تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     28-08-2019

’’کہانیوں‘‘ کا دیس!

فکشن کی دنیا بھی کتنی عجیب ہے۔ قدم قدم پر نئی کہانیاں اور ہر کہانی میں نئے نئے موڑ۔ ہر موڑ ذہن کو جنجھوڑ دینے والا۔ فکشن اسی کا تو نام ہے۔ کسی بھی کہانی کو کسی بھی طرح کا موڑ دے کر کہیں سے کہیں پہنچا دیجیے‘ کس کی مجال ہے کہ مصنف کے اسپِ خیال کو ٹوکے اور روکے۔ فکشن رائٹرز اپنی کہانیوں کو زیادہ سے زیادہ جدت سے ہم کنار کرنے کے لیے ایسے ایسے ڈرامائی موڑ متعارف کراتے ہیں کہ پڑھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ بہت سے قاری تو کہانیاں پڑھ کر اندازہ لگا پاتے ہیں کہ بحیثیت ِانسان کس کس طرح جیا جاسکتا ہے اور کیا کیا کِیا جاسکتا ہے! 
فکشن کی دنیا میں جنہوں نے نام کمایا ہے‘ وہ چونکہ لکھنے ہی کا کھاتے ہیں‘ اس لیے لکھنے کے لیے موضوعات کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ ہر بات کو کہانی بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ صلاحیت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس قدر پروان چڑھ جاتی ہے کہ کسی چونکانے والی خبر کو پڑھ کر ذرا سی دیر میں کہانی لکھ دینا ان کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو جاتا ہے۔ بہت سے ڈائجسٹ آج تک اسی تکنیک کی بنیاد پر مارکیٹ میں قدم جمائے ہوئے ہیں۔ فکشن رائٹرز اور بالخصوص ڈائجسٹ رائٹرز سے فرمائش کی جاتی ہے کہ حالاتِ حاضرہ کا جائزہ لے کر موضوعات منتخب کریں اور ایسی کہانیاں لکھیں‘ جن میں لوگوں کو حالاتِ حاضرہ کی واضح جھلک دکھائی دے۔ یہ کہانیاں ‘چونکہ حالات سے مطابقت رکھتی ہیں ‘اس لیے فوری توجہ پانے میں کامیاب رہتی ہیں ‘تاہم ان کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ لوگ پڑھتے ہیں‘ کچھ دیر کے لیے متاثر ہوتے ہیں اور پھر بھول بھال جاتے ہیں۔ 
فکشن کا یہی معاملہ ہے۔ یہ وقتی معاملہ ہوتا ہے۔ خالص فینٹیسی کی بنیاد پر لکھی جانے والی ہر چیز کچھ ہی دیر زندہ رہتی ہے۔ ہاں‘ زندگی کے بنیادی حقائق‘ معاشرے کی اہم ترین اقدار اور انسان کی نفسی ساخت کے بنیادی اجزاء میں گُندھی ہوئی ہر کہانی تادیر زندہ رہتی ہے۔ بعض شاہکار تو صدیاں گزرنے پر بھی زندہ ہیں۔ ہمارے ہاں ڈپٹی نذیر احمد‘ مرزا ہادی رُسواؔ‘ عبدالحلیم شررؔ اور مرزا رجب علی بیگ سُرورؔ وغیرہ اور مغرب میں چارلس ڈکنز‘ الیگزینڈر ڈیوما‘ ٹامس ہارڈی اور شیکسپیئر کی بیشتر تخلیقات دیرپا تاثر کا بہترین مظہر ہیں۔ فکشن کی بات چل نکلی ہے تو ہم یہ اعتراف کرنے میں بُخل سے کام نہیں لیں گے کہ ہم اب تک سمجھ نہیں پائے کہ مُرغی پہلے آئی یا انڈا‘ یعنی یہ کہ ہمارے ہاں فکشن رائٹرز کی تخلیقات پڑھ پڑھ کر لوگ فکشن زدہ ہوئے ہیں یا عوام کو دیکھ کر فکشن رائٹرز نے کہانیوں کے آئیڈیاز پائے ہیں! پاکستانی معاشرے کا شمار اُن معاشروں میں ہوتا ہے‘ جہاں کی فضاؤں میں آکسیجن سے کہیں زیادہ کہانیاں پائی جاتی ہیں! اور لوگوں کا حال یہ ہے کہ آکسیجن کے بغیر تو شاید جی لیں‘ کہانیوں کے بغیر نہیں جی سکتے! 
کہانیاں؟ جی ہاں‘ کہانیاں۔ یہاں قدم قدم کہانیاں بکھری ہوئی ہیں۔ ہر شخص ایک بھرپور کہانی کے ساتھ موجود ہے اور اُسے سنانا بھی چاہتا ہے۔ کہانی روز بدلتی ہے۔ قوم کا مجموعی مزاج یہ ہے کہ حقیقت کو کہانی میں یوں گڈمڈ کردیا جائے کہ حقیقت پر کہانی کا اور کہانی پر حقیقت کا گماں ہو۔ اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔ 
قوم کام سے بہت دور بھاگتی ہے اور صرف افسانہ طرازی پر گزارا کر رہی ہے۔ لوگ کام سے جان چھڑانے کے لیے ایسی ایسی کہانیاں گھڑتے ہیں کہ سُننے والوں کے پاس دنگ رہ جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچتا۔ کبھی کبھی تو یہ بھی ہوتا ہے کہ بیان کرنے والا ایک ہی سانس میں کئی ''ٹوئسٹ‘‘ یوں بیان کرتا ہے کہ سُننے والے کی حالت غیر ہو جاتی ہے! ؎ 
آتی جاتی سانس کا عالم نہ پوچھ 
جیسے دُہری دھار کا خنجر چلے!
کہانیاں گھڑنے اور سُنانے کا چلن عام کیوں نہ ہو‘ جبکہ بیشتر اہلِ وطن اپنی اپنی ذمہ داریوں سے رُو گردانی کرتے ہوئے گردن بچانا چاہتے ہوں؟ گردن اور دامن بچانے کی خاطر ایسے ایسے فسانے گھڑے جاتے ہیں کہ غیر معمولی تجربے کے حامل فکشن رائٹرز بھی دنگ رہ جاتے ہوں گے۔ ہر معاملے میں اپنے فرائض سے پہلو تہی کی روش اب شرمناک حد تک پامال ہوچکی ہے۔ لوگ کام پر روزانہ دیر سے پہنچتے ہیں اور روزانہ ہی اُن کے پاس کوئی نہ کوئی کہانی ہوتی ہے۔ اس کہانی میں ایک آدھ حادثہ ہوتا ہے‘ کوئی بیمار پایا جاتا ہے اور کوئی دنیا سے کوچ کر جاتا ہے۔ کسی کا بچہ اچانک ایسا بیمار پڑتا ہے کہ باپ کو اپنے پاس بٹھائے رکھنے کی ضد کرتا ہے۔ کسی کے گھر مہمانوں کی آمد اِس طور ہوئی ہوتی ہے کہ اُنہیں ''اینٹرٹین‘‘ نہ کرنے کی صورت میں رشتوں سے تعلق تک سبھی کچھ داؤ پر لگ سکتا ہے! 
کہانیاں تو اور بہت سے معاملات میں بھی خوب گھڑی جاتی ہیں اور بڑے ہی چاؤ سے بیان کی جاتی ہیں‘ تاہم دیر سے دفتر‘ دکان یا کارخانے پہنچنے پر جو فسانے سنائے جاتے ہیں ‘اُن کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ اس معاملے میں تختۂ مشق بننے کے بھرپور مواقع موٹر سائیکل کو ملتے ہیں ‘جو آئے دن خراب ہو جاتی ہے اور دوسرے تیسرے دن کوئی نہ کوئی ٹائر پنکچر ہو جاتا ہے! دفتر دیر سے پہنچنے پر راستے ہی میں گھڑی ہوئی کہانی کو غضب ناک اداکاری کے ساتھ سُنانے کا لطف کچھ اور ہی ہے۔ جو عادی مجرم ہیں‘ یعنی دفتر ہر صورت دیر ہی سے پہنچتے ہیں‘ اُن کے طریقِ واردات کی زد میں اہلِ خانہ کے علاوہ خاندان کے بزرگ بھی آتے ہیں۔ کبھی کسی کو بسترِ علالت پر لِٹادیا جاتا ہے تو کبھی کسی کو گہوارے میں سُلاکر سُکون کا سانس لیا جاتا ہے! ہر موقع اور ہر فرد کی کہانی الگ ہوتی ہے۔ دفتر دیر سے پہنچنے والے کسی اور قسم کا افسانہ گھڑتے اور تراشتے ہیں‘ جبکہ دکان یا فیکٹری دیر سے پہنچنے والے کسی اور انداز کی کہانی منہ میں دابے ہوئے ہوتے ہیں۔ پوچھنے کی دیر ہوتی ہے۔ یہ لوگ جب شروع ہوتے ہیں تو سُننے والے روہانسے ہوکر ''ارے بس بھی کر پگلے‘ رُلائے گا کیا‘‘ کہتے رہ جاتے ہیں‘ مگر یہ اپنی کہانی سُناکر ہی دم لیتے ہیں۔ دماغ میں ایک ڈیڑھ گھنٹے تک جو کھچڑی پکتی رہی ہو اُسے کسی نہ کسی کے آگے تو پروسنا ہی ہے! 
دیر سے آنے کی وجوہ بیان کرنے کے حوالے سے کہانی گھڑنے کے ایک ایسے ماہر کو ہم بھی جانتے ہیں‘ جو دفتر کے مرکزی دروازے سے اپنی ڈیسک تک کا فاصلہ پندرہ منٹ میں طے کرتا ہے! اس کھلاڑی کی آمد کو دفتری احباب ''ہیرو کی انٹری‘‘ قرار دیتے ہیں۔ انتہائی بوجھل قدموں کے ساتھ جب یہ اپنی نشست پر بیٹھ کر دیر سے آنے کی ''وجہِ تسمیہ‘‘ بیان کرنا شروع کرتا ہے اور ع
آج کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں 
کا سماں پیدا کرتا ہے تو گزرے ہوئے زمانوں کے سِکّہ بند داستان گو یاد آجاتے ہیں! اور سچ تو یہ ہے کہ کبھی کبھی تو ہمیں خیال آتا ہے کہ وہ داستان گو بھی کیا تیر مار لیتے ہوں گے۔ اُن کا فن کس نے دیکھا (یعنی سُنا) ہے؟ اُن کے بارے میں ہم نے صرف سُنا ہی سُنا ہے۔ آج کے ''داستان گو‘‘ تو ہم نے دیکھے‘ سُنے اور جھیلے ہیں! ان کی فنکارانہ مہارت کا یہ عالم ہے کہ بندہ سمجھ نہیں پاتا کہ دیکھنے کی داد دے یا سُننے کی! 
فکشن رائٹرز کو اپنے فن میں کچھ نکھار پیدا کرنا ہے تو چلتے پھرتے کہانیاں سُنانے والوں کو غور سے سُنا کریں۔ ان کے آئیڈیاز بھی برتر ہیں اور انداز بھی انوکھا ہے۔ یہ ایک کہانی کو ضرورت کے مطابق‘ تبدیل کرکے سو بار بیان کرنے کا ہنر جانتے ہیں! 
گھر دیر سے پہنچنے پر شوہر جو کہانیاں سناتے ہیں‘ وہ پھر کبھی سہی! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved