم سب ہیں۔ معاشرے اور اداروں سمیت سب نے مفاد پرستی‘ کوتاہ اندیشی اور کام چلائو سیاست سے اس میں اضافہ کیا۔ اپنے اندر جھانک کر اپنااحتساب کرنے والے ذاتی اور قومی زندگی میں کامیابیوں سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ ذمہ داری سے پہلوتہی اور ناجائز ذرائع سے مال و دولت جمع کرنے والے افراد معاشرے اور ریاست کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
جمہوری اور جاگیردارانہ معاشرے میں بہت بڑا فرق یہی ہے۔ جمہوریت پختہ‘ راسخ اور سماجی رویوں میں سموئی ہو تو فرد اپنی ترقی‘ امن‘ سلامتی اور خوشی مجموعی ترقی اور فلاح میں دیکھتا ہے۔ جاگیردارانہ ذہن صرف اپنی ذات‘ خاندان اور دولت میں مگن رہتا ہے۔ جمہوریت مضبوط ہوتی تو ہمارے فکری اور عملی رویے ایسا احتساب کرتے کہ جرم اور سیاست کا تعلق کبھی اتنا مضبوط نہ ہوتا جتنا آج ہے۔ جاگیردارانہ سیاسی نظام جمہوریت کو اپنی جاگیر اور اقتدار تک پہنچنے کا ایک ذریعہ سمجھتا ہے۔ اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ اس طرح ایک شیطانی چکر نظام بن کر تمام شعبوں کو جکڑ لیتا ہے۔ دولت سے اقتدار اور اختیار حاصل کریں‘ اور اختیار کی طاقت سے مزید دولت کمائیں۔ دولت کی چمک خیرہ کن ہوتی ہے۔ ہر شعبے میں لوگ بکنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ پرجوش حامی‘ لیڈر کے دفاع کے لیے ہمہ وقت تیار‘ دولت کی کشش کے اسیر‘ لیکن نام جمہوری وابستگی۔ نظامِ ریاست بگڑ چکا‘ اخلاقی اور سماجی اقدار سے محروم‘ حق اور سچ کا کلمہ کہنے والوں کی آواز دبائی جاتی ہے۔ کیسے ہوگا پاکستان تبدیل؟ اور کیا یہ سب کچھ ایک سال میں ممکن ہے؟ ہرگز نہیں۔ 
لیکن پاکستان پہلا ملک نہیں جو ساخت کے بنیادی مسائل میں گھرا ہوا ہو۔ یہاں اگر کوئی کچھ کرنا چاہے تو اُسے مذاق‘ تمسخر اور تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ نظامِ ریاست کو خراب کرنے والوں نے ادارے اس قدر خراب کردیے ہیں کہ تمام شعبہ ہائے زندگی ان کے اثرات کی زد میں ہیں۔ صنعت‘ تجارت‘ ابلاغِ عامہ میں موجود اپنے اتحادیوں کو متحرک کرکے اصلاحات کو ناقابلِ عمل بنادیا جاتا ہے۔ ہر اچھے اقدام کوبے اثر کردیا جاتا ہے۔ نظام درست ہوا‘ تبدیلی آگئی تو ادارے فعال ہوں گے۔ احتساب ہوگا‘ عوام کو انصاف ملے گا‘ امکانات کے شگوفے پھوٹیں گے۔ اقتدار کی پرانی دیواریں بوسیدہ ہوکر مٹی کا ڈھیر بن جائیں گی۔ تاریخ کا ورق پلٹے گاتو ہی دولت اور ریاستی اداروں کے سہارے چلنے والے سیاسی خاندان قصۂ پارینہ بنیںگے۔ کوئی بھی ذی شعور بہار کو بکھرے ہوئے خزاں رسیدہ پتوں کے ساتھ وابستہ نہیں کرتا‘ نئے شگوفوں اور کونپلوں سے بہار کی نوید آتی ہے۔ 
ریاست سیاسی خاندانوں اور مقتدر گروہوں کی وجہ سے خرابیوں کا شکار ہوئی تو نتیجہ یہ نکلا کہ جب تک یہ حلقے طاقتور رہیں گے‘ ریاست توانا نہ ہو سکے گی۔ سیاست اور معیشت کاگٹھ جوڑ ریاست پر قبضہ نہیں چھوڑتا۔ ہم نے انقلابِ ایران میں دیکھا‘ اور پھر حالیہ برسوں کے دوران سوڈان‘ مصر اور بہارِ عرب سے اٹھنے والوں طوفانوں کو دیکھا۔ اگر عوام کو امید دکھائی دے تو وہ آخرکار اس گٹھ جوڑ کے سامنے کھڑ ے ہوجاتے ہیں‘ لیکن اگر عوام مایوس اور غیر متحرک ہوں‘ ادارے غیر فعال ہوں‘ قانون کمزور ہوتو مصنوعی مزاحمت کی فضا پیدا کرنے کیلئے درباریوں کے لشکرتیار کیے جاسکتے ہیں۔ جیت گئے تو کیا کہنے‘ اگر ہاردکھائی دے تو مال و دولت اٹھا کر فرار۔ کون نہیں جانتا کہ ایرانیوں نے قصد کرلیا کہ وہ نوآبادیاتی نظام‘ اس کے کارندوں اور طاقتور بادشاہ ‘ اور اس کے گرد وسیع اوربااثر اشرافیہ کو ہرقربانی دے کر چلتا کردیں گے تو پھر مضبوط قلعے عوامی جذبے کے سامنے ریت کی دیوارثابت ہوئے۔ کہاں ہیں وہ تختِ ایران کے وارث‘ کہاں ہے دولت مند ایرانی اشرافیہ‘ سب سنہری‘ سفید اور دیگر کئی رنگوں کے انقلاب کے دلفریب داستان گو‘ وقت کی آندھی اُنہیں کاغذکے ٹکروں کی مانند اُڑالے گئی۔ یہی حال سوڈان کا ہے۔ جس فوجی آمر نے ملک پر تیس سال بزور طاقت حکومت کی‘ کل دنیا نے دیکھا کہ وہ آہنی پنجرے میں بند‘ عدالت میں پیش ہوا۔ اپنے معاشروںکو بدحال کرنیوالوں کا عبرتناک انجام چشم کشا ہے۔ ہمارے ہاں بھی عبرت کی تاریخ لکھی جارہی ہے؛ لیکن ہم فرانس نہیں ہیں۔ 
تاریخ‘معاشرہ اور افراد اجتماعیت کے زور پر ہی اپنا راستہ بنا سکتے ہیں‘ ورنہ بے بس‘ اپنی تقدیر سے نالاں‘ مایوس اور ذات کی فکر میںسب کچھ کھو بیٹھتے ہیں۔ جن انقلابی تبدیلیوں کا ذکر اوپر کیا‘ اُن میں ہزاروں بے لوث نوجوانوں‘ سیاسی کارکنوں‘ رہنمائوں اور دانشوروں نے اپنے خون سے رنگ بھرا۔ انقلاب کا کلہاڑا روکنے کیلئے جمہوری طرزِ حکومت اپنائی جاتی ہے تاکہ لوگوں میں امید باقی رہے کہ نئے آنے والے جانے والوں سے بہتر ہوں گے۔ ہم نے‘ اور کئی دیگر فرسودہ جمہوری معاشروں نے کئی دہائیاں اپنے خوابوںکی تعبیر میں گنوادیں‘ مگر وہ بے داغ اجلا نصیب نہ ہوا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ دوسیاسی دھڑوں‘ اتحادوں اور اب سیاسی کمپنیوں‘ معاف کیجیے‘ سیاسی خاندانوں میں ملک میں انقلابی تبدیلیوں کی مسابقت کا عمل اکتالیس سال پہلے شروع ہوا۔ باریاں لگی رہیں‘ ہم اچھے دنوں کا انتظار کرتے رہے۔ اُن میں سے ایک کودوسرے پر ترجیح دیتے رہے کہ اب اُنھوں نے اقتدار کھو کر سبق سیکھ لیا ہوگا۔ سبق اُنھوں نے ضرور سیکھا‘ مگر مال بنانے‘ زر اندوزی کرنے اور اسے بیرونی ساحلوں پر ٹھکانے لگانے کا۔ پھر ان کی دولت نے ہزاروں کی تعداد میں سیاسی طفیلیے پیداکیے۔ کس اعتماد سے وہ اپنے آقائوں کا دفاع کررہے ہیں۔ خدا کی پناہ! غلامی اور آزادی میں پہلے اتنا فرق محسوس نہیں ہوا جتنا گزشتہ دس بیس برسوں میں ہوا۔ 
بیشک جمہوریت کمزور اور ہمارے جیسی لولی لنگڑی ہی کیوں نہ ہو‘ مگرفکری‘ سماجی اور سیاسی تحریکوں کے راستے کھولتی ہے۔ عوام میں بیداری ایک طویل‘ سست اور کٹھن عمل ہے‘ کبھی تیز بھی ہوسکتا ہے۔ تیسری طاقت کے اقتدار میں آنے کیلئے اس شعورکا ہونا ضروری ہے۔ تبدیلی کے نام پر پاکستان پیپلز پارٹی بنی۔ اس وقت مجھ جیسے خوابوں کی دنیا کے لوگ اس کا ہراول دستہ بنے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہی لوگ اقتدار پر براجمان ہوئے جن کے خلاف تحریک چلی تھی۔ ایک نسل کے خواب گرد راہ بنتے ہیں تو اگلی نسل پھر سے اپنی آنکھوں میں بُنتی ہے۔ انہی خوابوں نے عمران خان کو آگے بڑھنے کا موقع دیا۔کچھ خوبیاں تو ضرور ہیں جو وہ ایک فاسٹر بالر سے ایوان اقتدار تک کا طویل سفر طے کرپائے۔ خوداعتمادی‘ خلوص‘ جہد مسلسل‘ استقامت اور نظریے کی صداقت پر یقین غیر معمولی صلاحیتیں ہیں۔ عمران خان میں یہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ سوئی ہوئی قوم کو جگایا‘ کرپشن کو قومی زوال کا موجب بتاکر آخرکار منوا لیا کہ دشمن کو تلاش کرنے کیلئے سرحد پار جانے کی ضرورت نہیں۔ سب سے پہلے خیبر پختونخوا کے عوام اور پھر پنجاب‘ کراچی اور ہر جگہ کے لوگ عمران خان کے قائل ہو گئے۔ آج محروم اقتدار اپنی صفائیوں میں مصروف ہیں کہ پانامہ میں ہماری دولت جائز‘ لندن کی جائیدادوں میں جائز بے نامی کھاتے ہمارے نہیں۔ ملک کے اندر اور باہر سب دولت کی نشانیاں بدعنوانی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔لیکن پرانی سیاسی کمپنیاں کچھ خسارے میں جارہی ہیں مگر دیوالیہ نہیں ہوئیں۔
ان معروضات کو دیکھیں تو نصف صدی سے یرغمال قوم میں سدھار تو نہیں آسکتا۔گزشتہ بیس سال پُرآشوب تھے۔ اب تو راستہ ہموار ہونے لگا ہے۔مشکل فیصلے ہو چکے؛ جن میں بلاتفریق احتساب‘ ٹیکس کے نظام کی درستی‘ ٹیکس چوروں کے گرد دائرہ تنگ اور معیشت کے پہیے کو پٹڑی پر چڑھانے کا عمل شامل ہے۔ توقعات زیادہ تھیں اور اب بھی ہیں۔ میرے نزدیک جو وسائل اور طرز حکمرانی مہیا ہیں‘ ایک سال میں بہت کچھ ہوسکتا تھا جو نہیں ہوا۔ فیصلہ سازی میں تاخیر ابھی تک باقی ہے۔ بدعنوانی ضلع کی سطح پرزوروں پر ہے‘ حکومتی محکمے ابھی تک فعال نہیں‘ جوابدہی کا عمل کمزور ہے۔منڈی اور سرمایہ کاری کا اعتماد ابھی تک بحال نہیں ہوا۔خارجہ محاذ پر کچھ کامیابیاں تو ہوئیں مگر داخلی میدان میں پہلے جیسا جوش و جذبہ دکھائی نہیں دیتا۔سیاست میں امکان کا شجرپھل نہ دے‘ کوئی بات نہیں‘ چھائوں تو دے۔ جو لوگ پھل پر صبر کرلیتے ہیں کہ شاید کبھی میٹھا ہوجائے‘ وہ تمازت برداشت نہیں کرسکتے۔ چھائوں کی تلاش میں کسی اور سمت چل پڑتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved