2008 ء کا سال عالمی اقتصادیات کیلئے بے پناہ مشکلات کا سال ثابت ہوا۔سال کے شروع میں کسی نے خواب میں بھی مالیاتی اور اقتصادی بحران کا تصور نہ کیا ہو گا۔ گزشتہ برسوں کی طرح 2008ء کا آغاز بھی عام طرح سے ہوا‘مگر وقت کے ساتھ ساتھ حالات بگڑتے چلے گئے۔اس سال کے دوران عالمی معیشت ایک ایسے بحران کا شکار رہی‘ جس کے بارے میں بعض عالمی ماہرین کا کہنا تھا کہ1930ء کے 'گریٹ ڈیپریشن‘ کے بعد دنیا میں اس نوعیت کا معاشی بحران دیکھنے میں نہیں آیا۔امریکا میں اقتصادی بحران سب سے پہلے بیروزگاری میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ایک برس میں امریکا میں بیروزگاری کی شرح کئی سال قبل جیسی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔2008ء میں 19 لاکھ افراد کی ملازمتیں ختم ہوچکی تھیں۔ امریکی لیبر ڈیپارٹمنٹ کے مطابق ‘صرف اکتوبر میں ہی امریکا میں بیروزگاری کی شرح 6.5 فیصد سے بڑھ کر 6.7 فیصد پر پہنچ گئی۔2008ء کے آغاز ہی میں امریکا میں مالیاتی اداروں کا بحران بھی سامنے آیا اور مالیاتی اداروں کے دیوالیہ ہونے کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا۔
اس میںکوئی دو رائے نہیں کہ امریکی معیشت پوری دنیا کی معیشت کا پانچواں حصہ ہے۔ اس لحاظ سے امریکی معاشی بحران سے پوری دنیا میں اقتصادی کساد بازاری اور اس جیسے دیگر کئی امراض کو پھیلانے کا باعث بنا اور رفتہ رفتہ اس بحران نے تقریباً پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔2008ء تو ختم ہوگیا‘ لیکن اس دوران عالمی سطح پر معیشت میں جو تبدیلیاں آئیں ‘انہوں نے عشروں سے مستند قرار دیے گئے معاشی مفروضوں اور نظام کے بارے میں کئی سوالات کو جنم دیا‘ جن کے جوابات آج تک ہم تلاش نہیں کر سکے۔ ایک طرف تو دنیا ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے ذریعے ملکوں کے درمیان دوریاں ختم کرنے کیلئے سرگرداں ہیں۔ دوسری جانب ماہرین یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ چند ملکوں میں شروع ہونے والے معاشی بحران کے پوری دنیا تک پھیل جانے میں گلوبلائزیشن اور ملکوں کے قریبی معاشی تعلقات کا کتنا عمل دخل ہے؟چین اور امریکا دو عالمی معیشتوں کے درمیان سرد تجارتی جنگ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ایک دوسرے کی مصنوعات پر محصولات کا عائد کرنا اور کمپنیوں پر پابندیاں لگانا‘ اشارے کسی اور طرف لے جارہے ہیں۔مالی بدعنوانی کی سزا دی جانی چاہیے‘ لیکن بڑی مالی کمپنیوں کو ناکام بنانا غلط طریقہ ہے۔ اوبامہ کے محکمہ انصاف نے 2012 ء کے وسط تک سنجیدہ تحقیقات کا آغاز نہیں کیا تھا۔ اس وقت تک عام مجرمانہ دھوکہ دہی پر حدود کا قانون ختم ہوچکا تھا۔ بینکوں نے شہری دھاندلی کی شکایات کے ازالے کیلئے اربوں ڈالر کی ادائیگی کی اور دوبارہ وہی دھوکہ دہی نہ کرنے کا وعدہ کیاگیا۔امریکی میڈیا کے مطابق‘ پھرکئی بار اس کا ارتکاب ہوا ہے۔
عالمی مبصرین چوکنا کر رہے ہیں کہ عالمی طاقتوں کی تجارتی لڑائی موت اور ٹیکس کی طرح یقینی ہے اور یہ کہ اقتصادی بحران دوبارہ پھوٹ سکتا ہے‘ تاہم کسی کو بھی علم نہیںکہ وہ کتنا برا ہوگا؟ اس غیر یقینی صورتحال کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ تجارتی کمپنیاں بڑے پیمانے پر ہنگامی صورتحال سے دوچار ہیں۔ آخری عالمی مالیاتی بحران 1930 ء کے عشرے کے بعد سب سے بدترین تھا‘ لیکن اگرعالمی اداروں اورمعاشی طاقتوں نے احسن طریقے سے معیشت کو سنبھالا ہوتا اور مالی خوف کو ختم کیا جاتا تو2008ء کا دور اس قدر خراب ہونے سے بچ سکتا تھا۔حالات و واقعات مستقبل قریب میں خطرناک معاشی صورتحال کا سگنل دے رہے ہیں۔واشنگٹن حکومت نے حالیہ چند ماہ کے اندر اندر کئی مرتبہ چینی درآمدات پر اضافی ٹیکس عائد کر دیے ہیں۔ چین نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا اعلان کیا ۔مبصرین حیران ہیں کہ دونوں ممالک کب تک آگ سے کھیلنا جاری رکھیں گے؟امریکا اور چین میں تجارتی جنگ کے منفی اثرات کے باعث پانچ بڑی امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو بڑے نقصانات کاسامنا کرنا پڑرہا ہے۔ کمپنیوں کے حصص کی قیمت میں تین فیصد سے زائد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔اس حوالے سے ایپل‘ فیس بک‘ مائیکرو سافٹ‘ ایمزون اور ایلفابیٹ کی حصص کی قیمت میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔مجموعی طورسرمایہ کاروں کے سرمائے میں ایک سوساٹھ ارب ڈالرکی کمی کا سامنا ہے۔ سب سے زیادہ کمی ایپل کے حصص میں پانچ اعشاریہ تین فیصد دیکھی گئی۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کے حصص میں چار فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ٹیکنالوجی حصص میں کمی کا یہ سلسلہ رواں ماہ کے آغاز شروع ہوا۔شیئرز کی قیمت میں کمی کی وجہ امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی کو سمجھا جاتا ہے۔ امریکا نے چینی مصنوعات پریکم ستمبر سے مزید دس فیصد ٹیرف بڑھانے کا اعلان کیا ۔اس کے علاوہ چین کی جانب سے کرنسی کی قدر میں کمی کے بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ امریکی کمپنی ایپل کے چین سے کاروباری تعلقات کافی مضبوط ہیں‘ جس کے باعث یہ کمپنی زیادہ متاثرہوئی ہے۔
چین نے دھمکی دی ہے کہ اگر واشنگٹن نے تائیوان کے ساتھ جنگی جہاز کی فروخت کا معاہدہ کیا تو وہ ان تمام کمپنیوں پر اقتصادی پابندیاں لگا دے گا ‘جو تائیوان کے ساتھ ایف 16 کی فروخت میں شامل ہیں۔وزیر خارجہ گنگ شوانگ نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسلحے کی فروخت کو روکے اور تائیوان کے ساتھ فوجی معاہدہ ختم کرے۔امریکی حکومت نے آٹھ ارب ڈالر کے ممکنہ معاہدے کی منظوری دی ہے‘ جس میں 66 جنگی طیارے شامل ہیں۔ یہ کئی دہائیوں میں سب سے بڑا معاہدہ ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی چین کی 250 ارب ڈالر کی مصنوعات پر 25 فیصد ٹیکس عائد کر چکے ہیں۔
الغرض چین نے بھی ردعمل کے طور پر امریکا کی 110 ارب ڈالر کی مصنوعات پر ٹیکسز عائد کر دیئے تھے۔تجارتی جنگ کیا نیا رخ بدلتی ہے ؟کچھ کہنا قبل از وقت ہے‘ مگر مستقبل میں بھاری اقتصادی نقصان کا خدشے کی علامات ضرور نظر آرہی ہیں۔دونوں بڑی معیشتوں کو ماضی سے ضرور سبق سیکھنا چاہیے۔