تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     29-08-2019

داخلی سیاست کا آشوب

مقبوضہ کشمیر پہ بھارتی جارحیت کی گونج نے ملک کی داخلی سیاسی کشمکش کو پس منظر میں دھکیل کے اپوزیشن کو چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک ِعدم اعتمادکی ناکامی کے نفسیاتی آشوب سے نکلنے میں مدد دی ہے اور مولانا فضل الرحمن شکست کی گرد جھاڑ کے ایک بار پھر اپنی مزاحمتی تحریک کی ازسر نو صف بندی کیلئے تیار ہو چکے۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقاتوں کے بعد مولانا نے اپنی جماعت جے یو آئی کی مرکزی مجلس شوریٰ کو اعتماد میں لے کر اٹھارہ اکتوبرکو اسلام آباد پہ فیصلہ کن یلغارکا عندیہ دیا ہے۔قطع نظر اس بات کہ اکتوبر میں مولانا فضل الرحمن کی مزاحمتی تحریک پی ٹی آئی کی حکومت کو ٹف ٹائم دے پائے گی یا نہیں؟ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ گردش دوراں کی سرگرانی کے باوجود مولانا کے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہیں آئی ہے۔
جولائی دوہزار اٹھارہ کے انتخابات کو کامل ایک سال بیت گیا۔اس دوران ملکی و بین الاقوامی حالات میں کئی غیرمعمولی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔قومی سیاست کی حرکیات اور ایشوز بدلے اور عوامی سوچ کے زاویے تبدیل ہوتے گئے ‘یعنی ملک کی داخلی سیاسی جدلیات اب تک کئی موڑ مڑچکی‘ لیکن اس سب کے باوجود حکومت کے خلاف مولانا فضل الرحمن کے روّیہ میں کوئی تبدیلی آئی ‘نہ ان کے مزاحمتی عزائم کمزور ہوئے؛حالانکہ ایک جید عالم اور بالغ النظر سیاستدان کی حیثیت سے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نواز لیگ طویل المدت حکمت عملی پہ عمل پیراہے اور میاں نوازشریف کسی عارضی ڈیل کے ذریعے ادھوری پاور حاصل کرنے کی بجائے ملکی سیاست میں سویلین بالادستی کی ہمہ گیر جدوجہد منظم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اس لئے نواز لیگ حکومت گرانے کے وقتی اورخطرناک کھیل میں الجھنے کی بجائے پانچ سال تک تحریک انصاف کی حکومت برداشت کرنے کا تہیہ کئے بیٹھی ہے۔
اسی طرح دوہزار اٹھارہ کے الیکشن کی سب سے بڑی بینفیشری ہونے کے ناتے پیپلزپارٹی بھی موجودہ بندوبست کی بساط جلد لپیٹنے کے حق میں نہیں ہوسکتی اور بلاول بھٹو زرداری کا دل بیشک اپوزیشن کے ساتھ دھڑکتا رہے ‘لیکن ان کی جماعت کا عملی تعاون موجودہ بندوبست کے دوام کے ساتھ ہی رہے گا۔بظاہرعملیت پسندی کا تقاضا بھی یہی ہو گا کہ چالیس سال تک تنہا مار کھانے والی پیپلزپارٹی ابھی طاقت کی دائیں جانب رہے۔دوسروںکے پاس تو کھونے کیلئے کچھ نہیں‘ لیکن پیپلزپارٹی کے پاس کھونے کیلئے سندھ حکومت کے علاوہ سینیٹ میں ڈپٹی چیئرمین کا منصب اور قومی اسمبلی میں ترپ کے پتے کی مانند ساٹھ نشستیں ہیں‘ جن کے وسیلے وہ حکومت اوراپوزیشن‘دونوںکو انگیج کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے‘لہٰذا پیپلزپارٹی کو فوری طور پہ حکومت گرانے کی کسی موثر تحریک کا حصہ بننے یا نئے انتخابات کے انعقاد میں کوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی۔قرائن بتاتے ہیں کہ اپوزیشن بنچوں پہ بیٹھ کے وہ حزب اختلاف کا فقط علامتی کردار نبھانے سے آگے نہیں بڑھے گی۔اس لیے بدقسمتی سے حکومت گرانے کا بھاری پتھر مولانا فضل الرحمن کو تنہا اٹھانا پڑے گا۔گویااب‘ مولانا فضل الرحمن کا سیاسی مستقبل اسلام آباد پہ فیصلہ کن یلغار کے ساتھ معلق ہوچکا۔مولانا نے بڑا رسک لے لیا ہے۔اگر وہ ناکام ہوئے تو اس ملک سے مذہبی سیاست معدوم ہو جائے گی‘کیونکہ مولانا فضل الرحمن ہی اس وقت سیاست میں کارفرما مذہبی گروہوں کی توانا آواز اور جمہوری بالادستی پہ یقین رکھنے والی جماعتوں کے ساتھ مذہبی گروہوں کے رابطہ کا واحد قابل ِاعتماد وسیلہ ہیں۔ان کی سیاسی شکست نا صرف مذہبی قوتوں کو سیاسی تنہائی میں دھکیل دے گی‘ بلکہ یہ پیشقدمی بے وقت اور بیکار یلغار کی صورت اختیار کرکے مملکت کیلئے بھی مشکلات پیدا کردے گی۔بھلائی اسی میں ہو گی کہ ملک بھر کی مذہبی قوتیں اس معاملہ میں مداخلت کریں‘علیٰ ہذالقیاس۔ اسی معاملہ کو اگر ہم پاور پالٹیکس کے تقاضوں سے ہٹ کے ایک دوسرے زاویے سے دیکھیں تو بھی پیپلزپارٹی‘ملک کی داخلی سیاست میں پاکستان تحریک انصاف کی نوجمہوری اپروچ اور غیر جارحانہ خارجہ پالیسی کی بالواسطہ یا بلاواسطہ حامی نظر آتی ہے۔خودبلاول بھٹو نے امریکی دورہ کے دوران وزیراعظم عمران خان کی طرف سے پاکستان کے موقف کی ترجمانی کی کھل کے حمایت کی اور اس سے قبل وہ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف مذہبی ایشوز کو استعمال کرنے کی راہ میں حائل ہو چکے ہیں۔اپنے سیاسی تصورات کے حوالے سے پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہیں‘ جو اگرچے باہم مل نہیں سکتے‘ لیکن وہ ایک ہی منزل کے راہی اور ایک ہی مقصد کی تکمیل کی خاطر یکساںکام کرتے ہیں۔
مسلم لیگ نواز کے خواجہ آصف کا یہ کہنا کسی حد تک بجا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے پیچھے پیپلزپارٹی کا ہاتھ دکھائی دیتا ہے؛حالانکہ بظاہر اس تحریک عدم اعتمادکا محرک ِاول خود بلاول بھٹو زرداری ہے۔ بیشک‘بلاول بھٹو زرداری جانتے ہیںکہ ماضی میں پیپلزپارٹی کو مذہبی سیاست کے ہتھیاروں کے ذریعے دیوار سے لگایا گیا۔چار دہائیوں تک پیپلزپارٹی قومی سیاست میں کارفرما مذہبی قوتوں کا مرغوب ہدف رہی‘ لیکن پاکستان تحریک انصاف میں مذہبی سیاست کے ایسے وار سہنے کی پوری طاقت اور ملکی سیاست کو علاقائی اور لسانی تعصبات سے پاک کرنے کی صلاحیت موجود ہے؛ چنانچہ وہ پی ٹی آئی کے اقتدار کے تسلسل میں اپنی سیکولر سیاسی اپروچ کی نشاۃ ثانیہ کو دیکھنے کے علاوہ مستقبل میں راہ کی مشکلات کو کم ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ملک کی خارجہ پالیسی پر پیپلزپارٹی اورپاکستان تحریک انصاف کی ہم آہنگی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یورپ میں بسنے والے پیپلزپارٹی کے کئی حامیوں نے تجویز دی ہے کہ حکومت کشمیر کاز کی خاطر موثر سفارت کاری اور مغربی ممالک کی رائے عامہ کو ہمنوا بنانے کی خاطر بلاول بھٹو زرداری کو یورپ اور امریکہ کے دورے پہ بھجوائے‘ کیونکہ وہ ماضی میںکشمیر کاز کیلئے موثرکردار ادا کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی سوچ کے وارث اور پاکستان میں سیکولر جمہوری سیاست کی علامت بے نظیر بھٹو کے فرزند ہیں۔اس لیے مغرب والے ان کی بات توجہ سے سنیں گے۔
بہرحال قومی سطح کے دانشوروں اور سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ملک کی مشرقی و مغربی سرحدات کی نازک صورت حال‘سر پہ منڈلاتے اقتصادی بحران‘ مظلوم کشمیریوں کے حالت زار اور ادارہ جاتی عدم توازن کے پیش نظر ملک و قوم کی بھلائی ‘ اسی میں ہو گی کہ سیاسی قوتوں کے مابین اختلافات کی خلیج کم کی جائے اورسمجھوتہ یا مفاہمت کو فتح پہ ترجیحی ملنی چاہیے۔بلاشبہ تاریخ کی رفتار و معانی بھی اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ بہ تسلسل اور بہ تواتر تشدد اور من مانی کارروائیوں کا دائرہ تنگ تر اور صلح و امن کے خط میں توسیع ہوتی رہے۔بہتر ہو گا کہ حکومتی زعما رابطہ کاری کے ذریعے مولانا فضل الرحمن کو اس فیصلہ کن اقدام سے روکیں‘ بلکہ پوری اپوزیشن کو اپنا جائزجمہوری کردار ادا کرنے کی گنجائش پیدا کریں‘ تاکہ ملک میں روز مرہ کے سیاسی وظائف کی ہموار ادائیگی کا ماحول پیدا ہو۔ارسطو نے سچ کہا تھا کہ ' ' سیاست معاشرے کو متشکل کرنے والے طبقات کے درمیان مفاہمت کا آرٹ ہے‘‘۔بیشک باہمی معاملات اور خاص کرسیاست میں پرتشدد رجحانات کی زندگی نہایت مختصر ہوتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved