تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     26-08-2019

کشمیر کہانی …(15)

وزیراعظم مہر مہاجن نے مہاراجہ ہری سنگھ کو مشورہ دیا کہ انہیں پاکستان کے خلاف برطانوی وزیراعظم کو خط لکھ کر شکایت کرنی چاہیے۔
برطانوی وزیراعظم ایٹلے کو لکھے گئے اس خط میں مہر مہاجن نے پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ پہلا الزام یہ لگایا کہ پاکستان نے standstill agreement کی خلاف ورزی کی اور خوراک اور دیگر اہم اشیا کی سپلائی روک دی‘ جس سے کشمیر میں ان اشیا کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ دوسری یہ شکایت کی گئی کہ پاکستان کی طرف سے کشمیر کو گورداسپور سے لے کر گلگت تک حملے کا خطرہ ہے اور پونچھ کے علاقوں میں ایسی لڑائیاں شروع ہو چکی ہیں۔ مہاجن نے لکھا کہ برطانوی وزیراعظم پاکستان کو ان کارروائیوں سے روکے اور اس کی قیادت کو کہے کہ وہ کشمیر کے ساتھ انصاف پر مبنی کام کرے۔ برطانوی وزیراعظم نے مہاراجہ کے وزیراعظم کے اس خط کا کوئی جواب نہ دیا۔ اب انہوں نے براہ راست پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح اور وزیراعظم لیاقت علی خان کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا۔
اٹھارہ اکتوبر کو جموں و کشمیر کی ریاست نے ایک احتجاجی مراسلہ گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح اور وزیراعظم لیاقت علی خان کو لکھا۔ اس خط کے جواب میں قائداعظم نے لکھا کہ دراصل سپلائی میں پرابلم اس لیے آرہا تھا کہ مشرقی پنجاب میں ہونے والے فسادات اور ہنگاموں کی وجہ سے مواصلات میں بہت مسائل تھے‘ اور سب سے بڑھ کر کوئلے کی سپلائی معطل ہوگئی تھی۔
اس دوران پٹھان‘ جن میں آفریدی، وزیر، محسود، سواتی قبائل کے جنگجو اور پاکستانی فوج کے کچھ ریٹائرڈ یا چھٹی پر گئے ہوئے افراد شامل تھے‘ کشمیر کی طرف روانہ ہوئے۔ ان پٹھانوں نے ڈومیل اور گڑھی پر قبضہ کیا؛ تاہم مہاراجہ کے لیے سب سے بڑا جھٹکا یہ تھا کہ اس کی ڈوگرا فورس میں جتنے مسلمان اہلکار اور سپاہی شامل تھے وہ چھوڑ چکے تھے۔ انہوں نے اپنے کمانڈر کو گولی مار کر اس قافلے میں شمولیت اختیار کر لی تھی جو سری نگر کی طرف رواں دواں تھا۔ چند دن پہلے تک مہاراجہ ہری سنگھ اپنے لیفٹیننٹ جنرل نارائن سنگھ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا وہ اپنی بٹالین پر بھروسہ کر سکتا ہے‘ جس میں آدھی تعداد مسلمانوں کی ہے۔ جنرل نے جواب دیا تھا کہ وہ ڈوگرا فورس سے زیادہ مسلمان اہلکاروں پر بھروسہ کر سکتا ہے۔ وہ برسوں سے اس بٹالین کی کمانڈ کر رہا تھا لیکن اسے علم نہ تھا کہ بدلتے حالات میں جب جموں میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی تھی اور دو تین لاکھ کشمیریوں کو اپنی زمین چھوڑنے پر مہاراجہ کی فورس مجبور کر رہی تھی‘ مسلمانوں کے اندر بھی بغاوت کے اثرات نمودار ہورہے تھے۔ انہیں لگ رہا تھا کہ اگر انہوں نے اس موقع پر کوئی فیصلہ کن کردار ادا نہ کیا تو مسلمانوں کے لیے کشمیر میں ہمیشہ کے لیے جگہ تنگ ہوجائے گی اور وہ مہاراجہ کے غلام بن کر رہ جائیں گے۔ جب مہاراجہ کی فوج کے چیف آف سٹاف ایک بریگیڈیئر راجندر سنگھ کو پتا چلا کہ مہاراجہ کی فوج میں سے مسلمان اہلکار چھوڑ کر قبائلیوں کے لشکر کے ساتھ مل گئے ہیں تو اس نے مشکل سے ڈیڑھ سو سپاہی اکٹھے کیے اور انہیں روکنے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ اس نے سب سے پہلے اڑی کا پل اڑایا اور دو دن تک قبائلی لشکر کو یہاں روکے رکھا؛ تاہم لشکر نے بہت جلد انہیں شکست دے کر سری نگر کی طرف مارچ جاری رکھا اور چوبیس اکتوبر کو سری نگر کو بجلی سپلائی کرنے والا پاور سٹیشن دھماکے سے اڑا دیا گیا تھا۔ سری نگر اب لشکر کے قدموں میں پڑا تھا۔ لشکر نے اعلان کر دیا کہ چھبیس اکتوبر کو وہ سری نگر میں داخل ہو کر مسجد میں اپنی فتح کا جشن منائیں گے۔
اب مہاراجہ اور اس کے وزیراعظم مہر مہاجن کو اندازہ ہو چلا تھا کہ ان کا اقتدار ختم ہونے والا ہے۔ تخت تو چھوڑیں اب ان کی زندگیاں تک دائو پر لگ چکی تھیں۔ دونوں کی سب ترکیبیں ناکام ہوگئی تھیں۔ وہ کشمیر کو اب ایک آزاد ریاست کے طور پر نہیں منوا سکتے تھے۔ انہیں پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ یوں مہاراجہ اور مہر مہاجن نے بھارت کو مدد کی اپیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ بائیس تاریخ کو لشکر نے کشمیر میں جنگ شروع کی تھی جبکہ دو دن بعد چوبیس اکتوبر کی صبح دہلی میں ہندوستانی حکومت کو مہاراجہ کی طرف سے ایک خط ملا جس میں فوراً مدد کی اپیل کی گئی تھی۔ ساتھ ہی پاکستان کے اس وقت کی انگریز ملٹری کمانڈر نے ہندوستان اور پاکستان کے سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل Auchinleck کو اطلاع دی کہ کشمیر میں پاکستانی لشکر داخل ہوچکا ہے۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ جب ہندوستان اور پاکستان تقسیم ہوئے تو ساتھ ہی انڈین آرمی، رائل انڈیں نیوی اور رائل انڈین فورس کو بھی دونوں ملکوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ اس تقسیم کا کلیہ وہی بنایا گیا تھا کہ مسلمان افسران پاکستان آرمی میں جائیں جبکہ دیگر مذاہب کے ہندوستان فورسز کو جوائن کریں گے۔ یوں نیوی، آرمی اور ایئرفورس کے تین کمانڈرز پاکستان کے پاس تھے اور تین بھارت کے پاس۔ ان چھ کمانڈروں کے اوپر ایک سپریم کمانڈر تھا تاکہ وہ فوجی ہتھیاروں اور دیگر اشیا کی تقسیم کے پورے عمل کو یقینی بنائے۔ اس برٹش سپریم کمانڈر کو دونوں ملکوں کے چھ کمانڈرز ہر بات سے باخبر رکھتے تھے اور وہ سپریم کمانڈر آگے ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کو اطلاع کرتے تھے۔
یوں جب قبائلی لشکر کی خبر پھیلی تو پاکستان کے جی ایچ کیو سے یہ خبر سپریم کمانڈر کو دہلی بھیجی گئی۔ اس وقت پاکستان آرمی کے کمانڈر ایک برٹش افسر تھے۔ سپریم کمانڈر نے آگے سے یہ اطلاع بھارتی حکومت تک پہنچائی۔ یوں بھارتی حکومت کے پاس جہاں مہاراجہ ہری سنگھ کی مدد کی اپیل میز پر رکھی تھی کہ ہمیں بچائو اور ہمیں پاکستان ساتھ جانے سے بچائو‘ وہیں ان کے پاس سپریم کمانڈر کی طرف سے یہ اطلاع پہنچ گئی تھی کہ پاکستانی آرمی کے انگریز کمانڈر نے بھی لشکر کی تصدیق کی ہے۔
اب ہندوستانی حکومت‘ جسے قائم ہوئے ابھی دو ماہ بھی نہیں ہوئے تھے‘ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ان حالات میں کیا کرے۔ ہچکچاہٹ کی ایک وجہ یہ تھی کہ لارڈ مائونٹ بیٹن‘ جو اب ہندوستان کا گورنر جنرل تھا‘ شروع میں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں تھا۔ مہاراجہ کو راضی کرنے کے لیے وہ تقسیم سے کچھ دن پہلے سری نگر میں تین راتیں بھی گزار آیا تھا‘ جس میں اس نے مہاراجہ کو قائل کرنے کی پوری کوشش کی تھی کہ وہ پاکستان ساتھ الحاق کرلے‘ اسی میں پوری وادی اور خطے کا فائدہ تھا۔ مائونٹ بیٹن نے اسے سمجھایا تھا کہ کشمیر ایک land locked خطہ ہے اور اسے دنیا سے رابطے‘ میل جول اور کاروبار کے لیے جن راستوں کی ضرورت ہے‘ وہ سارے پاکستان سے گزرتے ہیں۔ اب وہی ہو رہا تھا جس کا خدشہ مائونٹ بیٹن سری نگر میں مہاراجہ سے اپنی ملاقاتوں میں ظاہر کر چکا تھا۔ مہاراجہ نے اس کی بات نہ مان کر دونوں ملکوں کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا۔ وہی مہاراجہ جو لارڈ مائونٹ بیٹن کو سری نگر میں تین راتوں کے قیام کے بعد رخصت کرنے بھی نہیں آیا تھا‘ اب گڑگڑا کر مدد مانگ رہا تھا۔ مہاراجہ ہندوستانی حکومت سے اسلحہ اور گولہ بارود مانگ رہا تھا اور ساتھ ہی ہندوستان سے اپنے فوجی دستے بھیجنے کی اپیل بھی کررہا تھا۔ فیصلہ ہوا کہ فوری طور پر ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے جس میں مہاراجہ کی اپیل اور سپریم کمانڈر کی بھیجی ہوئی اطلاع پر غور کیا جائے؛ تاہم لارڈ مائونٹ بیٹن اس بات پر اڑ گیا کہ اس وقت تک کوئی ایکشن نہ لیا جائے جب تک ہندوستانی حکومت کے پاس سری نگر کے حالات کی پوری خبر نہ ہو۔ اسے مہاراجہ ہری سنگھ پر اعتبار نہیں رہا تھا۔
لارڈ مائونٹ بیٹن نے کہا: پہلے کسی کو سری نگر فوراً بھیجا جائے جو مکمل رپورٹ لائے۔ پھر ہی فیصلہ ہوگا کہ مہاراجہ کو فوج اور اسلحہ بھیجنا ہے یا نہیں۔ اب سوال یہ تھا کہ جب پاکستانی لشکر سری نگر سے کچھ فاصلے پر پہنچ چکا تھا اور کس لمحے بھی سری نگر ان کے کنٹرول میں ہونا تھا‘ وہاں جانے پر کون راضی ہوتا جس کی رپورٹ پر سب کو اعتبار بھی ہو۔ ان حالات میں جب قبائلی لشکر کی دہشت ہر طرف پھیل چکی تھی اور مہاراجہ بھی ڈرا ہوا تھا کیونکہ لشکر سری نگر سے چند میل کے فاصلے پر تھا‘ وہاں جانے کا رسک کون لے سکتا تھا کیونکہ اس میں جان بھی جا سکتی تھی؟
مائونٹ بیٹن سمیت سب کی نظریں اجلاس میں بیٹھے ایک بندے کی طرف اٹھ گئیں کہ یہ خطرناک کام وہی کر سکتا تھا‘ جو چپ بیٹھا سب کچھ سن رہا تھا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved