اسی کا مستقبل ہے‘ اسی کا‘ جس کی نیت سچی ہے۔ ایمان سے جس کا قلب روشن ہے‘ جس کے دل میں خلوص بویا گیا۔ ع قریب تر ہے نمود جس کی‘ اسی کا مشتاق ہے زمانہ پیپلز پارٹی کا وزیراعظم نہیں بنے گا‘ کسی صورت نہیں۔ الاّ یہ کہ واضح اکثریت‘ وہ حاصل کر لے۔ سب مبصر متفق ہیں کہ اکثریت بہرحال اسے مل نہیں سکتی۔ اربوں کھانے والا‘ کروڑوں روپے خرچ کرنے والا انشاء اللہ راجہ پرویز اشرف ہارے گا اور بُری طرح ہارے گا‘ باقیوں کا ذکر ہی کیا۔ گجر خان میں انشاء اللہ خواجہ حمید الدین جیتے گا اور اس کے باوجود جیتے گا کہ وہ امیدوار ہی نہیں۔ وہ خاک بسر لوگوں کا سنگی ساتھی ہے؛ چنانچہ کبھی ہارا ہی نہیں۔ 120 سیٹیں زرداری صاحب ہتھیا لیں اور اقتدار سنبھالیں۔ اعتراض کا کسی کو حق نہ ہوگا لیکن اگر ایک چوتھائی نشستیں ہی ملیں اور خریداری کرنے کی انہوں نے کوشش کی تو وکلاء تحریک ایسی تحریک اُٹھے گی اور سب کچھ تہہ و بالا ہو جائے گا۔ ریگ زار کی آندھی برباد کن ہوتی ہے۔ تُند ہوا میں ریت کے ذرّے بندوق کے چھرّوں کی طرح ہو جاتے ہیں۔ کھلی ہوا میں اگر مسافر ہو تو چہرہ ڈھانپنا ہوتا ہے۔ آنکھوں پر پگڑی کا پردہ جھکا کر ہی وہ آگے چل سکتا ہے۔ ایسی ایک اذیت ناک دوپہر یا شام تھی کہ رحمتہ اللعالمینؐ نے ابو جہل کے دروازے پر دستک دی۔ اس دلربا‘ دل نواز اور دل جیت آواز نے جو پتھروں کو پگھلا دیا کرتی‘ بدقسمت آدمی کو ایمان کی دعوت دی مگر ایمان تو عطا سے ملتا ہے۔ اس کے نصیب میں نہیں تھا۔ تاریخ کی دائمی رسوائی تھی اور جہنم تھا۔ جلسہ بجا‘ جلوس بجا اور سوشل میڈیا پر پیغامات بھیجنے کا قرینہ خوب۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کو اب یہ چاہیے کہ ان میں سے ہر کوئی ایک فہرست بنائے۔ ان سب لوگوں کی‘ جن سے ووٹ کی استدعا کرنی ہے۔ سب سے اوّل‘ وہ لوگ جو ووٹ نہیں ڈالتے۔ وہ جو ذاتی تعلق‘ ذاتی درخواست کی پروا کرتے ہیں اور ایسے لوگ بہت ہیں‘ بے شمار۔ چار دن کے اندر 30 لاکھ کارکن تین کروڑ ووٹروں کے دروازے کھٹکھٹا سکتے ہیں۔ پکے ووٹوں کے علاوہ اگر تیس لاکھ رائے دہندگان کو بھی آمادہ کیا جا سکے تو الیکشن وہ جیت لیں گے اور اس شان سے جیتیں گے کہ دشمن بھی ان کی کامیابی تسلیم کرے۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ پیپلز پارٹی پہ کتنے ہی اعتراضات ہوں۔ کتنا ہی اس سے اختلاف ہو‘ وہ ایک وفاقی پارٹی ہے۔ سندھ میں غالب ہے۔ پنجاب اور سرحد میں ہر کہیں موجود۔ بلوچستان میں اب تک باقیوں سے بہتر تھی۔ آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کیا‘ یہ ناچیز تو اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کا بھی قائل نہیں۔ یہ مگر ایک تاریخی صداقت ہے کہ پاکستان کے دولخت ہو جانے پر‘ چاروں صوبوں کو یکجا رکھنے میں پیپلز پارٹی کا بھی ایک کردار تھا۔ اس پارٹی کی ایک نادر خصوصیت ہے‘ ابتلا کے ان گنت موسم بِتا کر‘ کراچی سے چترال تک ا س کے کارکن ایک برادری بن گئے۔ مالی بے قاعدگیاں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں بھی ہوئیں مگر آصف علی زرداری؟ صرف ایک برس 2009ء کے دوران‘ امریکہ اور یورپ کے اخبارات میں ایک ہزار مضامین چھپے‘ جن کا موضوع صدرِ پاکستان کے مالی کارنامے تھے۔ صدر مارکوس کی طرح‘ کرپشن پر کام کرنے والے عالمی ادارے مطالعہ اور تحقیق کے لیے آنجناب کو ایک نمونۂِ عمل قرار دیتے ہیں۔ ریسرچ سکالرز کو وہ بتاتے ہیں کہ جب قانون کو دھوکہ دینا مقصود ہو تو اس شخص کا ذہن ایک فنکار کی طرح بروئے کار آتا ہے۔ اسلام آباد کے کھرب پتی سے‘ عالی جناب کا گہرا ذاتی تعلق ایک عشرے سے چلا آیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو گُر بتایا کرتے۔ ہر چیز میں یہ شخص ان کا ساجھے دار تھا‘ حتیٰ کہ ایم کیو ایم‘ اے این پی اور قاف لیگ کے لیے وزارتوں کی تقسیم کے مراحل میں۔ اقتدار نامقبول کرتا ہے اور برصغیر میں بہت زیادہ کہ ہماری سب امیدیں حکمرانوں سے وابستہ ہوا کرتی ہیں۔ وزراء اعلیٰ‘ وزیراعظم اور صدر نہیں‘ ہم لوگ انہیں بادشاہ جانتے مانتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے لیے پسندیدگی کم ہو جاتی۔ آصف علی زرداری صاحب نے پیپلز پارٹی کی فصل ہی اُجاڑ دی۔ سندھ اور سرائیکی پٹی کے سوا اب انہیں کہیں کچھ نہ ملے گا اور آزاد ارکان کی خریداری قوم نہ کرنے دے گی۔ سوال ہی نہیں‘ زرداری صاحب کے اقتدار کا سوال ہی باقی نہیں۔ قطعاً نہیں‘ کوئی صورت ہی نہیں۔ اب صرف دو امیدوار باقی ہیں۔کپتان اور میاں۔ملک کے تین حصوں میں عمران خان بہت زیادہ مقبول ہیں۔قبائلی علاقے میں ان کی حمایت 35 فیصد ہے۔مولانا فضل الرحمن اور نون لیگ کی دس دس فیصد باقی چھان بورا۔صوبہ سرحد ، جہاں تمام تجزیوں کے مطابق وہ سب پر بھاری ہے۔30 فیصد تائید کے ساتھ۔ساہیوال سے اٹک تک ، وسطی اور شمالی پنجاب۔150 سیٹیں ہیں ، ان علاقوں میں۔ ایک سو کپتان جیت لیتا، اگر تمام فیصلے سوچ سمجھ کر کیے جاتے۔سپریم کورٹ کا حکم مانا جاتا اور سمندر پار پاکستانی ووٹ ڈالتے تو مزید 30 لاکھ ۔میاں محمد نوازشریف اور آصف علی زرداری کے خفیہ لین دین سے الیکشن کمیشن وجود میں آیا۔ وزیراعلیٰ بھی ساز باز سے بنے ، مثلاً انکل سام کے عاشق زار نجم سیٹھی ، نوازشریف کی اعلانیہ تائید کے ساتھ آخر کس لیے؟ برادرم شفقت محمود کو کیا معلوم کس لیے؟اگر آج بھی کم از کم پنجاب کے پانچ صوبائی سیکرٹری شہبازشریف کا حکم مانتے ہیں۔اگر آج بھی خفیہ پولیس یعنی سپیشل برانچ ان کے لیے کام کرتی ہے تو کس کے اشارے پر؟ نجم سیٹھی شریک جرم نہیں تو پیر کے دن گوجرانوالہ میں پولیس نے کپتان کا جلسہ ناکام بنانے کی پوری کوشش کس کے ایما پر کی ؟ عمران خان مقبول ہوئے تو لسی پینے والا شیر جاگ اٹھا۔عربوں سے مدد مانگی ، اور انکل سام سے ۔ایک ایک اخبار نویس خرید لیا جو خریدا جاسکا۔بعض سے کہا: بظاہر تم غیر جانبدار رہو مگر مشکل میں ، مگر نازک مرحلوں میں ہماری مدد کرتے رہو۔بعض دانشوروں سے سفارت کا وعدہ ہے‘ بعض سے سینیٹر بنانے کا۔ باقیوں کو اقتدار میں آ کر نوازنے کا۔ ان میں سے ایک نے کئی امیدواروں سے ٹکٹ کے وعدے پر مال سمیٹا ، تفصیل کسی دن لکھ دوں گااور جو یہ بھاڑے کا ٹٹو بہت چیخ رہا ہے ، وہ صرف سفیر بنے گا ، ایسے کسی ملک میں ، جہاں ذہنی مریضوں کو آسودہ رکھنے والے کلبوں میں شب بھر روشنیاں جھلملاتی ہیں۔ میڈیا کے طفیل، امریکہ ، عربوں اور مالدار طبقات کی مدد سے اگر نوازشریف وزیراعظم بن گئے؟ اتوار کے دن پاکستان دشمن ایک بھارتی اخبار نویس کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے بتا دیا کہ پاکستانی فوج کو وہ رسوا کریں گے۔تین برس چودھری نثار علی خان اور شہبازشریف ،جنرل کیانی کی خوشامد کرتے رہے۔ان سے وہ کہتے رہے کہ آپ سے نہیں ، ہمارا تو مشرف سے اختلاف تھا۔آپ تو جمہوریت نواز ہیں۔ اب نوازشریف نے بھانڈا پھوڑ دیا۔دل کی بات زبان پر آگئی کہ پاکستانی فوج سے وہ بُغض رکھتا ہے۔یہ جو دائیں بازو والے کرائے کے قلم کار ہیں، باقی اعتراض الگ‘ ان میں سے کوئی پاکستان کا غدار نہیں، بس مفاد پرست ہیں وگرنہ وہی روایتی پاکستانی۔ ان کی بجائے شریف خاندان کو پرویز رشید کیوں زیادہ عزیز ہے؟ اغراض نے اندھا نہ کردیا ہوتا تو کبھی وہ سوچتے ، کبھی وہ غور کرتے۔وہ سوچتے کہ بھارت اور امریکہ نواز عاصمہ جہانگیر اسے گوارا کیوں ہے؟ نوازشریف اگر وزیراعظم ہوگئے تو میڈیا کی آزادی تمام۔ کم از کم ان کی آرزو یہی ہوگی ۔مشرف کتنا ہی بُرا کیوں نہ ہو، آزادی اس نے دی تھی۔شریف دور میں تو ٹی وی سے حزب اختلاف کی کبھی کوئی ایک خبر جاری نہ ہوسکی۔آزاد صحافت کا وہ دشمن تھا۔اخبار نویس سر پہ ہاتھ رکھ کر روئیں گے۔ عدالت ؟ … وفاقی حکومت کی کرپشن اور جبر سے نبرد آزما ججوں کو فرصت نہ مل سکی کہ حدیبیہ پیپر مل ، شریف خاندان کی منی لانڈرنگ اور آٹھ ارب کے قرضوں کو دیکھتے ۔میڈیا میں کسی نے اُجاگر نہ کیا کہ لاہور ہائیکورٹ کے محترم اور معزز جج کس طرح چنے گئے اور کس لیے؟ شریف خاندان کو اقتدار ملا تو عدالتوں کے بارے میں اپنی تاریخ وہ دہرائے گا۔سرکار کا فرمان یہ ہے کہ کوہ احد اپنی جگہ سے ٹل سکتا ہے ، عادت نہیں۔ اس نادر روزگار شاعر نے کہا تھا ؎ وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نیں بھاویں کٹیے پوریے پوریے نی نہیں چلے سکے گا ، وزیراعظم بن بھی گیا تو نوازشریف چل نہ سکے گا۔آئندہ چار دن تحریک انصاف کے کارکن اگر باقی تمام مصروفیات چھوڑ کر ایک ایک دروازے پر جائیں تو 12 مئی کی سحر کپتان وزیراعظم ہوگا۔ خدا نخواستہ اگر نہ ہوسکا ۔اگر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے خریدے گئے ووٹ خلل پذیر ہوئے۔اگر اس کے نتیجے میں شریف خاندان آیا تو کتنے دن؟ پولیس ، پٹوار ، ایف بی آر ، واپڈا، سٹیل مل، ریلوے اور پی آئی اے کی وہ اصلاح نہ کر سکے گا۔ سالانہ جن کی وجہ سے قوم کے کم از کم سولہ سو ارب روپے ڈوب جاتے ہیں۔ جیسا کہ پانچ بار پنجاب اور دو بار مرکز میں آشکار ہوا۔ 200 ملین ڈالر کی بجائے 400 ملین ڈالر‘ 270 کی بجائے 438 کلو میٹر لمبی موٹروے کی مانند، قوم کو وہ بلٹ ٹرین ایسی شعبدہ بازی سے بہلانے کی کوشش کرے گا۔ ہر ایک سے بدلہ لے گا۔ فوج سے ، میڈیا سے، مخالفین سے، مہنگائی وہ کم نہ کرسکے گا ، روزگار دے نہ سکے گا۔ کتنے دن؟ پھر کتنے دن؟ کپتان ہی رہنما ہے۔ فریب دہی، دھاندلی اور نوسر بازی سے ، امریکہ اور عربوں کی مدد سے ، جعلی نگران حکومتوں کے تعاون سے کپتان کا راستہ اگر روک بھی لیا گیا تو کتنے دن؟… اسی کا مستقبل ہے‘ اسی کا‘ جس کی نیت سچی ہے، ایمان سے جس کا قلب روشن ہے۔جس کے دل میں خلوص بویا گیا۔ ع قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ پس تحریر: کل کے کالم میں پروف کی ایک غلطی ہو گئی۔ حفیظ اللہ نہیں‘ میں نے عرض کیا تھا کہ ٹکٹوں کے اجرا سے پہلے‘ تین دن تک میں کپتان سے بات کرتا رہا ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved