تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     27-08-2019

جہاں بانی اور خود فریبی

ریاستیں اگر فن ِ جہاں بانی سے عاری ہوں تو زمانے کی دوڑ میں نااہل قرار پاتی ہیں۔ ان کی ہیئت‘ ترتیب ‘ تاریخ اور وجود کا تعلق خیالی دنیا سے نہیںمادی حقائق سے ہوتا ہے۔ مفادات کا حصول پیش ِ نظررہتا ہے ۔ جذباتی تعلق کی اس میں گنجائش نہیں ہوتی ۔ قدیم دور کی سلطنتوں کے واقعات اور تاریخ سے سبق اور دانائی حاصل کی جاتی ہے ۔ لیکن اُس دور میں طاقت‘ نظام ِ مملکت اور ترقی کا معیار اور پیمانے مختلف تھے۔ ہر معاشرے نے اپنی تاریخ رقم کرتے وقت اپنے آبائو اجداد کے خوبصورت بت تراشے ۔ کس کے قومی ہیرو نہیں او ر کون ماضی کی سنہری یادوں سے ذہنی آسودگی حاصل نہیں کرتا؟مگر حال کی خرابیوں‘ تکلیف دہ مسائل اور زمانے کے چیلنجز سے پہلو تہی کرنے سے حالات تبدیل نہیں ہوتے۔ اس کے لیے قومی حالات کا معروضی انداز میں بے لاگ تجزیہ درکار ہوتا ہے۔ علاقائی طاقت کے توازن اور عالمی تبدیلیوں کے پیش ِ نظر قومی سوچ اور حکیمانہ فیصلہ سازی سے آگے بڑھنے کے راستے نکلتے ہیں۔
ماضی بیت گیا۔ کامیاب اور ناکام‘ ہر طرح کے لوگ دنیا میں آئے اور چلے گئے‘ بستیاں آباد ہوئیںاور اجڑ گئیں۔ کچھ بھی باقی نہیں رہتا‘ لیکن تاریخ کا صفحہ پلٹنا ضروری ہے ۔ ان لوگوں کے تجربات‘ کامیابی اور ناکامی‘ دونوں ہمارے لیے مشعل ِراہ ہوتے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ گئے وقتوں کو واپس لانے کے لیے نہیں‘آئندہ برسوں کی فکر اورتیاری کے لیے کیا جاتا ہے ۔ ہر تہذیب نے آنے والی نسلوں کے لیے بہت بڑا ورثہ چھوڑا ہے ۔ اسلامی تہذیب وتمدن ‘ اس کے مختلف ادوار کی سنہری تاریخ ہم سب کے لیے قابل ِ فخر اور لائقِ تقلید ہے ۔سب تہذیبوں کی بنیاد تاریخ سے زیادہ مذہب پر ہے ۔ ویسے ان دونوں کو علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ جدید تہذیبی دھارا مذہب کو سیاست سے جدا کرچکا ‘ مگر معاشرے اور سماجی زندگی سے اس کا تعلق کبھی نہیں کٹا۔ اسلامی معاشروں میں مذہب کا رنگ فطری طور پر غالب رہا ۔ 
آزادیٔ فکر سب کے لیے یکساں ہے۔ تاریخ اور تاریخی حوالوں کو مذہبی جذبات کی نظر سے دیکھنا فرداور معاشرے کو عصر ِ حاضر کے حقائق سے بیگانہ کردیتا ہے ۔ بے جا امیدیں مایوسی میں ڈھل جاتی ہیں۔ آج ہم بہت رنجیدہ نظر آتے ہیں۔ کشمیری مسلمان کئی ہفتوں سے اپنے گھروں میں قید ہیں۔ اُن کی رہی سہی آئینی خودمختاری ختم کردی گئی۔ وہ سراپا احتجاج ہیں۔ کئی دہائیوں سے بھارتی ریاست کی چیرہ دستیوں کا شکار ہیں۔ ہم نے ہمیشہ کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کی حمایت کی ‘ اُن کے حقوق کی بحالی کے مسئلے اور اُن کی حالت ِ زار کو دنیا کے سامنے پیش کیا ۔مودی سرکار کی جارحیت مشرقی پاکستان کے المیے سے کم نہیں۔ اس وقت ہم دنیا کے ہر فورم کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔ ہم نے مصیبت کے وقت مسلمان ممالک کی طرف دیکھا ۔ تاریخی طور پرجنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے اکثریت کے غلبے کو زائل کرنے کے لیے ترکی‘ عرب‘ ایران ‘ افغانستان کے حکمرانوں سے مدد چاہی ہے ۔ روایتی تاریخ نویسی سے لے کر عام نصاب میںمحمد بن قاسم سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک سب ہمارے نجات دہندہ قرار پائے ۔ ہمارے اردو ادب کا بیشتر حصہ ہندوستان پر حملوںا ور حملہ کرنے والے مسلمانوں کی شجاعت سے مزین ہے۔ ہر فاتح کی کامیابی کا بڑے فخر سے تذکرہ ہوتا ہے۔ مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ‘ مگر کیا کریں‘ معروضی تاریخ مفروضوں سے بہت مختلف ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بیرونی حملہ آور وں کی فوج کشی مذہبی وابستگی سے ماورا ‘ سب کے خلا ف تھی ۔ مقصد کشور کشائی اور مادی وسائل کا حصول تھا۔ ہمارا بیانیہ یہ رہا ہے کہ ''ہمارے مسلمان حکمرانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال تک حکومت کی‘‘۔ یہ سب افسانے ہیں۔ نہ وہ ہمارے تھے‘ اور نہ ہم نے حکومت کی تھی۔ فاتحین بادشاہ بنے ‘ اور پھر انہوں نے بادشاہت چلانے کے لیے جہاں بانی کے اصول وضع کیے ۔ بادشاہت انہی بنیادی اصولوں پر چلتی تھی۔ 
یہ سب کچھ اپنی جگہ پر‘ لیکن قیام ِ پاکستان کے بعد ہماری قومی شناخت‘ تہذیبی ورثہ‘ ثقافت اور ہیروز کی تلاش میں ایک طویل سفر پر نکل کھڑی ہوئی ۔ خودفریبی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے ہم جنوبی ایشیا کے باشندوں نے اپنا تعلق اجنبی سرزمینوں اورگزری صدیوں سے جوڑنا شروع کردیا۔جذباتی رشتوں سے تاریخ لکھنے کی کوشش کی۔ ہمیشہ منہ کی کھائی‘ لیکن با ز نہ آئے ۔ ایک صدی پہلے تحریک ِ خلافت شروع کی۔ ترکی جنگ ِعظیم اوّل میں جرمنی اور اٹلی کا اتحادی بن کرانگریزوں کے خلاف بر سر ِ پیکار تھا۔ سلطنت ِ عثمانیہ میں ایران کے بیشتر علاقوں کے علاوہ سارا مشرق ِوسطیٰ‘ شام‘ تمام عرب دنیاشامل تھی۔ عربوں نے ترکی کے خلاف عرب قوم پرستی کے جذبات کو ابھارا۔عربوں کو برطانیہ سے مدد ملی۔ سلطنت ِعثمانیہ اپنی حدود میں سمٹ گئی‘ یہاں تک کہ موجودہ ترکی ایک جدید ریاست کی صورت میں ابھرا۔اس کے لیے کمال اتاترک نے اتحادی فوجوں کے سامنے زبردست مزاحمت کی تھی ۔ اگر وہ کامیاب نہ ہوتے تو آج ترکی کی شکل مختلف ہوتی۔ عجیب بات ہے کہ ہمارے علما اور کچھ سیاسی جماعتیں گاندھی جی کے ساتھ مل کر خلافت بچانے کے لیے برطانیہ کے خلاف احتجاج کررہی تھیں‘ جبکہ ترک رہنما نے خود ہی خلافت کا ادارہ ختم کردیا۔ تحریک ِ خلافت کا انجام تو وہی ہوا جو ہوسکتا تھا‘ مگر اس سے سیاست میں جذباتیت شامل کرنے کا چسکا لگ گیا۔ کچھ علما نے فتویٰ دیا کہ ترکی میں خلافت کے خاتمے کے بعد ہندوستان دارالحرب بن چکا ؛ چنانچہ ہزاروں مسلمانوں نے ہجرت کرکے افغانستان جانے کا قصد کیا۔ کچھ راستے میں لٹ گئے ‘ قتل ہو گئے‘ کچھ واپس آگئے ۔ جو افغانستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے‘ وہاں اُن کے ساتھ کیاہوا‘ یہ ایک الگ اور نہایت دردناک داستان ہے ۔یہاں ریشمی رومال تحریک کا ذکر برمحل ہوگا۔ 1913 ء میں مولانا عبیداﷲ سندھی افغانستان گئے ۔ انہوں نے اس وقت کے افغان حکمران ‘ امیر حبیب اﷲ خان سے برطانیہ کے خلاف ایک معاہدہ کیا جو ایک ریشمی رومال پر لکھا گیا۔ معاہدہ یہ تھا کہ افغانستان ترک افواج کو اپنے ملک سے راستہ اور کمک فراہم کرے گااور وہ فوجیں ہندوستان پر حملہ کرکے اسے برطانیہ سے آزاد کرائیں گی ۔ مقامی مسلمان ترک افواج کی مدد کریں گے ۔ ریشمی رومال پر اُس وقت کے جید علما نے دستخط کرنے تھے ۔ جب وہ رومال بہاولپور سے ہوتا ہوا سندھ کی طرف لے جایا جارہا تھاتو حامل ِ رومال مولانا پکڑے گئے ۔ قیاس یہی ہے کہ امیر حبیب اﷲ بھی انگریزوں کے ساتھ ملا ہوا تھا؛چنانچہ اُس نے انہیں اس سرگرمی سے مطلع کردیا ۔
دونوں تاریخی واقعات یہاں نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تاریخ ہمیں سبق سکھاتی رہی‘ لیکن ہم نالائق طالب علم ثابت ہوئے۔ ضروری تھا کہ ہم افسانوی دنیا سے نکل کر حقیقت کی سنگلاخ زمین پر قدم رکھنا سیکھ لیتے ۔ آج ہمیں دیگر اسلامی ریاستوں کے رویے پر صدمہ نہ ہوتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارا نصاب بھی ہمیں رومانوی دنیا سے نکلنے نہیں دیتا۔ ہم حقیقت اورحکایت میں فرق کرنا نہ سیکھ سکے ۔ آج حال یہ ہے کہ تاریخ کا اصل چہرہ دکھائیں تو افسانوں پر پلا ہوا ذہن بپھر جاتا ہے ۔ بات یہ ہے کہ افراد حقیقت سے فرار حاصل کرکے زندہ رہ سکتے ہیں‘ ریاستیں نہیں۔ ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ ہماے حکمران تاریخ‘ فلسفہ‘ قدیم اور جدید علوم سے نابلد رہے ۔ ابھی بھی یہی حال ہے ۔ آج جب ہم عرب ریاستوں میں سے ایک میں بھارت کے وزیر اعظم کو اعلیٰ ترین سول اعزاز پاتا دیکھ کر صدمے سے نڈھال ہو رہے ہیں کہ ایک طرف بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو جیل خانے میں تبدیل کردیا اور دوسری طرف مودی کی پذیرائی ہورہی ہے ۔
عالم ِاسلام کی یہ بے اعتنائی ہم پر گراں گزری ۔ دل گرفتہ ہیں۔ ایک بار پھر وہی سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ہم دنیا میں تنہا ہوچکے ہیں۔یہ سب خود فریبی ہے ۔ یہ بات ہمیں کب سمجھ آئے گی کہ ریاستیں ہوتی ہی تنہاہیں۔ اُن کی کوئی رشتہ داری نہیںہوتی‘ ہاں مفاد پر مبنی روابط ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ریاست خود اپنے مفاد ات کا تحفظ نہیں کرسکتی تو دوسری ریاستیں اُس کے لیے کچھ نہیں کریں گی۔ مفاد کی اس دنیا میں تہذیبی رشتے‘ نظریاتی ہم آہنگی‘ مشترکہ ثقافت جیسی باتیں بے معانی ہوتی ہیں۔ تمام عرب ریاستیں کشمیر کو ایک مسئلہ سمجھتی ہیں‘ اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ اس سے ان کا کوئی مفاد وابستہ نہیں‘ اس لیے جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved