تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     08-05-2013

ہم پر عذاب کیوں مسلط ہیں؟

پاکستان‘ مسلم امّہ کے ستاون سے زیادہ ملکوں میں سے وہ واحد خوش قسمت ملک ہے جس کی سپریم کورٹ نے 23دسمبر 1999ء کو ایک تاریخ ساز فیصلہ دیتے ہوئے سود کو حرام قرار دیا‘ شریعت کورٹ کے 14نومبر 1991ء کے اس فیصلے کو بحال کیا جس کے مطابق بینکوں کا ہر قسم کا سود حرام ہے اور حکومت وقت کو تیس جون 2001ء تک مہلت دی کہ ملک سے سودی نظام کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا جائے‘ اس لیے کہ سود کا خاتمہ اس کی آئینی ذمہ داری ہے۔ وہ آئینِ پاکستان جس کے نفاذ اور اس پر عملدرآمد کے لیے ہر کوئی ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے‘ اس کے آرٹیکل 38(ایف) کے مطابق یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جس قدر جلد ممکن ہو سود کا خاتمہ کرے۔ آئین کا یہ آرٹیکل 1973ء سے چلا آرہا ہے اور اس کو کسی آمر نے آئین کی کتاب میں نہیں ڈالا۔ 23دسمبر 1999ء کے بعد کیا ہوا اور اس سے پہلے کیا ہوتا رہا؟ یہ اس ملک پر مسلط ہونے والے اللہ کے مستقل عذاب کی بنیادی وجہ بھی ہے اور اس کے غیظ و غضب کا پس منظر بھی۔ صرف اس ملک کی سپریم کورٹ کو ہی یہ اعزاز حاصل نہیں کہ اس نے سود کے خلاف ایک بھرپور فیصلہ دیا بلکہ اس ملک کے بانی حضرت قائداعظمؒ سود کے خلاف جہاد کے پہلے مرد مجاہد تھے۔ یکم جولائی 1948ء کو جب انہوں نے شدید بیماری کی حالت میںسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کیا تو فرمایا: ’’میں اس بینک کے تحقیقی شعبے کی کارکردگی کو ذاتی طور پر دیکھوں گا کہ وہ بینکنگ کے شعبے کو اسلام کے معاشی اور معاشرتی اصولوں کے مطابق مرتب کرے۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے ایسے ناقابل اصلاح مسائل پیدا کردیئے ہیں کہ اکثریت یہ سوچتی ہے کہ کوئی معجزہ ہی ہے جو مغرب کے اس المیے سے دنیا کو بچا سکے جو اس کے معاشی نظام نے پیدا کیا ہے۔‘‘ یہ تقریر طویل ہے جسے آج بھی سٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس میں پاکستان میں اسلامی نظام معیشت کے پہلے داعی اور سود کے خلاف جہاد کے مجاہد اول قائداعظمؒ نے مغرب کے سیکولر اورسرمایہ دارانہ معاشی نظام کا جس طرح رد ّکیا ہے وہ اس مملکت خداداد پاکستان ہی کا اعزاز ہے۔ یکم جولائی 1948ء کے دن قائداعظمؒ کی تقریر سے 23دسمبر 1999ء کے سپریم کورٹ فیصلے کے درمیان بہت سے مرحلے آئے۔ ہر مرحلے پر ہماری جمہوری اور آمرانہ حکومتوں کی منافقتوں اور اللہ کے ساتھ چالبازیوں کی داستانیں نظر آتی ہیں۔ دسمبر 1969ء میں اسلامی مشاورتی کونسل نے ڈھاکہ میں منعقدہ اجلاس میں بینک کے قرضوں، سیونگ سرٹیفیکیٹ، پرائز بانڈ، پوسٹل لائف انشورنش وغیرہ سب کو سود قرار دے دیا اور اس کے خاتمے کیلئے اقدامات تجویز کرنے کو کہا۔ 1973ء میں آئینِ پاکستان میں سود کا خاتمہ حکومت کی ذمہ داری قرار دی گئی لیکن اپنے سارے دور میں ذوالفقار علی بھٹو نے اس جانب عملدرآمد کی طرف ایک قدم بھی نہ اٹھایا۔ 1981ء میں جنرل ضیاء الحق نے فیڈرل شریعت کورٹ قائم کی‘ لیکن منافقت دیکھیں کہ دس سال تک اس پر پابندی لگا دی کہ وہ معاشی معاملات کا کوئی کیس نہیں لے سکے گی یعنی سود کے خلاف فیصلے کی جرأت نہ کرے۔ جیسے ہی یہ دس سال کی مہلت 1991ء میں ختم ہوئی وفاقی شرعی عدالت نے طویل سماعتوں کے بعد 14 نومبر 1991ء کو تاریخی فیصلہ دیا اور بینکوں کے سود کو حرام قرار دیتے ہوئے حکومت کو چھ ماہ کی مہلت دی کہ وہ اس عرصے میں بینکوں سے سود ختم کردے۔ نوازشریف برسراقتدار تھے‘ انہوں نے شریعت کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کردی۔ اس کے بعد بینظیر بھٹو آئیں‘ پھر نوازشریف لیکن حکومت سپریم کورٹ سے تاریخوں پر تاریخیں لیتی رہی۔ کسی حکمران میں یہ جرأت نہ ہوئی کہ اللہ سے ڈرتے ہوئے عدالت سے اپنی اپیل کو واپس لے لیتی۔ یوں 23دسمبر 1999ء کا دن آ گیا اور سپریم کورٹ کا وہ عظیم فیصلہ آگیا۔ پرویز مشرف ابھی سنبھلنے بھی نہ پایا تھا لیکن وہ ان جمہوری حکمرانوں سے زیادہ چالاک تھا۔ وہ خود عدالت نہیں گیا بلکہ ایک سرکاری بینک یونائیٹڈ بینک کو حکم دیا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل کرے۔ اپیل دائر ہوئی۔ سپریم کورٹ کے تمام اصول ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیئے گئے۔ نظرثانی ہمیشہ وہی جج کرتے ہیں جنہوں نے فیصلہ دیا ہو‘ لیکن یہاں بنچ سے صرف ایک جج کو لیا گیا۔ اس ملک کے اعلیٰ ترین وکلا بینک کے سرمایہ پر عدالت کے ایوانوں میں بولتے رہے۔ میں ان کے فقرے سوچتا ہوں تو کانپ اٹھتا ہوں۔ رضا کاظم نے کہا ’’وفاقی شرعی عدالت کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ سود کو حرام قرار دینے کے بارے میں فیصلہ کرے، یہ تو ایک آئینی ذمہ داری ہے جو آرٹیکل 138(الف) تک وفاقی حکومت کی ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ سود ختم کرے نہ کہ وفاقی شرعی عدالت کی اور نہ ہی وفاقی شرعی عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ کو کہ حکومت کی کرسی پر جا بیٹھے اور ٹائم فریم دینے لگے اور حکم دے کہ اتنے عرصے تک سود ختم کرو۔‘‘ محمد اکرم راجہ‘ ریاض الحسن گیلانی اور اٹارنی جنرل مخدوم علی خان شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کی اس جسارت پر گرجے‘ برسے اور پھر چیف جسٹس شیخ ریاض حسین کی سربراہی میں قائم بنچ نے شریعت کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ یہ 24جون 2002ء کا تاریک دن تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عدالت اپنا کوئی فیصلہ تحریر کر دیتی‘ سود کے حق میں دلائل لکھ دیتی‘ لیکن جس شریعت کورٹ کے بارے میں کہا گیا کہ اسے کوئی حق نہیں اس موضوع پر فیصلہ کرنے کا، اسی کو یہ کیس واپس کردیا گیا۔ اس سانحے کو گیارہ سال ہونے والے ہیں۔ یوں لگتا ہے سود کے معاملے میں عدالتوں کے دروازے بند ہو چکے ہیں۔ ان گیارہ سالوں میں ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتوںنے آمریت کے خلاف جدوجہد کی۔ عدلیہ کی بحالی کی تحریک چلائی۔ گو امریکہ گو کے نعرے لگائے‘ حکومتیں بنائیں‘ آئین میں ترامیم کیں بھی اور کروائیں بھی۔ جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کی لیکن کسی کو اللہ اور اس کے رسول کا وہ اعلانِ جنگ یاد نہ آیا جو سود کے حامیوں کے خلاف ہے۔ سود کے خلاف یہ جنگ ہم میں سے کسی نے نہیں‘ سود خوروں نے نہیں‘ بلکہ اللہ نے شروع کی ہے۔ اللہ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر278 میں فرمایا: ’’اگر تم ایمان پر قائم ہو تو سود میں جو کچھ باقی ہے اس کو چھوڑ دو اور اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے تیار ہوجائو!!!‘‘ یہ جنگ اللہ نے شروع کی ہے اور جو جنگ اللہ شروع کرتا ہے اس میں ہار اس کے مخالف گروہ کی ہوتی ہے۔ اس قوم پر اتمام حجت ہوچکی ہے۔ گیارہ سال میں کوئی ایک آواز، کوئی ایک نعرہ تک نہ گونجا کہ قائداعظمؒ کی تقریر پر عمل کرو، آئین کے مطابق سود ختم کرو، سپریم کورٹ کے فیصلے کو نافذ کرو۔ نہیں آج سب لوگوں کی عدالت میں حکمرانی کی بھیک مانگنے نکلے ہوئے ہیں۔ ووٹ مانگ رہے ہیں۔ انہیں علم ہی نہیں کہ اللہ کی عدالت ہر گھڑی‘ ہر لمحہ سجی ہے‘ فیصلے صادر کر رہی ہے۔ اللہ نے یہ جنگ میدان محشر میں نہیں بلکہ اسی دنیا میں لڑنی ہے اور ا س جنگ کا مرکز پاکستان ہے کہ کسی اور مسلم ملک کو یہ اعزاز حاصل نہیں کہ اس کا بانی سود کے خلاف جہاد کا اعلان کرے‘ اس کا آئین سود کا خاتمہ چاہے اور اس کی سپریم کورٹ فیصلہ بھی دے دے اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں۔ اب تو جس کسی نے اللہ کی اس جنگ کی دعوت کو قبول کیا ہے اسے اپنے انجام کی خیر منانا چاہیے۔ اللہ کے لیے کیا دیر ہے کہ زمین کو ہلکی سی جنبش دے یا سمندروں سے پانی اچھال دے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved