تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     28-08-2019

ہنگامی حالت میں درست فیصلہ

ہر انسان اپنی زندگی میں ایسے ادوار سے گزرتا ہے‘ جہاں پر اس کو خطرناک ‘ پریشان کن یا غیر متوقع صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مشکل صورتحال سے نکلنے کے لیے ہر شخص اپنے طور پر کوئی قدم اُٹھانے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ بعض لوگ بلا سوچے سمجھے اضطرابی کیفیت میں ایسے اقدامات اُٹھا لیتے ہیں‘ جن کے نتیجے میں مشکلات سے باہر نکلنے کے امکانات زیادہ ہونے کی بجائے معدوم ہو جاتے ہیں۔ ہنگامی صورتحال میں درست فیصلہ کرنے کے لیے انسان کو تحمل مزاجی‘ قوت فیصلہ ‘جرأت اور درست معلومات کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب انسان ہوائی جہاز کے ذریعے سفر کرتا ہے تو ہوائی جہاز کے اُڑنے سے قبل ہنگامی حالت میں جہاز سے نکلنے کے راستوں کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ اسی طرح کشادہ اور بڑی عمارتوں میں بھی آگ لگنے یا حادثات کی صورت میں ہنگامی حالت سے نکلنے والے راستوں کی طرف رہنمائی کی جاتی ہے۔ جو لوگ اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے‘ ان احتیاطی تدابیر اور ہدایات پر عمل کر لیتے ہیں‘ ان کے مشکلات سے بچ نکلنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں بھی کئی مرتبہ ایسے مرحلے آتے ہیں‘ جب دشمن اور جنگ کے خطرات ان پر منڈلا رہے ہوتے ہیں۔ ان حالات سے نبردآزما ہونے کے لیے بھی بعض تدابیر کو اختیار کرنے کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ حالیہ دنوں میں مجھے کشمیر کے تنازعہ پر پاک بھارت جنگ کے ممکنہ خطرات کے حوالے سے مختلف لوگوں کی سوچ وفکرکو سننے کا موقع ملا۔بعض لوگ جنگ سے بچ نکلنے اور مذاکرات کرنے ہی کو مسئلے کا حل قرار دے رہے تھے‘ جب کہ بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ نریندر مودی کی سفاکیت اور بھارتی جارحیت پر خاموش رہنے سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت بھی اس صورتحال کا اچھے طریقے سے جائزہ لے رہی ہے۔ 
اس حوالے سے کتاب وسنت کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ سے ہر وقت عافیت طلب کرتے رہنا چاہیے اور دشمن سے ملنے کی تمنا نہیں کرنی چاہیے ‘لیکن اگردشمن سے بچنے کی کوئی صورت باقی نہ ہو تو پھر کم ہمتی اور پس قدمی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اس سے مقابلے کی تدبیر اختیار کرنی چاہیے‘ اس لیے کہ کئی مرتبہ انسان بزدلی اور مداہنت کے ذریعے دشمن کی جارحیت کو روکنے اور اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ 
اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس حوالے سے درج ذیل حدیث خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ 
صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ''اے لوگو! دشمن سے لڑائی بھڑائی کی تمنا نہ کرو ‘ بلکہ اللہ سے سلامتی مانگو۔ ہاں! جب جنگ چھڑ جائے تو پھر صبر کئے رہو اور ڈٹ کر مقابلہ کرو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے‘‘۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دعا کی ''اے اللہ! کتاب ( قرآن ) کے نازل فرمانے والے ‘ اے بادلوں کے چلانے والے! اے احزاب ( یعنی کافروں کی جماعتوں کو غزوہ خندق کے موقع پر ) شکست دینے والے! ہمارے دشمن کو شکست دے اور ان کے مقابلے میں ہماری مدد کر‘‘۔
اسی طرح صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :'' دشمن سے مقابلے کی تمنا مت کرو ‘ لیکن جب تمہارا ان سے مقابلہ ہو تو صبر کرو‘‘۔
لوگوں کی بہت بڑی تعداد جنگ سے اس لیے خوف زدہ رہتی ہے کہ ایک عام تاثر یہ ہے کہ جنگوں میں فتح جدید اسلحے اور فوجوں کی فراوانی سے ہوتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ اس تاثر اور غلط فہمی کے ازالے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت طالوت کے واقعہ کا ذکر کیا ہے‘ جن کا مقابلہ زمین پر فساد پھیلانے والے لشکر جالوت سے ہوا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس واقعہ کو سورہ بقرہ میں بیان فرمایا اور اس میں ہر عقل مند کے لیے نصیحت کے بہت سے پہلو موجود ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 249سے 251 میں فرماتے ہیں: ''پھر جب نکلا طالوت (اپنے) لشکروں کے ساتھ اس نے کہا :بے شک اللہ تمہیں آزمانے والا ہے‘ ایک نہر سے ۔پس ‘جو پی لے گا اس سے تو نہیں ہے وہ مجھ سے (میرا ساتھی)۔ اور جو نہ چکھے گا اسے پس بے شک وہ مجھ سے (میرا ساتھ) ہے‘ مگر جو بھر لے ایک چلو اپنے ہاتھ سے۔ پھر انہوں نے پی لیا ‘ا سے سوائے تھوڑے (لوگوں) کے ان میں سے۔ پھر جب اسے پار کر لیا اس نے اور ان لوگوں نے جو ایمان لائے اس کے ساتھ۔ وہ کہنے لگے کوئی طاقت نہیں ہمیں آج جالوت اور اس کے لشکروں سے (لڑنے کی) کہا؛ ان لوگوں نے جو یقین رکھتے تھے کہ بے شک وہ اللہ سے ملنے والے ہیں‘ بہت سے چھوٹے گروہ غالب آگئے بڑے گروہ پر اللہ کے حکم سے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور جب وہ مقابلے میں اُترے جالوت اور اس کے لشکروں کے کہنے لگے: اے ہمارے رب فیضان کر ہم پر صبر کا اور جما دے ہمارے قدم (میدان جنگ میں) اور ہماری مدد فرما کافر قوم پر‘پھر انہوں نے شکست دی ان کو اللہ کے حکم سے۔ اور داؤد نے جالوت کو قتل کیا اور دی اس کو اللہ نے بادشاہت اور حکمت اور سکھایا اسے جو کچھ چاہا۔ اور اگر نہ ہٹاتا اللہ لوگوں کو (یعنی ) ان کے بعض (شرپسندوں) کو بعض (صالح لوگوں) کے ذریعے (تو) یقینا زمین (کا نظام) بگڑ جاتا اور لیکن اللہ فضل کرنے والا ہے‘ تمام جہان والوں پر ‘‘۔ ان آیات مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اپنے قائد کی اطاعت‘ خواہشات پر صبر اور دشمن کے مقابلے میں ڈٹ جانے اور اس عقیدے کو رکھنے سے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید ہی سے فتح حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ چھوٹے لشکروں کو بھی بڑے لشکروں پر غالب کردیتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ انفال میں اس بات کا ذکر کیا کہ جب تمہارا مقابلہ کسی لشکر سے ہو تو تمہیں ثابت قدم رہنا چاہیے ‘ اللہ کا ذکر کرنا چاہیے ‘ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنی چاہیے اور باہمی تنازعات سے بچنا چاہیے ۔اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ انفال کی آیت نمبر 45‘ 46میں یوں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے (وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو! جب ٹکراؤ کسی گروہ سے تو تم ثابت قدم رہو اور یاد کرو اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ تاکہ تم فلاح پاجاؤ۔ اور تم اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور مت آپس میں جھگڑو‘ ورنہ تم کم ہمت ہو جاؤ گے اور جاتی رہے گی تمہاری ہوا اور تم صبر کرو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ ان آیت مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ثابت قدمی ‘ ذکرالٰہی ‘ اللہ اور اس کے رسول کے اطاعت اور باہمی اتحاد کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ مسلمانوں کو کافروں کے مقابلے میں غلبہ عطا فرما دیتے ہیں۔ 
بعض لوگ ہنگامی صورتحال کے دوران دشمن کی ہیبت سے مرعوب ہو کر غلط حکمت عملی اختیار کرنے کی طرف بھی چل پڑتے ہیں۔ کئی لوگ بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مداہنت کے مشورے دیتے ہیں اور بعض لوگ اس کے مدمقابل اپنے دشمنوں کے ساتھ سمجھوتے کی باتیں کرنا بھی شروع کر دیتے ہیں ۔ حالیہ ایام میں ایک مرتبہ پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے اور یہودیوں کے ساتھ سمجھوتے کی باتیں گردش کر رہی ہیں۔یہود کو اس موقع پر تسلیم کرنے باتیں کرنا کسی بھی طور پر مناسب نہیں۔ اس قسم کے طرز عمل کے نتیجے میں ہم کشمیر پر خود اپنے استحقاق اور دعویٰ کمزور کر بیٹھیں گے۔ اس لیے کہ اگر ہم ایک مظلوم قوم پر غاصب کے غلبے کی تائید کرتے ہیں تو دوسری مقبوضہ قوم پرکسی دوسرے غاصب قوم کی کس منہ سے مذمت کر سکتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہود اپنے سرمائے ‘ مکروفریب اور سازشوں کے اعتبار سے پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ ماضی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے بعض انگریز تاجروں نے پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا تھا۔ بین الاقوامی تجارتی کمپنیوں‘ میڈیا کی طاقت اور اپنی سازشوں کے ذریعے اگر یہود نے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کی تو یہ پاکستان کے لیے ایک نیا چیلنج بن جائے گا۔ اس قسم کے خطرے کو کسی بھی قیمت پر مول نہیں لیا جا سکتا۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اقوام عالم اور مغربی اقوام کو انسانی حقوق کے حوالے سے قائل کرنے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کو مسلم اخوت اور بھائی چارے کی بنیاد پر انگیخت کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے ۔
حالیہ دنوں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ مودی اپنی افرادی قوت اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بھارتی تاجروں اور محنت کشوں کے ذریعے مسلمان ملکوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس دباؤ کا مقابلہ پاکستان کو بھرپور حکمت عملی کے ساتھ کرنا چاہیے اوربرادر اسلامی ممالک کو اس حوالے سے اعتماد میں لینا چاہیے۔ یہ وقت درست سمت میں قدم اُٹھانے کا وقت ہے اور اس حوالے سے کسی قسم کا غلط فیصلہ جہاں پر کشمیر کے مقدمے کو کمزور کرنے کا سبب ہو گا‘ وہیں پر پاکستان کو تنہائی کی سمت بھی دھکیل سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں ان ایام میں خصوصیت سے دعائیں اور قنوت نازلہ کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ‘ بھارت کی جارحیت سے پاکستان‘ پاکستانیوں اور اہل کشمیر کی حفاظت فرمائے اور ہمیں من حیث القوم ان خطرات سے نبردآزما ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved