اکتوبر میں پورا ملک اسلام آباد کی طرف مارچ کریگا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''اکتوبر میں سارا ملک اسلام آباد کی طرف مارچ کرے گا‘‘ اور اسلام آباد والے بھی‘ چونکہ مارچ میں شامل ہوں گے‘ اس لیے ان کا مارچ کسی اور طرف ہوگا ‘جس کے بارے میں اُن کو پیشگی آگاہ کر دیا جائے گا کہ انہوں نے کس طرف مارچ کرنا ہے‘ لیکن چونکہ اسلام آباد کی طرف آنے والوں کی وجہ سے سارے راستے بند ہوں گے‘ اس لیے اُن سے کہا جائے گا کہ وہ ہیلی کاپٹرز پر مارچ کریں‘ تاکہ ملک بھر کا مارچ مکمل ہو سکے ‘جس دوران میں ہیلی کاپٹرز کے ذریعے ملک بھر کے مارچ کا جائزہ لوں گا‘ کیونکہ میں تکمیل پر یقین رکھتا ہوں اور اگرچہ الیکشن ہارنے کے بعد میری کوئی حیثیت ہی نہیں اس لیے ہو سکتا ہے کہ لوگ میری کال پر باہر ہی نہ نکلیں‘ بلکہ اب میں سوچتا ہوں کہ اگر وہ نکل بھی آئے‘ ہو تو ان کی نگرانی کیلئے میں ہیلی کاپٹر کہاں سے لاؤں گا؟ آپ اگلے روز مرکزی مجلس عاملہ سے خطاب کر رہے تھے۔
گیسٹ ہاؤس کھولنے سے مہنگائی کم نہیں ہوگی: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور نواز لیگ ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''گیسٹ ہاؤسز کھولنے سے مہنگائی کم نہیں ہوگی‘‘ کیونکہ یہ کبھی کم یا ختم نہیں ہو سکتی‘ کیونکہ یہ ہمارا کارنامہ ہے اور‘ ہمیں معلوم تھا کہ نئی حکومت آ کر ہمارے خلاف انتقامی کارروائیاں کرے گی‘ اس لیے ہم نے قرضے ہی اتنے لے لیے تھے کہ ان کی ادائیگی کرتے کرتے ہی حکومت ہانپ جائے گی‘ بلکہ گھبرا کر کسی طرف کو منہ کر جائے گی‘ لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ منہ کس طرف کو کرتی ہے‘ اسی لیے ہم اسے کچھ نہیں کہہ رہے کہ یہ خود چند دنوں کی مہمان ہے‘ تاہم سوال یہ ہے کہ اس کے بعد حکومت کون چلائے گا ؟کیونکہ ہماری جملہ قیادت تو اس وقت تک انتقامی کارروائیوں کی بناء پر اندر ہوگی اور جہاں تک مستقبل کی ہماری وزیراعظم کا تعلق ہے تو انہوں نے ویڈیو پر تقریر کرکے نئی مصیبت اپنے گلے میں ڈال لی ہے۔ آپ اگلے روز نتھیا گلی کے ریسٹ ہاؤس کھولنے پر تبصرہ کر رہی تھی۔
حکومت میں کشمیر کو حقوق دلانے کی اہلیت نہیں: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''موجودہ حکومت میں کشمیریوں کو حقوق دلانے کی اہلیت نہیں‘‘ کیونکہ اپنی خاص اہلیت کی بناء پر یہ کام ہم ہی کر سکتے ہیں اور جس کیلئے یہ ادنیٰ سی ایک مثال ہی کافی ہے کہ جس شخص سے پیسے لینا ہوتے ‘ والد صاحب اس پر ایک دم کرتے تھے‘ تاکہ وہ اگر کوئی گڑ بڑ نہ کرے ‘ اس کے علاوہ جتنی پراپرٹیاں ہم نے بنائی ہیں‘ جن میں سے کافی بے نامی ہیں‘ کوئی بنا کر تو دکھائے اور پھر جعلی اکاؤنٹس کا حیران کن آپریشن ‘جس کی حکومت کو سمجھ ہی نہیں آ رہی اور چکرا کر رہ گئی ہے‘ کوئی معمولی اہلیت رکھنے والا یہ پہاڑ سر کر کے تو دکھائے‘ تو اسے چھٹی کا دودھ یاد آ جائے‘ بلکہ ساتویں اور آٹھویں کا دودھ بھی یاد آ جائے‘ اور پھر متعلقہ مقدمے کا ریکارڈ جلا دینا بھی کوئی خالہ جی کا گھر نہیں اور یہ کمال وہ اس دفعہ بھی کر کے دکھائیں گے‘ کیونکہ سندھ میں تو حکومت ویسے بھی اپنی ہے اور سارا کچھ ہماری مٹھی میں ہے۔ آپ اگلے جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
آدھے ہی دے دو!
وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے زرداری اور شریف برادران سے کہا کہ آدھے پیسے دے دو‘ میں رہائی کی ضمانت دیتا ہوں۔ حکومت پیسوں کی واپسی میں ناکام ہونے کے بعد کچھ دنوں تک آدھے کی بجائے چوتھائی پر بھی آ جائے گی اور آخر ایک پیسہ بھی وصول کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی ‘کیونکہ جیل میں جو سہولتیں انہیں حاصل ہیں تو ان کا دماغ خراب ہے ‘جو وہ پیسے واپس کر دیں‘ بلکہ جس ملزم یا قیدی پر زیادہ مہربان نہ بھی ہو‘ اسے کہہ دیتی ہے کہ اپنے خرچے پر اے سی اور ٹی وی وغیرہ لگوا لو‘ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ؛حالانکہ جیل میں اے کلاس سراسر ایک امتیازی قانون ہے‘ جو آئین پاکستان ہی کے سراسر خلاف ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ سومو موٹو ایکشن نہ سہی‘ کوئی منچلا اُٹھ کر درخواست ہی دے دے تو عدالت عظمیٰ کو اس کے بارے فیصلہ کرنا ہی پڑے گا۔
اور‘ اب آزاد حسین آزادؔ کی شاعری:
غبارِ خواہشِ صد رنگ کے میان کہیں
بھٹک رہا ہے مرا بار بار دھیان کہیں
کسی فقیر نے وحشت میں تخت اُلٹا تھا
کہیں زمین پڑی ہے اب آسمان کہیں
کشش بھنور کی معمہ ہے حیرتی کے لیے
تباہ کر دے نہ کشتی کو بادبان کہیں
کھڑے تھے سہمے ہوئے اونٹ ایک ٹیلے پر
گھرا تھا ریگِ تخیل میں ساربان کہیں
ہوا کے عین مخالف ہیں گر یہ نظارے
تو کیوں یہ دھیان کہیں اور یہ اُڑان کہیں
............
تُو میسر ہو اور بیحد ہو
ایسا ہونا بھی یاد کیا ہونا
بیٹھ جائے گی دُھول رستے کی
کام آئے گا یہ کھڑا ہونا
اپنی رفتار پر نظر رکھنا
اپنے سائے سے مت بڑا ہونا
............
زادِ رہ ہم نے یہی سوچ کے کم رکھا ہے
تُو پکارے تو پلٹ آنے میں آسانی ہو
لو بجھائی ہے کہ احساسِ ندامت سے بچیں
جانے والوں کو چلے جانے میں آسانی ہو
آج کا مقطع
اک ایسی نیند کے نرغے میں رہتا ہوں ‘ ظفرؔ‘ اکثر
میری آنکھوں میں جو خواب ِ زلیخا خود بناتی ہے