تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     26-08-2019

ذرا پریوں کے محل تک…(1)

ہنستے بستے،سرسبز و شاداب، دل کشا باغوں سے مزّین اور روح افزا ہواؤں سے معطر شہروں کو کنکریٹ کے جنگل میں بدل دینے کے نتائج کتنے ہولناک ہیں‘ اس کا احساس اصلی جنگل کی دنیا میں پہنچ کر ہوتا ہے۔ ان چھٹیوں میں وکالتی مصروفیات کے باعث چند دن پہلے لاہور آنا ہوا۔ ہمیشہ کی طرح ایک صوفی بزرگ کے آستانے کی طرف چل نکلا۔ بابا بلھے شاہ کے مرشد کا مزار لاہور لاء آفس سے فرلانگ بھر دور ہو گا۔ اسمبلی ہال کے سامنے مال روڈ سے دائیں مڑے تو راستہ بھول گئے۔ ایک لمبا چکر کاٹ کر واپس آئے تو نیچے اُتر کر درگاہ‘ شاہ عنایت قادری کی آخری آرام گاہ پہنچ ہی گئے۔ شاہ عنایت کے مزار کے ساتھ دنیاوی بادشاہوں کے اصل شہزادوں کی قبریں بھی موجود ہیں۔ محکمہ اوقاف کی اس پراپرٹی میں اب ٹائروں اور جوتے کے تلوں کی دکانیں بلکہ ویلڈنگ ورکشاپیں بھی کھل چکی ہیں۔ وہ بھی مزار کی طر ف جانے والے واحد راستے میں۔ ان سب آلائشوں سے پاؤں اور کپڑے بچا کر اندر پہنچے اور بلھے شاہ کے بابے کی بے بسی پر دل اُداس ہو گیا۔ مطلق العنان بادشاہ اور بے لگام شہزادے جن آستانوں پہ نروان اور اطمینان ڈھونڈنے آتے تھے‘ آج دل کی دنیا کے اُن دروازوں پر بھی کنکریٹ کے جنگل اُگ آئے ہیں۔ یہ خود رو جنگل نہیں بلکہ زر پرستی کے پرستاروں کی کارستانی ہے۔ 
انہی خیالات میں ڈوبا ہوا اسلام آباد لاء آفس پہنچا تو پتا چلا کہ تھوڑی دیر میں راجہ جلال خان‘ گورنر گلگت بلتستان ملنے آ رہے ہیں۔ گورنر صاحب نے دعوت دی کہ محرم کے آغاز سے پہلے گلکت بلتستان کا دورہ کریں۔ تین ہفتے بعد، میں پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل عامر کیانی، پی ایم کے سپیشل اسسٹنٹ افتخار درانی اور میرے بیٹے عبدالرحمن، علی الصبح سوا پانچ بجے اسلام آباد ایئر پورٹ جا پہنچے۔
گلگت کے لیے اے ٹی آر فلائٹ تیار کھڑی تھی۔ تھوڑے سے انتظار کے بعد ہم جہاز میں بیٹھ گئے‘ اور فلائٹ مقررہ وقت سے پانچ منٹ پہلے ٹیک آف کر گئی۔ وسیع و عریض ایئر پورٹ پر پی آئی اے کے طیارے بہت کم تھے‘ جبکہ ایک عدد گرفتارِ کرپشن کے ہوائی جہاز زیادہ کھڑے تھے۔
اس سے بھی پہلے‘ جونہی آپ امیگریشن کاؤنٹر کی طرف بڑھیں گے آپ کو اسی گرفتارِ کرپشن کے پرائم ڈیسک ملیں گے‘ لیکن قومی ایئر لائن کے لیے کونے میں ڈیسک چھوڑے گئے ہیں۔ پتا نہیں شکم کے یہ بندے پاکستان کے وسائل کو شیرِ مادر کیوں سمجھ لیتے ہیں۔ ان کے لیے قوم کی امانت والا اختیار لائسنس ٹو خیانت کیوں بن جاتا ہے۔ رول آف لائ، پاؤں کو جوتی اور ذاتی مفادات، آرڈر آف دی ڈے۔ سوچوں کے اسی ہجوم میں مجھے پرانا اسلام آباد یاد آ گیا۔ جب میں سکول میں تھا‘ اور پھر کالج جانا شروع ہوا۔ یہ 1970ء کے عشرے کا درمیانی عرصہ ہے۔ اسی دوران رومانیہ کے کامریڈ صدر لیوچاؤشسکو پاکستان آئے اور ایک ہزار سے زیادہ مسافر بسوں کے چیسز تحفے کے طور پر دے گئے۔ نہ کوئی ایجنڈا، نہ قرض، نہ مطالبہ۔ اچھے زمانے کے اچھے حکمران وہ کہلائے جو اپنے ملک میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے نظام سے ٹکرا گئے۔ یہی نہیں ساری دنیا کے غیر ترقی یافتہ اور غریب لوگ بھی اُن کے ریڈار پر رہے۔ بعد میں آنے والوں نے اسی لیو چاؤشسکو کو بیوی بچوں سمیت گولیوں سے چھلنی کر ڈالا۔ اس دور کے اسلام آباد میں سرخ رنگ کی ڈبل ڈیکر بسیں چلتی تھیں۔ عام سڑکوں پر، کسی میٹرو روڈ پر نہیں۔ ڈبل ڈیکر میں اوپر سکول اور کالج کے بچے اور نیچے کے حصے میں بچیاں سوار ہوتیں۔ سڑکوں پر رش نہ ہونے کے برابر تھا کیونکہ پرائیوٹ گاڑیاں بہت کم تھیں۔ لوگ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے جو دونوں شہروںکے درمیان سفر کا سستا اور صاف ستھرا ذریعہ تھا۔ بالکل لندن کی طرح۔ یہ بسیں روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن آف پاکستان کے ذریعے ہر دم رواں دواں رہتی تھیں۔ تب، پنچاب روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی کالی بسیں‘ جن کا ماتھا پیلا تھا‘ پور ے پنجاب کی سڑکوں پر راج کرتی تھیں۔
بہرحال، بات ہو رہی تھی ہوائی جہاز میں مسافرت کی‘ جس نے اسلام آباد سے مارگلہ، پھر ایبٹ آباد، مانسہرہ اور ناران کے راستے G.B میں دیامر اور چلاّس کی وادیوں اور پہاڑوں کو ناپنا شروع کیا۔ تھوڑی دیر بعد جہاز میں کپتان کی آواز گونجی: لیڈیز اینڈ جینٹل مین، ابھی آپ کے دائیں ہاتھ پر دو کلومیٹر لمبی لولو سر جھیل نظر آئے گی۔ پھر یہی اعلان سیف الملوک جھیل کے آنے پر بھی ہوا۔
اسی سفر کے دوران دنیا کی چھت‘ گلگت جاتے ہوئے پڑتی ہے۔ World,s highest plains آتے ہیں۔ وہ جہاز کے بائیں طرف جبکہ دائیں طرف دوسرے نمبر پر دنیا کی سب سے اُونچی چوٹی آتی ہے جس کے بارے میں اہتمام سے جہاز کے کپتان نے مسافروں کو بتایا۔ اسی چوٹی کا مقامی زبان شینا میں نام ہے: راکا پوشی یعنی پریوں کا محل جبکہ انگریز سیاح اپنی زبان میں اسے Posh Rocks کہتے ہیں۔ راستے کا موسم صاف تھا اور گلگت کا بھی۔ اس روٹ پر سفر کرنے والے دو مسافر طیاروں کو ضرور یاد کرتے ہیں۔ ایک پی آئی اے کا فوکر فرینڈشپ ہوائی جہاز‘ جو عشروں پہلے اسلام آباد ایئر پورٹ سے اُڑا تھا اور پھر کہیں بھی اُس کی لینڈنگ کا سراغ نہ مل سکا۔ تین چار سال پہلے ایسا ہی واقعہ ملائیشیا کے ہوائی جہاز کو بھی پیش آیا تھا۔ ہمارا فوکر فرینڈشپ طیارہ، اُس کے عملے کے چھ سات خواتین و حضرات اور مسافر پریوں کی اسی وادی میں کسی ممتا کے اسیر ہو کر رہ گئے۔ اُن کے پیارے آج بھی اُن کی یاد کے سہارے زندہ ہیں۔ 
دوسرا ہوائی جہاز A.T.R تھا‘ جو ایبٹ آباد کی پہاڑیوں میں کچھ سال پہلے کریش کر گیا تھا‘ جس میں معروف سنگر اور تبلیغی جماعت کے نعت خواں جنید جمشید، اُن کی بیگم صاحبہ اور جہاز کے سارے مسافر اور عملہ راہیٔ ملکِ عدم ہوئے۔
دنیا کے اس اونچے ترین پہاڑی سلسلے میں کپتان کو لینڈنگ سے پہلے ہوائیں تولنا پڑتی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اسلام آباد سے گلگت جاتے ہوئے Tale wind کے زور پر جہاز مقررہ وقت سے پہلے پہنچ جاتا ہے۔ بالکل انگلستان کے روٹ کی طرح۔ جبکہ G.B سے واپسی پر فلائٹ کو مخالف ہوائوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گلگت ایئر پورٹ پر ہم مقررہ وقت سے دس منٹ پہلے لینڈ کر گئے۔
گلگت ایئر پورٹ کینٹ کے علاقے میں واقع ہے۔ دریائے گلگت کے عین کنارے پر۔ ایئر پورٹ پر گورنر صاحب اور پی ٹی آئی بلوچستان کے صدر جعفر شاہ کے ساتھ اُن کی کابینہ اور کارکنوں کی بڑی تعداد ریسیو کرنے آئی تھی۔ تھوڑی دور گلگت گورنمنٹ ہسپتال سے ذرا آگے گورنر ہائوس پہنچ گئے۔ یہی ہمارا مرکزِ میزبانی تھا۔ کچھ سرکاری اہلکار حضرات ضروری معلومات دینے کے لیے موجود پائے‘ جن کے ساتھ ناشتے کی میز پر گفتگو ہوئی۔ سادہ سا دیسی ناشتہ کرنے کے بعد فریش اپ اور آرام کے لیے دو گھنٹے تھے۔ پورا گلگت چنار، دیار، اخروٹ‘ چلغوزے، خوبانی وغیرہ کے درختوں میںگھرا ہوا ہے۔ پہاڑ مکہ شریف کے پہاڑوں جیسے بے آب و گیاہ ہیں‘ صاف اور چٹیل‘ اتنے اونچے کہ اُن کو دیکھتے ہوئے سر سے ٹوپی زمین پر جا گرے۔ صحیح معنوں میں میجسٹک پہاڑی سلسلے۔ یہاں وادیوں میں سب سے اُونچے درخت چنار، چلغوزے، دیار، بہیڑ اور چیڑ کے ہیں۔ بعض ڈیڑھ دو سو فٹ بلندی تک فلک بوس۔
علماء سمیت کئی وفود سے ملنے کے بعد گلگت شہر کی جانب رخ کیا‘ جہاں ورکرز کنونشن برپا تھا۔ جذبوں اور نعروں سے پتا چلا پھر کچھ گفتگوئیںکر کے کہ گلگت کی یوتھ سیاسی شعور کی بیداری میں بڑے شہروں سے بھی تھوڑا آگے ہے۔ یہاں خطاب کے بعد لنچ کے لیے نکلے۔ مُلیدہ دہی کی ڈش، آڑو کے تیل میں بنی ہوئی جبکہ کڑم ساگ اخروٹ کے تیل میں بنا ہوا۔ باقی کھانے بھی موجود تھے‘ لیکن میں انہی دو دیسی ڈشوں کا اسیر ہو کر رہ گیا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved