تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     26-08-2019

قصور کسی کا نہیں

قصور یا تو کسی کا نہیں یا پھر سب کا ہے۔ سب کچھ بدل گیا ہے۔ جو کچھ انسان کے پاس آج تک تھا وہ اب نہیں رہا۔ تہذیبی و ثقافتی اقدار کی پامالی اس انداز سے واقع ہوئی ہے کہ دیکھنے کے بعد اپنی ہی آنکھوں پر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ سب کچھ ایسے انوکھے انداز اورپُھرتی سے بدلا ہے کہ دیکھنے والے محض دنگ رہ گئے ہیں۔ اس سے زیادہ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔ ذرا سوچیے کہ جو کچھ ہوا ہے اُسے دیکھ کر کوئی محض حیرت زدہ رہ جانے کے سوا کیا کرسکتا تھا۔ 
انسان ایک بار پھر شدید اخلاقی بحران کا شکار ہے۔ ہر دور کے انسان کو چند ایک چیلنج درپیش رہے ہیں۔ آج کا انسان بھی اس کُلیے کی زد میں آنے سے بچ نہیں سکا۔ بچتا بھی کیسے؟ اُس کے حصے میں تو سب سے بڑی الجھن رکھی گئی ہے۔ پانچ سے سات عشروں کے دوران دنیا میں جو کچھ ہوا ہے وہ تہذیب و ثقافت کے نقطۂ نظر سے انتہائی خطرناک ہے۔ ہر انسان کسی اور کے نہیں‘ اپنے ہی سامنے کھڑا ہوگیا ہے۔ مقابلہ کسی اور سے نہیں‘ اپنی ذات سے ہے۔ ڈھائی تین ہزار سال کے دوران انسان نے جو کچھ سوچا‘ کیا اور پایا ہے وہ سب کچھ ایک طرف ہے اور اب آخری چار پانچ عشروں میں جو کچھ ہوا ہے وہ دوسری طرف۔ یہ پانچ عشرے تین ہزار سال کی محنت اور پیش رفت کے لیے خطرناک ترین چیلنج بن کر ابھرے ہیں۔ 
ہر دور کا انسان زندگی کو زیادہ سے زیادہ پُرآسائش بنانے پر متوجہ رہا ہے۔ اس حوالے سے فقید المثال محنت پر یقین رکھنے والوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔ مادّی ترقی یقینی بنانے اور زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسانیوں یعنی آسائشوں سے ہم کنار کرنے سے متعلق انسان کی اب تک کی مجموعی محنت رنگ لے آئی ہے۔ ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جس میں مادّی اعتبار سے جینا انتہائی آسان ہوگیا ہے۔ زندگی کو بھرپور آسانیوں سے ہم کنار کرنے والی ہر چیز ایجاد یا دریافت ہوچکی ہے۔ آج کے انسان کو ایسا بہت کچھ میسّر ہے جو ہزاروں سال پہلے عام آدمی کو تو کیا‘ دو ڈھائی سو سال پہلے کے بادشاہوں کو بھی میسّر نہ تھا! قدم قدم پر ایسی سہولتیں دستیاب ہیں جو کسی بھی انسان کو مادّی اعتبار سے آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں اور کرتی ہیں۔ کوئی اگر عصری تقاضوں سے ہم آہنگ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہے تو اس کی بھرپور گنجائش موجود ہے۔ سوال صرف اخراجات کا متحمل ہونے کا ہے۔ آج ہر انسان کو بے مثال انفرادی ترقی سے ہم کنار ہونے میں مدد دینے والی تمام سہولتیں بہ درجۂ اتم موجود ہیں۔ 
سوالوں کی گاڑی تہذیب و اخلاق کے سٹیشن پر آکر رک گئی ہے۔ انسان نے اب تک کے سفر میں جتنی بھی اخلاقی اقدار کا دامن تھام رکھا تھا اُن سب سے مکمل گلو خلاصی کی تیاری کی جارہی ہے۔ یہ بات حیرت انگیز تو کم‘ افسوس ناک زیادہ ہے‘ مگر اس سے بھی بڑھ کر حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جن اقدار کا دامن تھامے رہنے سے انسان ہر معاملے میں سکون پاتا تھا اُنہیں اچانک از کارِ رفتہ سمجھ لیا گیا ہے۔ جس طور گھر کا کاٹھ کباڑ ٹھکانے لگایا جاتا ہے بالکل اُسی انداز سے اخلاقی و تہذیبی اقدار کو بھی زندگی کے مجموعی سیٹ اپ سے نکال باہر کرنے کی مکمل تیاری کرلی گئی ہے! بات حیرت انگیز ہے نا؟ جو اقدار زندگی کو متوازن رکھتی آئی ہیں آج انہیں لاحاصل یا فضول سمجھ کر بالائے طاق رکھنے کی سوچ اپنالی گئی ہے۔ انسان نے کم و بیش تین ہزار سال کے ارتقائی سفر میں جو کچھ پایا تھا وہ آج اُسے اچانک غیر اہم‘ بلکہ فضول دکھائی دینے لگا ہے۔ فطری علوم و فنون کے حوالے سے حیران کن پیش رفت نے انسان کی سوچ ہی بدل ڈالی ہے۔ زندگی کو آسائشوں سے ہم کنار رکھنے کی خواہش کو عملی شکل دینے کی دوڑ میں وہ بہت آگے نکل آیا ہے۔ مُڑ کر دیکھنے کی توفیق نصیب ہو تو اندازہ ہو کہ جو کچھ پیچھے رہ گیا ہے اُس کے دم سے زندگی کتنی رنگین و پُرکیف تھی۔ 
انسان واقعی بہت عجیب واقع ہوا ہے۔ جنگل کے حیوان اور گھریلو مویشی تک اپنا بھلا بُرا سمجھتے ہیں اور جو چیز نقصان پہنچا رہی ہو اُس سے دور رہتے ہیں۔ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ جن اشیا کے استعمال سے بھرپور نقصان کے سوا کچھ نہیں ملتا اُنہیں ترک کرنے کا اب تک نہیں سوچ رہا اور جن باتوں سے بھرپور فائدے کے سوا کچھ نہیں ملے گا انہیں اپنانے کی طرف مائل نہیں ہو رہا۔ اخلاق کا یہی معاملہ ہے۔ آج کے انسان کی ساری توجہ مادّی اعتبار سے سکھی ہونے پر ہے۔ اخلاقی اقدار کو دوبارہ اپنانے کی صورت میں زندگی کتنی پُرسکون ہوسکتی ہے اس کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی جارہی۔ بیک وقت دلچسپ اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ کم و بیش ہر انسان اچھی طرح جانتا ہے کہ صرف مادّہ پرستی سے زندگی میں خلا پیدا ہوتا ہے جسے پُر کرنے میں عمر بیت جاتی ہے مگر پھر بھی مادّہ پرستی ترک کرنے کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہوا جارہا! 
1900 ء سے 1970 ء تک انسان نے ایجادات و اختراعات کے حوالے سے جو محنت کی تھی اُس کے حیران کن و خوشگوار نتائج 1970ء سے نمودار ہونے لگے۔ تب تک کیفیت یہ تھی کہ برسوں تک منظر اچانک تبدیل نہیں ہوتا تھا‘ یعنی بہت کچھ ایجاد یا دریافت تو کیا جاتا تھا مگر زندگی کا مجموعی ذائقہ بدلتا نہیں تھا۔ 1970ء کے بعد سے ترقی کا عمل تیز ہوگیا۔ ایجادات و اختراعات نے عام آدمی کی زندگی کو زیرِ دام لانے کا عمل تیز کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ زندگی میں ایسا بہت کچھ آگیا جو لازم تھا۔ بہت کچھ بہت آسان ہوگیا۔ مگر دوسری طرف بہت سی مشکلات بھی زندگی میں در آئیں۔ دنیا کا دھندا اسی طرح چلتا ہے۔ آسانیوں کے دامن میں مشکلات بھی ہوتی ہیں اور مشکلات کو کھنگالیے تو چند ایک آسانیاں بھی نکل آتی ہیں۔ 
ہر دور مشکلات اور آسانیوں سے عبارت رہا ہے۔ آپ سوچیں گے ایسا ہے تو پھر اب کون سی انوکھی بات ہوگئی ہے کہ ہم اس دور کو انتہائی پیچیدہ سمجھیں۔ پیچیدگی ہے جناب۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ آج تک تھا وہ اب ختم ہوگیا ہے اور معیشت و معاشرت کا پورا سیٹ اپ ہی کچھ کا کچھ ہوگیا ہے۔ نصف صدی قبل تک معاشرے کچھ اور ہوا کرتے تھے۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ تبدیلیاں ہر معاملے کو تلپٹ نہیں کردیتی تھیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ زندگی کا ہر پہلو رنگ بدل چکا ہے۔ وسائل یعنی آسائشوں کی کثرت نے انسان کو اتنی آسانیاں عطا کی ہیں کہ جینا مشکل ہوگیا ہے! انفرادی سطح پر مادّی ترقی کی دوڑ نے اخلاقی اقدار اور تہذیبی اثاثے کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہر رشتہ‘ ہر تعلق مادّہ پرست سوچ کے گرد گھوم رہا ہے۔ گویا بس یہی کچھ زندگی ہو۔ 
ہمیں محض آسائشوں اور آسانیوں میں گم ہوکر نہیں رہ جانا ہے۔ ہر معاملے کو مادّی ترقی کے نقطۂ نظر سے دیکھنا پورے وجود کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زمانے کے تقاضوں کو سمجھنے میں کوتاہیاں سرزد ہو رہی ہیں‘ مگر اس حوالے سے یا تو سبھی قصور وار ہیں یا پھر کوئی بھی قصور وار نہیں۔ اس بحرانی کیفیت سے سب کو نکلنا ہے اور وہ بھی ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے۔ آج کی زندگی ہم سے بہت کچھ مانگ رہی ہے۔ اُس کا سب سے بڑا مطالبہ تو یہ ہے کہ اخلاقی اور تہذیبی ورثے کو خالص مادّہ پرستی کی نذر نہ ہونے دیا جائے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved