تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     30-08-2019

سرخیاں، متن ، ریکارڈ کی درستی، ٹوٹا اور اقتدار جاوید

فیصلوں میں شامل خیر خواہ نے گھیرا تنگ ہونے سے آگاہ کیا: رانا ثناء 
نواز لیگ کے منشیات کیس میں گرفتار رہنما رانا ثناء اللہ نے کہاہے کہ ''فیصلوں میں شامل خیر خواہ نے گھیرا تنگ کیے جانے سے آگاہ کیا‘‘ جبکہ میرے اکثر خیر خواہوں کو اندر کر دیا گیا ہے‘ جس میں ایک ڈی ایس پی بھی شامل ہے اور دوسروں کی پکڑ دھکڑ بھی جاری ہے‘ جبکہ میرے داماد کو قتل کے ایک بڑے کیس میں دھر لیا گیا ہے اور ایک طرح سے گڑا مردہ اکھاڑا گیا ہے؛ حالانکہ لوگ اس کو سراسر بھول چکے تھے‘ لیکن حکومت اور دیگر اداروں کی یادداشت کچھ ضرورت سے زیادہ ہی تیز نظر آتی ہے۔ لگتا ہے‘ انہوں نے بادام کثرت سے کھانا شروع کر دیئے ہیں‘ جس کی وجہ سے بادام مہنگے ہو گئے ہیں‘ جبکہ میرے جج کی تبدیلی پر ہماری جماعت نے بجا طور پر احتجاج کیا ہے‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت میرے تمام خیر خواہوں کا خاتمہ کر کے ہی دم لے گی اور میں اِدھر کال کوٹھڑی میں قید تنہائی کاٹ رہا ہوں اور دیگر کوئی سہولت بھی حاصل نہیں ؛ حالانکہ ہمارے قائدین کو سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ آپ اگلے روز کیمپ آفس جیل سے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
بلوچ عوام پر ترقی کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور نواز لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''بلوچ عوام پر ترقی کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں‘‘ جبکہ ہماری ترقی کے دروازے بھی بند کیے جا رہے ہیں اور اس ترقی کے جُملہ ثمرات کو ہڑپ کیا جا رہا ہے اور میرے سمیت خاندان کے جملہ افراد کی ترقی پر بھی ہاتھ صاف کیا جا رہا ہے اور اس سے زیادہ لالچی حکومت میں نے آج تک نہیں دیکھی ‘بلکہ جو چار پیسے ہم نے برسات کے دنوں کیلئے بچا کر رکھے ہوئے تھے‘ ان کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے‘ جبکہ برسات کی تباہ کاریوں کا اندازہ کراچی کے حالات سے بھی لگایا جا سکتا ہے‘ بلکہ یہاں لاہور میں بھی اس نے کوئی کم تباہی نہیں مچائی اور مجھے ربڑ کے بوٹ پہن کر بارش اور سیلاب زدہ علاقوں میں فوٹو سیشن کرانا بُری طرح یاد آ رہا ہے‘ بلکہ یاد تو مجھے اور بھی کچھ آ رہا ہے‘ جس کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں‘ جبکہ کمر کے درد میں اس قسم کی یادگیریاں زیادہ پریشان کرتی ہیں؛ اگرچہ پریشانی کا اصل زمانہ ابھی آنے والا ہے‘ کیونکہ ہمارے خلاف انتقامی کارروائیوں نے اب زیادہ زور پکڑ لیا ہے‘ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری جمیل شاہ کاکڑ سے ملاقات کر رہے تھے۔
اکتوبر ‘ نومبر میں پاک بھارت جنگ دیکھ رہا ہوں: شیخ رشید احمد
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''اکتوبر ‘ نومبر میں پاک بھارت جنگ دیکھ رہا ہوں‘‘ اگرچہ میری نظر خاصی کمزور ہے‘ تاہم عینک بدلوا کر بھی دیکھا ہے‘ بلکہ دُور بین سے تو صاف نظر آ رہا ہے کہ اکتوبر نومبر میں یہ جنگ ہوتی صاف نظر آ رہی ہے اور اسی خوف کی وجہ سے ٹرینوں کے حادثات بھی بہت کم ہو گئے ہیں‘ جن کی وجہ سے کافی رونق لگی ہوئی تھی اور ہر موقعہ واردات پر پہنچنے کی وجہ سے میری آب و ہوا بھی تبدیل ہو جاتی تھی اور صحت بھی بہتر ہوتی محسوس ہوتی تھی اور سب جانتے ہیں کہ یہ حادثے سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے خریدے ہوئے ناقص چینی انجنوں کی وجہ سے ہو رہے تھے۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں خطاب کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے آج اپنے کالم میں نظیر اکبر آبادی کے کچھ اشعار نقل کیے ہیں‘ جن میں سے ایک یہ ہے : ؎
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے کاہے کے
اس کا دوسرا مصرعہ بے وزن ہو گیا ہے‘ جبکہ اصل مصرعہ یوں ہوگا ع
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کس لیے
ایک خاتون اینکر پرسن
ہمارے ایک چینل میں ایک خاتون اینکر پرسن کا وتیرہ یہ ہے کہ وہ تین چار نہایت معتبر تجزیہ کاروں کو اپنے شو میں لے کر بیٹھ جاتی ہے‘ جس میں گڑ بڑ یہ ہوتی ہے کہ آپ ایک تجزیہ کار کو کسی موضوع پر بات کرنے کی دعوت دیتی ہیں‘ وہ ابھی دو چار جملے ہی ادا کرتے ہیں کہ محترمہ بیچ میں خود بولنے لگ جاتی ہیں‘ بلکہ اس کراس ٹاک میں ایک آدھ اور صاحب بھی بولنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ سب زور زور سے بولتے ہیں‘ تا کہ ان کی ہی بات سنی جا سکے‘ لیکن کسی کو سمجھ میں کچھ نہیں آتا؛ حالانکہ موصوفہ کو چاہیے کہ اس شریف آدمی کو اپنی بات مکمل کر لینے دیں اور اگران کی دخل اندازی اتنی ہی ضروری ہو تو پہلے انہیں خاموش کرا دیں؛ چنانچہ اس شور وغل میں ایک اچھے خاصے شو کو برباد کر دیا جاتا ہے۔ کیا موصوفہ اس شو پر قدرے رحم نہیں فرما سکتیں؟
اور اب بآخر میں اقتدار ؔجاوید کی نظم:
پرندوں کی دنیا
میں امرود کے باغ کے کونے میں / ایک چھوٹی سی کُٹیا بنا لوں/ یا امرود کے چھوٹے سے خوبصورت ترین پیڑ پر/ آشیانہ بنا لوں/ میں خود آشیانے سے نکلوں / پرندے وہاں پر چھُپا لوں/ اگر آشیانے میں ہوں / اور کانٹوں سے چُبھے تنکے / میں کیلے کے پتے بچھا لوں /کہیں سے بڑا لائوں پتھر/ اور اس کا میں تکیہ بنا لوں/ ہوا دار کونے کے اک سمت کدّو اُگا لوں / اگر پُورے دن میں / کوئی لمحہ فرصت کا آئے میسر/ تو ہانڈی پکا لوں / توے کو میں دھو لوں / میں چھوٹی سی روٹی بنا لوں / میں روٹی کے ریزے / پرندوں کی چونچوں میں ڈالوں / میں اک اجنبی کے چُغے کو پہن کر/ نیا ایک حُلیہ بنا لوں / میں ماں موئی لڑکی کی گندم چرا لوں / بڈاوا میں بن کر / کاندھے پہ چڑیاں بٹھا لوں / اگر ہنسنا ہو تو / میں کم گہرے برتن میں / بگلے کی دعوت کروں / تھوڑا اس کو کھلائوں / ذرا خود بھی کھا لوں / اگر جنگ کرنی ہو مجھ سے کسی نے / یا ناراض ہو مجھ سے کوئی / تو پیغام برفاختہ کو بنا لوں / میں خود کایا بدلوں / میں خود کو پرندہ بنا لوں !
آج کا مطلع
شکوہ و شکر نہ کچھ عرض گزاری رہے گی
غیر مشروط محبت ہے یہ جاری رہے گی

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved