تحریر : محمد اعجاز میاں تاریخ اشاعت     25-08-2019

ہمارے انسانی وسائل اور تبدیلی

کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار وہاں موجود انسانی وسائل کے بہتر استعمال پر ہوتا ہے‘ بالخصوص نوجوان ملک کیلئے ایک قیمتی سرمایہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انسانی سرمایہ ملک کی معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ درحقیقت ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں بنیادی فرق انسانی سرمائے کے بہتر استعمال اور انسانی ترقی کا ہی ہوتا ہے۔ سکاٹش اکانومسٹ اور فلاسفر ایڈم سمتھ کے بقول کسی بھی ملک کی خوشحالی کا انحصار وہاں موجود لیبر کی صلاحیت اور مہارت پر ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ نوجوانوں نے اپنے ملک و قوم کو اٹھانے میں ہمیشہ ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کیا۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بالخصوص چائنہ نے اپنے اس سرمایے کا بروقت اور برمحل استعمال کیا اور کامیاب ٹھہرے۔ کامن ویلتھ گلوبل یوتھ ڈویلپمنٹ کی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ جن ممالک نے اپنے نوجوانوں کی تعلیم وتربیت پر توجہ دی وہی ترقی یافتہ قرار پائے۔ نوجوانوں کی ترقی کی شرح کو پانچ زاویوں سے ماپا جاتا ہے: تعلیم، صحت، روزگار، بہبود اور ان کیلئے دستیاب مواقع۔ رپورٹ کے مطابق نوجوانوں کی ترقی کے لحاظ سے دنیا کے دس پہلے ممالک میں جرمنی، ڈنمارک، آسٹریلیا، سوئٹرزلینڈ، برطانیہ وغیرہ شامل ہیں۔ کینیڈین معیشت دان پروفیسر کین گیلبرتھ یہ کہنے میں حق بجانب تھے کہ کسی ملک کی معیشت میں بہتری انسانی ترقی اور انسانوں پر خرچ کرنے میں ہی پنہاں ہے اور بہتر انسانوں سے ہم بہتر معیشت حاصل کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں انسانی ترقی تو درکنار شہریوں میں بنیادی سماجی شعور کی بھی انتہائی قلت نظر آتی ہے۔ یہاں نظام تعلیم میں تعلیم اور شعور دو قدرے مختلف چیزیں ہیں۔ کسی بھی انسان کیلئے پہلی درسگاہ اسکا اپنا گھر اور ماحول ہوتا ہے۔ درسگاہوں میں نصابی تعلیم تو دی جاتی رہی لیکن اخلاقی اور معاشی تربیت نہیں دی گئی۔ مسجد و مکتب بھی ایک درسگاہ کی حیثیت رکھتے تھے لیکن یہ بھی مفاد پرست ٹولے اور انتہا پسندوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ جہاں تعلیمی اداروں اور علما نے قوم کی تربیت اور کردار سازی کی طرف توجہ نہ دی وہیں کسی حکومت اور لیڈر کی جانب سے بھی کوئی ٹھوس پالیسی مفقود نظر آتی ہے۔ قوم کو مسلک اور فرقہ واریت کی بحث میں الجھائے رکھا گیا۔ سیاسی حکمرانوں نے نت نئے نعروں سے قوم کو لُبھائے رکھا۔ کبھی روٹی، کپڑا‘ مکان تو کبھی نفاذ نظام اسلام۔ زرداری اور شریف خاندان کے ادوار حکومت میں لیڈروں نے کرپشن، لوٹ مار اور منافع خوری کا بازار گرم کئے رکھا۔ معاشرے میں قانون شکن اور بدعنوان افراد ہی وی وی آئی پیز سمجھے جانے لگے اور نوجوان نسل نے انہیں ہی اپنا رول ماڈل جانا‘ پھر کرپٹ لیڈروں نے اوپر سے لے کر مقامی حکومتوں تک کرپٹ ٹھیکیداری کا کلچر متعارف کروایا جس کا Trickle-down effect پورے معاشرے میں نظر آیا۔ غرضیکہ معاشرے کا ہر طبقہ اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر رہا جس کا نتیجہ آج ہم قحط الرجال کی صورت بھگت رہے ہیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک ہے، گاڑیاں دوڑاتے ڈرائیورز راستوں کے حقوق سے نا آشنا ہیں اور اپنی لین میں چلنے سے انتہائی گریزاں۔ ملاوٹ اس قدر کہ لائف سیونگ ڈرگز اور بچوں کیلئے دستیاب دودھ بھی ملاوٹ شدہ ہیں۔ کوڑا کرکٹ کیلئے رکھے گئے کوڑا دان خالی ہوتے ہیں اور سارا کچرا اردگرد سڑک پر پڑا ہوتا ہے۔ جہاں عیدالاضحی پر سڑکوں پر جابجا پڑی آلائشیں ہماری اندر کی غلاظت کی منہ بولتی تصویر ہوتی ہیں‘ وہیں جشن آزادی کے موقع پر موٹرسائیکلوں کے سائلنسر ہمارے مادر پدر آزاد ہونے کے ترجمان ہیں۔ ٹریفک قوانین کا کوئی پاس ہے نہ ہی معاشرتی حقوق کا کوئی خیال۔ شادی بیاہ یا سیاسی اجتماعات پر کھانے کی میز پر لگڑبگڑوں کی صورت یہ ہجوم پل پڑتا ہے۔ غرضیکہ ہر موقع پر عوام میں عقل وشعورکے فقدان کے مناظر دکھائی دیتے ہیں اور یہ مناظر تصدیق کرتے ہیں کہ پاکستانی عوام بدقسمتی سے ایک قوم نہیں بلکہ ہجوم ہے۔
انسانی ترقی پر بحث 1950 کے بعد یکسر نیا رُخ اختیار کر گئی جب مشہور معیشت دان آرتھر لیوس نے معیشت کی بڑھوتری کو غربت کے خاتمے کی بنیاد قرار دیا۔ آرتھر لیوس کے مطابق انسانی ترقی کا معیار یہ ہے کہ اس کے پاس انتخاب کیلئے وسیع اختیار ہو۔ اُنہیں بعد ازاں معاشی ترقی پر تھیوری پیش کرنے پر نوبل انعام سے بھی نوازا گیا تھا۔ آرتھر لیوس نے 1954 میں Dual Economy پر آرٹیکل لکھا تھا‘ جس کے مطابق کسی بھی ترقی پذیر ملک کی معیشت دو سیکٹرز پر مشتمل ہوتی ہے، سرمایہ دار سیکٹر اور روایتی زرعی سیکٹر۔ لیوس کے نزدیک سرمایہ دار یا صنعتی سیکٹر میں تھوڑی لیبر سے زیادہ آمدن کمائی جا سکتی ہے جبکہ زراعت کے سیکٹر میں لیبر زیادہ ہوتی ہے لیکن اس کے برعکس آمدن اور منافع انتہائی کم۔ پاکستان میں ایک زرعی ملک ہونے کے ناتے آدھی سے زیادہ آبادی کا انحصار بالواسطہ یا بلاواسطہ زراعت پر ہی ہے۔ اتنی زیادہ لیبر فورس ہونے کے باوجود زراعت ملک کے جی ڈی پی کا محض 24 فیصد فراہم کرتی ہے‘ جسکی وجہ سے ہمارے ہاں انسانی ترقی کی رفتار انتہائی سست ہے۔
چائنہ اس وقت دنیا کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے۔ اس نے اپنے انسانی وسائل کا بہتر استعمال کرنے کیلئے ان کی کام کرنے کی صلاحیت بڑھانے کا فیصلہ کیا جس کیلئے ضروری تھا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کیا جائے اور موجود انسانی وسائل پر توجہ دی جائے‘ لہٰذا 70 کی دہائی میں وہاں ''One Couple One Child‘‘ پالیسی متعارف کروائی گئی‘ لہٰذا شرح پیدائش کم ہو گئی اور 1970 تا 1991‘ 260 ملین بچوں کی کم پیدائش نوٹ کی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دستیاب آبادی کو قدرتی وسائل کو استعمال کرنے کا بہتر موقع ملا۔ حکومت کی معاشی پالیسیز کی وجہ سے نوجوانوں کو روزگار ملے، انہیں جدید تقاضوں کے مطابق باصلاحیت بنایا گیا اور پھر انہوں نے ملک کو معاشی طور پر مضبوط بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 
پاکستان میں ایوب خان کے دورِ حکومت میں فیملی پلاننگ کا تصور متعارف کروایا گیا تاکہ بڑھتی آبادی کو لگام ڈالی جا سکے لیکن یہاں چائنہ کے برعکس لینے کے دینے پڑگئے۔ وجہ یہ تھی کہ فیملی پلاننگ کا تصور اور اس کی افادیت کا پیغام ملک کے پڑھے لکھے طبقے نے تو اپنا لیا لیکن ان پڑھ طبقے تک یہ تصور اور اس کے ثمرات نہ پہنچ سکے جس میں یوں تو کئی عوامل کارفرما تھے مگر ان میں سرفہرست شعور کی کمی اور مذہبی طبقے کی جانب سے فیملی پلاننگ کو غیر شرعی اور غیر اسلامی قرار دیا جانا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پڑھے لکھے طبقے نے کسی حد تک آبادی کو کنٹرول کرلیا مگر ان پڑھ طبقے نے بچوں کی تعداد میں کمی نہ کی لہٰذا محدود وسائل کی حامل آبادی میں اضافہ ہوتا چلا گیا‘ جس کے پاس بچوں کی خوراک کیلئے مناسب انتظامات تھے‘ نہ ہی بنیادی و اعلیٰ تعلیم کے، نتیجتاً اس معاشرے کی Lopsided and Stunted Growth ہوئی جس کا ذکر وزیراعظم پاکستان عمران خان بھی اپنی تقاریر میں بارہا کرچکے ہیں۔ Stunted Growth کے حامل پاکستان کی ایلیٹ کلاس نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی اور وہ بیرون ممالک سیٹل ہوتے گئے۔ یوں پاکستان میں برین ڈرین ہوتا گیا اور رفتہ رفتہ قوم نالائق ہوتی گئی۔ دوسری طرف فرسودہ تعلیمی نظام کی وجہ سے کوالٹی گریجوایٹس بھی نہ پیدا ہوسکے اور ایسی لیبر فورس تیار ہوئی جس کی پیداواری صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس وقت پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق 2050 تک پاکستان کی آبادی 30سے35 کروڑ تک ہوجائے گی۔
خوش قسمتی سے اس وقت پاکستان کی 13کروڑ سے زائد آبادی نوجوانوں کی ہے جو ملکی آبادی کا 60فیصد سے زائد بنتی ہے۔ یہ شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ یہ نوجوان پاکستان کو آگے بڑھانے کیلئے کافی ہیں بشرطیکہ ان کی کردار سازی پر توجہ دی جائے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی کسی بھی حکومت نے نوجوانوں کی شخصیت سازی اور پروفیشنل صلاحیت کو بڑھانے کیلئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے۔ کامن ویلتھ یوتھ گلوبل ڈویلپمنٹ انڈیکس رینکنگ کے مطابق پاکستان کی پوزیشن جو سال 2013ء میں 89ویں نمبر پر تھی، کم ہو کر 154ویں نمبر پر آ گئی ہے۔ پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک کے تقریبا 17 فیصد گریجوایٹ طلبا بیروزگار ہیں 
جن میں سے طالبات کی بیروزگاری کی شرح 41 فیصد تک ہے جبکہ مرد طلبا کی شرح 7 فیصد تک بڑھ گئی ہے جو محض ایک دہائی پہلے 4 فیصد تھی۔ اسی طرح انٹرمیڈیٹ پاس طلبا میں بیروزگاری کی شرح 11 فیصد ہوگئی ہے جو ایک دہائی پہلے 6.5 فیصد تھی۔ جون 2018 میں پاکستانیوں کی فی کس آمدن 170 امریکی ڈالر ماہانہ تھی جو پاکستانی 27 ہزار روپے کے قریب بنتی ہے۔
اس وقت پوری قوم تبدیلی چاہتی ہے۔ عمران خان نے تبدیلی کے نعرے سے الیکشن لڑا اور عوام نے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے تحریک انصاف کو ووٹ دیا۔ تحریک انصاف کی جماعت نے اپنے منشور میں اور وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقاریر میں بھی انسانی ترقی کا بارہا تذکرہ کیا اور اس کی اہمیت و افادیت پر روشنی بھی ڈالتے رہے مگر حکومت کی جانب سے ایک سال گزر جانے کے باوجود کوئی ٹھوس اور واضح پالیسی اس پیرائے میں سامنے نہیں آ سکی۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ تبدیلی اور ترقی صرف انسانی ترقی سے ہی ممکن ہے۔ لوگوں کی قابلیت اور صلاحیت میں اضافہ کیا جائے اور ان کی تربیت کی جائے، تعلیمی نصاب کو سکول، مدرسہ، کالج اور یونیورسٹی لیول میں ازسرنو ترتیب دیا جائے تاکہ نوجوان مزدوری کرنے کے بجائے پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے ملک کیلئے اندرون و بیرون ملک بیش قیمت اثاثہ بن سکیں، اور 13کروڑ سے زائد نوجوان عضو معطل بننے کی بجائے ملک کی ترقی میں اپنا فعال کردار ادا کر سکیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved