تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     28-08-2019

شاپنگ مالوں کا فلسفہ تو کوئی سمجھا دے

بہت سارے امریکی رواج دنیا میں پھیل چکے ہیں۔ اِن میں ایک شاپنگ مالز کا تصور بھی ہے۔ ہر لحاظ سے امریکا بڑا ملک ہے۔ رقبہ بھی اس کا بہت زیادہ ہے۔ وہاں بہت ساری چیزیں جچ جاتی ہیں جو دیگر ممالک میں اتنی اچھی نہیں لگتیں۔ ایک مثال موٹر کاروں کی دی جا سکتی ہے۔ امریکا میں شہروں کا پھیلاؤ بہت ہے۔ شہروں کے بیچ میں بھی فاصلے بہت زیادہ ہیں۔ وہاں موٹر کاروں کا پھیلاؤ سمجھ آتا ہے۔ لیکن باہر کے ملکوں کی تقلید میں ہم نے جو اپنی سڑکیں موٹر کاروں سے بھر دی ہیں اس کا کیا جواز یا تُک ہے؟
جنرل مشرف کے زمانے تک ٹیوٹا کار کا ماڈل 2D ایک خاص معیار کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ فلاں کے پاس 2D ہے، یعنی بڑا صاحبِ حیثیت ہے۔ پھر مشرف کے زمانے میں بینکوں میں سستا پیسہ آیا اور موٹر کاریں لیزوں پہ خریدی جانے لگیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہماری سڑکوں پہ موٹر کاروں کی بھرمار ہو گئی اور 2D کی تو وہ حیثیت ہو گئی جو کہ پہلے سڑکوں پہ گدھا گاڑیوں کی ہوتی تھی۔ ہمارے شہروں میں ٹریفک کا مسئلہ ہمیشہ سے نہ تھا۔ موجودہ ٹریفک کی شکل مشرف دور کی دَین ہے۔ نجی ٹی وی چینلوں کو بھی جنرل صاحب کا تحفہ سمجھنا چاہیے لیکن یہ اور کہانی ہے اور اِس پہ نکلے تو بات کہیں دور تلک پہنچ جائے گی۔ 
موٹر کاروں کا تو کچھ جواز پیش کیا جا سکتا ہے کہ جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام اچھا نہ ہو عوام کو مجبوراً موٹر کاروں کی طرف جانا پڑتا ہے۔ لیکن کوئی بتائے کہ شاپنگ مالز کا ہمارے جیسے ملک میں فائدہ کیا ہے؟ ٹیکسوں کی صورت میں ریاست کو کیا فائدہ پہنچتا ہے اور سہولت کے اعتبار سے عوام کا کیا فائدہ ہے؟ شاپنگ مالوں میں جاتے زیادہ مڈل کلاسیے ہیں جن کے پاس موٹر کار کی سہولت ہو۔ عام آدمی تو جاتا نہیں، نہ اُس کے پاس موٹر کار ہے نہ خرچنے کیلئے مطلوبہ پیسے۔ برانڈڈ قسم کے سٹور ہوتے ہیں اور وہاں آپ جائیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہماری خواتین کا اور کوئی شغل نہیں سوائے اِن مالوں میں جا کے وہاں کی سیر کرنے کے۔ 
اپنا تو یہ حال ہے کہ شاپنگ مال جانا پڑے تو غش طاری ہو جاتا ہے۔ اِن مالوں کی بناوٹ ہی ایسی ہے۔ بڑے بڑے سرمایہ دار لوگ ہیں جو اِن میں پیسہ لگاتے ہیں۔ حکومت نام کی کوئی چیز یہاں ہو تو ایسی سرمایہ کاری سے منع کرے اور مواقع ایسے پیدا کرے کہ یہ سیٹھ لوگ اپنا پیسہ زیادہ مفید راستوں پہ لگائیں۔ لاہور کے تین بڑے مال ہیں۔ دو تو خالصتاً سرمایہ دار گھرانوں کے ہیں جن کو پیسہ مفید سرمایہ کاری میں لگانا چاہیے تھا۔ تیسرا مال ہمارے دیرینہ مہربان کا ہے جن کا نام ہمیشہ ذہن سے پھسل جاتا ہے۔ کسی کو صحیح پاگل کرنا ہو تو اس پر یہ لازم کر دیا جائے کہ پورے چوبیس گھنٹے کسی شاپنگ مال میں گزارے۔ وقت ختم ہونے پہ توبہ توبہ کر کے باہر آئے گا اور پھر کبھی واپس جانے کی نہ سوچے گا۔
بہرحال یہ اپنی اپنی سوچ ہے۔ اتنا عیاں ہونا چاہیے کہ ہمارے جیسے معاشرے میں بڑے شاپنگ مالوں کی گنجائش کم ہی ہونی چاہیے۔ سوائے فضول خرچی کے کسی اور چیز کی ترویج یہ مقام نہیں دیتے۔ غریبوں کو دو وقت کے کھانے کی مشکل ہوتی ہے اور دوسری طرف یہ وسیع پیمانے کی فضول خرچی۔ شاپنگ انسان کی ضرورت ہے لیکن کسی سلیقے اور ڈھنگ کی ہونی چاہیے۔ انار کلی بازار ہوا کرتا تھا۔ وہاں خریداری بھی ہوتی تھی اور ایک عجیب سے رومانس سے بھی واسطہ پڑتا تھا۔ مال پہ شرفاء جایا کرتے تھے صرف خریداری کیلئے نہیں بلکہ سیر سپاٹے کیلئے بھی۔ مال کے ریستوران ایسے تھے کہ دوسرے شہروں کے لوگ صرف چائے پینے یہاں آتے تھے۔ وہ سارا رومانس برباد کر کے ہم نے رکھ دیا۔ ایک بار خیال آیا اور میں نے سوچا کہ آدمی سول سیکرٹریٹ یا جنرل پوسٹ آفس سے شروع ہو تو ایئر پورٹ تک کوئی ایک بھی ڈھنگ کا چائے خانہ نہیں۔ یعنی لاہور کی اس تاریخی شاہراہ پہ آپ چلیں اور آپ کو کسی سلیقے کی چائے کی پیالی نہ ملے۔ راستے میں دو فائیو سٹار ہوٹل بھی ہیں لیکن وہاں کون جائے۔ یوں بھی یہ آزمائی ہوئی بات ہے کہ پاکستان ہو یا ہندوستان اچھی چائے بڑے ہوٹلوں میں نہیں ملتی۔ ٹی بیگ والی بھی کوئی چائے ہوتی ہے؟
پنجاب سیکرٹریٹ میں قدم رکھیں تو آپ کو ایک پوری فوج افسران اور بابوؤں کی ملے گی۔ دفتر پہ دفتر اور بابوؤں سے بھرے ہوئے۔ ان موضوعات پر کبھی دھیان نہیں دیتے؟ معاشرے کی ترقی اور نشوونما میں نوکر شاہی کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ہمارے بابو کیا کرتے ہیں؟ انگریزوں کا راج اور طمطراق اُن کے افسروں کی بدولت تھا۔ اِس دھرتی پہ حکمرانی کا نقشہ انہوں نے کھینچا۔ اُنہی کی سوچ تھی کہ سکول اور کالج کیسے بنائے جائیں اور ریل اور نہری نظام کو کیسے بچھایا جائے۔ مال روڈ کے ارد گرد اُن کے پرانے دفاتر دیکھ لیں۔ کیا مضبوط کنسٹرکشن ہے۔ انتظامی ڈھانچہ ہی دیکھا جائے، ایک طرف دفاتر، ساتھ ہی کالج، ایک طرف میو ہسپتال، ایک طرف ہائی کورٹ کی بلڈنگ، پھر شاپنگ کا ایریا اور پھر بڑے بڑے کلب جہاں گورے اپنی شامیں گزارا کرتے تھے۔ یہ جو بڑا نقشہ لاہور میں دیکھا جا سکتا ہے چھوٹے پیمانے پہ چھوٹے شہروں میں بھی ملتا ہے۔ گوجر خان جائیں یا چکوال اور تلہ گنگ، وہی ترتیب: ایک طرف عدالتیں اور دفاتر، ایک طرف ہسپتال اور پھر سکول کالج وغیرہ وغیرہ۔ انگریز باہر کے حکمران تھے لیکن حکمرانی کا ڈھنگ آتا تھا۔ پنجاب پہ اُن کی حکومت محض 98 سال رہی۔ اُنہی قلیل سالوں میں انہوں نے ایڈمنسٹریشن کا ایک وسیع نظام ترتیب دیا۔ ہمیں آزادی کے 72 سال ہو گئے ہیں۔ یعنی کچھ سالوں میں ہی ہم 98 کو پہنچ چکے ہوں گے۔ کبھی فرصت میں اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ ان 72 سالوں میں ہم نے کون سے کارنامے سرانجام دئیے، کون سا انتظامی نقشہ ہم نے سجایا؟
ایک اور موضوع کی طرف بھی قوم کی توجہ مبذول ہونی چاہیے۔ ترقی کیلئے سیمنٹ کی پروڈکشن ناگزیر ہے۔ موجودہ دور میں کسی قسم کی تعمیر سیمنٹ کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن سیمنٹ کی پیداوار بہت تباہی بھی لاتی ہے۔ جہاں سیمنٹ بنانے کیلئے پہاڑوں سے لائم کا پتھر یا لائم سٹون نکالا جائے وہ زمین تا قیامت کسی کام کی نہیں رہتی۔ لائم سٹون جہاں سے نکلتا ہے وہ زمین ہمیشہ کیلئے برباد ہو جاتی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ترقی کی خاطر یہ ایک ناگزیر نقصان ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ سوچ بھی لازم ہونی چاہیے کہ کسی بھی معاشرے کو کتنی مقدار میں سیمنٹ کی ضرورت ہے اور اُسی مقدار میں تباہی ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے اور آدمی کہتا ہے کہ کیا کریں اتنا تو ہونا ہی تھا۔ پاکستان کا المیہ البتہ یہ ہے کہ ہم اپنی ضروریات سے کہیں زیادہ سیمنٹ پیدا کر رہے ہیں۔ یعنی جو سیمنٹ پیدا ہو رہا ہے اس کی بہت بڑی مقدار اپنے ضروریات کیلئے نہیں بلکہ برآمدات کی شکل میں دوسرے ممالک کی بھلائی کیلئے ہے۔ 
اس سے جو تباہی ہو رہی ہے وہ آپ ایک جھلک میں موٹروے پہ کلرکہار سے گزرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ اسلام آباد سے لاہور جا رہے ہوں تو کلرکہار کے بائیں جانب وہ چند پہاڑیاں دکھائی دیتی ہیں جن سے لائم سٹون نکالا گیا ہے۔ نزدیک پہاڑیاں سرسبز و شاداب ہیں اور یہ مخصوص پہاڑیاں ایک ہولناک تباہی کا منظر پیش کرتی ہیں۔ اور بھی بہت سے نقصانات ہیں۔ سیمنٹ کیلئے صرف لائم سٹون ہی نہیں چاہیے ہوتا بلکہ مٹی اور پانی بھی۔ مٹی نکالنے سے بھی زمین تباہ ہوتی ہے اور پانی نکالنے سے وہ کچھ ہوتا ہے جو کہ کٹاس راج مندر تالاب کے ساتھ ہو چکا ہے۔ کہا جاتا تھا کہ یہ تالاب کبھی خشک نہیں ہو سکتا۔ لیکن ساتھ کھڑے ترقی کے شاہکاروں نے وہ کر دکھایا جو انسانی تاریخ کے اتنے ہزار سال نہ کر سکے۔ 
مطلب یہ نہیں کہ سیمنٹ کی پروڈکشن بند کی جائے۔ لیکن غیر ضروری طور پہ اس کے پھیلاؤ کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور نئے لائسنس تو بالکل نہیں جاری ہونے چاہئیں۔ سیمنٹ کی بڑھوتری کی پیداوار بھی جنرل مشرف اور ان کے وزیر اعظم شوکت عزیز کا تحفہ ہے۔ سرمایہ دارانہ سوچ نے دنیا کو بہت ترقی دی ہے لیکن زندہ اور سوچ رکھنے والے معاشروں میں سرمایہ داری کی روشوں پہ کچھ نہ کچھ پابندی بھی ہوتی ہے۔ بہت ساری چیزوں کی طرح ہمارے ہاں یہ بھی ناپید ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved