تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     28-08-2019

ایک بے ربط کالم

اس بار بردار بزرگ سے بھی وعدہ تھا کہ ان کے پاس چار چھ روز گزارے جائیں گے۔ میرے شہردار بردار بزرگ اعجاز احمد امریکی ریاست جارجیا کے دارالحکومت اٹلانٹا سے قریب ساٹھ ستر کلومیٹر دور ایک بڑے قصبے کارلٹن میں رہتے ہیں۔ امریکہ میں عجیب حساب ہے۔ چھوٹے چھوٹے دیہات کو بھی شہر کا درجہ حاصل ہے۔ برطانیہ میں ''ٹائون‘‘ یعنی قصبے کو ''سٹی‘‘ یعنی شہر بننے کے لئے بہت سے لوازمات پورے کرنے پڑتے ہیں تب جا کر وہ قصبے سے شہر بنتا ہے‘ لیکن ادھر امریکہ میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ برسوں گزرے شفیق کے ساتھ لاس اینجلس سے قریبی ریاست نیواڈا کے شہر لاس ویگاس جاتے ہوئے مہاوی ڈیزرٹ سے گزرا۔ یہ صحرا امریکی ریاست کیلیفورنیا اور نیواڈا کے درمیان ہے۔ یہ انگریزی میں Mojave Desert لکھا جاتا ہے‘ مگر اسے ''مجاوی‘‘ کے بجائے ''مہاوی‘‘ پڑھا جاتا ہے۔ یہ سارا کارنامہ میکسیکو والوں کا ہے جن کی زبان ہسپانوی ہے اور وہ انگریزی کے حرف ''J‘‘ کو جیم کا صوتی آہنگ دینے کے بجائے ''ح‘‘ کی آواز دیتے ہیں۔ سان جوزے لکھتے ہیں مگر اسے ''سان ہیوزے‘‘ پڑھتے ہیں۔ اللہ جانے جون اور جولائی کو کیا پکارتے ہیں۔ 
صحرائے مہاوی سے گزرتے ہوئے درمیان میں ایک جگہ آتی ہے۔ اسے ''ڈیتھ ویلی‘‘ یعنی موت کی وادی کہتے ہیں۔ اس کے چاروں طرف دور دور تک بے آب و گیاہ صحرا ہے۔ کہیں روئیدگی نظر نہیں آتی۔ پانی ملنا بھی محال ہے۔ ان ساری وجوہات کی بنا پر جب سڑکیں نہیں تھیں اور اس صحرا کو عبور کرنا مشکل ہوا کرتا تھا تو اس جگہ کو ڈیتھ ویلی کا نام دیا گیا ہوگا۔ اب اسے عبور کرنا مشکل تو ایک طرف رہا‘ اس کی عام راستے سے زیادہ اہمیت نہیں رہی؛ البتہ گرمیوں میں گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اتنی کہ ملتان یاد آ جائے۔ تب گرمیاں تھیں اور ایئرکنڈیشنڈ گاڑی کے اندر بیٹھے ہوئے گرمی کا احساس نہیں ہو رہا تھا‘ لیکن جیسے ہی دوپہر کا کھانا کھانے کیلئے ایک مشہور میکسیکن فوڈ چین Taco Bell کے سامنے آئے اور گاڑی سے باہر قدم نکالا تو لو کے ایک گرم تھپیڑے نے ہمارا استقبال کیا۔ میں نے شفیق سے کہا: یہ گرمی ہم ملتان والوں کا پیچھا امریکہ میں بھی نہیں چھوڑتی۔ شفیق کہنے لگا: میں نے اس علاقے کا انتخاب کرتے ہوئے ملتان کی گرمی سے محبت کو اولیت دی تھی اور اسی وجہ سے میں نے کیلیفورنیا میں رہنا پسند کیا تھا کہ گرمیوں میں ملتان کی یاد نہ ستائے‘ صرف ایک نقصان ہوا ہے اور وہ یہ کہ گرمیوں میں ملتان کا انور رٹول اور چونسا آم یہاں نہیں ملتا۔ 
ڈیتھ ویلی سے تھوڑا آگے ایک جگہ ایک شہر کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ شہر کا نام تو یاد نہیں لیکن یہ یاد ہے کہ اس بورڈ پر شہر کی آبادی لکھی ہوئی تھی اور وہ غالباً چونتیس تھی۔ یہ تو خیر سے ایک لحاظ سے کافی بڑی آبادی تھی۔ امریکہ میں اس سے بھی چھوٹے شہر ہیں۔ امریکہ کا سرکاری طور پر سب سے چھوٹا شہر ''Lost Spring‘‘ یعنی گمشدہ چشمہ ہے۔ اسے یہ نام وہاں ریلوے لائن کی تعمیر کرنے والے مزدوروں نے دیا‘ جنہیں وہاں پر نقشے پر دیے گئے چشمے کو ڈھونڈنے میں ناکامی ہوئی۔ اس شہر کی آبادی 1818ء میں دو سو تھی۔ یہ لوگ نزدیکی علاقے میں واقع کوئلے کی کان میں کام کرتے تھے۔ بعدازاں یہ کوئلے کی کان بند ہوگئی۔ یہ غالباً 1930ء کے لگ بھگ کا واقعہ ہے۔ تب کے بعد اس شہر کی آبادی گھٹنا شروع ہوگئی۔ حتیٰ کہ 1960ء میں گھٹتے گھٹتے پانچ رہ گئی۔ لوسٹ سپرنگ کو شہرت تب ملی جب اس کی میئر لیڈا پرائس نے شکاگو نارتھ ویسٹرن ٹرانسپورٹیشن کمپنی ریلوے کے خلاف دعویٰ کر دیا کہ ریلوے کمپنی شہر کی ملکیت سوا پانچ ایکڑ زمین پر جو تعمیر کررہی ہے اس سے شہر کے دو اطراف موجود ہائی ویز سے ان کا رابطہ براہ راست نہیں رہے گا۔ معاملہ ریاست ''وائی اومنگ‘‘ کی عدالت میں چلا اور ڈسٹرکٹ جج نے فیصلہ شہر کے حق میں دے کر ان کا مؤقف درست قرار دیا۔ اس فیصلے کے بعد ریلوے والوں نے مجوزہ پلیٹ فارم اور تھڑا بناتے ہوئے سارا ڈیزائن تبدیل کیا اور ساری تعمیر اس طرح کی کہ شہر کی زمین کے بجائے ریلوے نے اپنی ملکیت زمین پر ہی سارا سٹرکچر بنایا اور شہر کے دونوں اطراف میں موجود ہائی ویز تک جانے والے راستے جوں کے توں رہے۔ سنا ہے اس شہر کی آبادی مزید کم ہو گئی ہے اور اب یہاں کے شہریوں کی تعداد صرف چار افراد ہے۔ شہر میں بجلی کی سہولت، ڈاک پہنچانے کا اہتمام، ٹیلی فون کا نظام حتیٰ کہ ریلوے سٹیشن بھی موجود ہے۔
برادر بزرگ جس شہر میں ہیں اس میں دنیا کی ہر سہولت موجود ہے‘ ہر چیز میسر ہے بس ایئر پورٹ نہیں ہے۔ اس لئے اٹلانٹا کے ایئر پورٹ پر اترنا پڑتا ہے۔ ممکن ہے اس شہر میں کوئی پرائیویٹ ایئر پورٹ موجود ہو کہ امریکہ میں پبلک ایئرپورٹس کے علاوہ بے شمار پرائیویٹ ایئر پورٹ بھی موجود ہیں۔ ریاست کے ایئر پورٹ ہیں، شہر کی ملکیت والے ایئر پورٹ ہیں۔ کائونٹیز کے ایئر پورٹ ہیں۔ ان پر جہازوں کے اترنے کی فیس کافی کم ہے اور اندرونِ ملک پروازیں اسی کم فیس کے باعث ان ایئرپورٹس پر اترتی ہیں۔ سستی ایئر لائنز ان کو ترجیح دیتی ہیں۔ امریکہ میں سستی ایئر لائنز والا سلسلہ بھی بڑا مقبول ہے‘ لیکن ان کے استعمال میں بڑی تکنیکی گھنڈیاں ہیں۔ کرایہ محض پچاس ڈالر ہے۔ ہاتھ میں پکڑے ہوئے سامان کا وزن اگر چار پانچ کلو گرام تک ہے اور اس بیگ کی لمبائی چوڑائی اور اونچائی ایک خاص حد تک ہے تو وہ مفت ہے۔ اگر بیگ کا سائز اس سے زیادہ ہے تو اس کا کرایہ ہے۔ عام چھوٹا سا بیگ بھی ان کی دی گئی مفت والی آفر سے کافی بڑا ہوتا ہے اس لئے کرایہ دینا پڑتا ہے۔ اگر ٹکٹ بک کرواتے ہوئے اس ''ہینڈ کیری‘‘ کا کرایہ دیا تو یہ بتیس ڈالر ہوگا۔ اگر موقع پر دیا ہے تو پینتالیس ڈالر تک ہوسکتا ہے۔ اگر سامان جمع کروانے والا بڑا بیگ جس کا وزن پچاس پائونڈ یعنی تقریباً تئیس کلو گرام ہے تو اس کے پچاس ڈالر الگ ہوں گے۔ اب بعض سستی ایئر لائنز تو باقاعدہ ڈکیتی پر اتر آئی ہیں۔ آپ نے ٹکٹ لے لی ہے اور اگر سیٹ بک کرتے ہوئے خالی سیٹوں والے نقشے میں کھڑکی والی سیٹ پر نشان لگا دیا ہے تو آپ کے کریڈٹ کارڈ سے پندرہ ڈالر کٹ جاتے ہیں کہ آپ نے اپنی پسند کی سیٹ لی ہے۔ اس طرح صرف ایک چھوٹے سے ہینڈ بیگ کے ساتھ سفر کرنے کا کل کرایہ پچاس ڈالر سے بڑھ کر ایک سو دس ڈالر بن جاتا ہے۔ دفتری کام کے سلسلے میں صبح جا کر شام واپس آنے والوں کے لئے یہ ایئر لائنز بڑی اچھی ہیں۔ صرف پچاس ڈالر میں بلکہ بعض اوقات اس سے بھی کم کرائے میں آپ آسانی سے سفر کر سکتے ہیں۔ امریکہ کی آبادی تینتیس کروڑ کے لگ بھگ ہے اور اس میں پبلک، پرائیویٹ، کمرشل، فوجی اور کاروباری اداروں کے ملا جلا کر کل سترہ ہزار کے لگ بھگ ایئر پورٹس ہیں۔ پانچ ہزار سے زائد پبلک اور بارہ ہزار کے لگ بھگ پرائیویٹ ایئر پورٹ ہیں۔ پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ ہے اور ادھر یہ عالم کہ کل ملا کر دھکے سے ایک سو انتالیس ایئر پورٹس کی خوشخبری ملتی ہے۔ اس میں سے بارہ انٹرنیشنل ایئر پورٹ ہیں۔ ان میں تربت اور گوادر بھی شامل ہیں۔ خدا جانے ان پر کوئی بین الاقوامی پرواز چلتی بھی ہے یا نہیں۔ کل چالیس کے لگ بھگ پبلک ایئر پورٹ تھے ان میں سے اب میانوالی، کوہاٹ، چلاس، ڈیرہ اسماعیل خان، حیدر آباد، لاڑکانہ، مظفر آباد، پارا چنار، راولا کوٹ، سیہون، سبی، سندھڑی، سوئی اور بنوں ایئر پورٹس بند ہوچکے ہیں۔ اور کیا بتائوں؟ ملتان سے لاہور کے لئے ہفتے میں کل دو پروازیں ہیں۔ کبھی ہفتے کے تمام دن روزانہ دو پروازیں ہوا کرتی تھیں ایک صبح اور ایک شام۔ پھر روزانہ کی ایک پرواز ہوئی اور اب ہفتے میں کل دو پروازیں۔ کیا ترقیٔ معکوس ہے! بچوں کے ساتھ اسلام آباد سے مظفر آباد آتا جاتا رہا ہوں۔ اب یہ سیکٹر بند ہو چکا ہے۔ ملتان سے ژوب اور کوئٹہ ہفتے میں چار پروازیں ہوا کرتی تھیں اب یہ سیکٹر بند ہو چکا ہے۔ ملتان تا ڈیرہ اسماعیل خان ہفتے میں تین پروازیں ہوا کرتی تھیں اب یہ سہولت ندارد ہے۔ 
میرے ساتھ یہ بڑا مسئلہ ہے کالم کہیں سے شروع کرتا ہوں اور ختم کہیں اور کرتا ہوں۔ لکھنا کچھ اور تھا اور لکھ کچھ اور دیا۔
قارئین !صرف معذرت ہی کر سکتا ہوں اور بھلا کیا کیا جاسکتا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved