تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     31-08-2019

کشمیر کہانی …(18)

وی پی مینن سری نگر سے ایک طرح سے جان بچا کر فرار ہونے کے بعد اب دہلی پہنچ چکا تھا‘ جہاں سب اس کا انتظار کر رہے تھے۔ اسے ایئرپورٹ سے سیدھا ڈیفنس کمیٹی کے اجلاس میں لے جایا گیا‘ جہاں لارڈ مائونٹ بیٹن، نہرو‘ پٹیل اور کچھ فوجی افسران موجود تھے۔
وی پی مینن نے ساری صورت حال شرکا کے سامنے رکھی اور کہا: مہاراجہ ہری سنگھ ہندوستان کے ساتھ الحاق کیلئے تیارہے اور فوری طور پر فوجی مدد کا طلبگار بھی کیونکہ پاکستانی قبائلی لشکر سری نگر سے پینتیس کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچ چکا ہے۔ 
وی پی مینن سے پوچھا گیا کہ اس کی اپنی کیا رائے ہے جبکہ وہ سری نگر کے حالات خود دیکھ کر آرہا ہے۔ اس نے کہا کہ اس کے خیال میں فوری طور پر ہندوستان کو اپنی فوج سری نگر بھیج کر کشمیر کو بچانا چاہیے‘ ورنہ قبائلی لشکر‘ جو بارہ مولہ اور دیگر علاقوں میں قتل عام اور مال غنیمت اکٹھا کر رہا ہے‘ سری نگر کو تباہ کر دے گا۔
لارڈ مائونٹ بیٹن کچھ اور سوچ رہا تھا۔ وہ کچھ دیر بعد بولا: میرے خیال میں کشمیر میں ان حالات میں فوجیں بھیجنا سمجھداری کی بات نہ ہوگی کیونکہ کشمیر کا نہ تو ہندوستان کے ساتھ الحاق ہے اور نہ ہی پاکستان کے ساتھ‘ ایک لحاظ سے کشمیر ایک آزاد ملک یا آزاد ریاست ہے‘ اور وہاں فوجیں بھیجنا جارحیت کے مترادف ہوگا۔ اس کا کہنا تھا کہ مہاراجہ نے ابھی تک لکھ کر کسی ملک کے ساتھ الحاق نہیں کیا ہے‘ اگر وی پی مینن کی یہ بات سچ ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ اس وقت ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے کو تیار ہے تو پہلے اسے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے ہوں گے‘ اس کے بعد ہی قانونی طور پر جموں اور کشمیر ہندوستان کا حصہ بن سکیں گے‘ اس کے بعد ہی ہندوستانی فوج کشمیر بھیجنے پر غور ہو سکتا ہے۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے نہرو اور پٹیل کو دیکھ کر مزید کہا: تاہم اس پر بھی کچھ شرائط ہوں گی‘ جب وادی میں سکون ہو جائے گا تو وہاں کشمیریوں کی مرضی معلوم کرنے کے لیے باقاعدہ استصواب رائے ہو گا اور کشمیری عوام یہ فیصلہ کریں گے کہ وہ پاکستان یا ہندوستان میں سے کس کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں۔ مائونٹ بیٹن نے مزید کہا کہ کشمیر کا ہندوستان سے الحاق اس شرط پر ہی قبول کیا جا سکتا ہے کہ یہ سب انتظامات وقتی ہیں‘ لوگوں کی رائے کے بعد ہی فیصلہ ہوگا کہ کشمیر کس کا ہے۔ 
نہرو اور دیگر وزیروں نے فوری طور پر یہ بات مان لی۔ جونہی ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس ختم ہوا تو وی پی مینن کو فوراً ایئرپورٹ بھیجا گیا تاکہ وہ دوبارہ کشمیر جائے اور مہاراجہ کو یہ سب شرائط بتا کر اس سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرا کے واپس لائے۔
وی پی مینن کے ساتھ کشمیر کا وزیراعظم مہر مہاجن بھی تھا۔ جب دونوں جموں میں مہاراجہ کے محل میں پہنچے تو وہاں حالات بہت برے تھے۔ سارا سامان بکھرا پڑا تھا جو مہاراجہ اپنے ساتھ سری نگر سے لایا تھا۔ مہاراجہ اس وقت گہری نیند میں تھا جب وی پی مینن وہاں پہنچا۔ مہاراجہ کو وی پی مینن نے نیند سے جگایا اور اسے سب باتیں بتائیں کہ ہندوستان کی حکومت کن شرائط پر اس کی الحاق کی درخواست قبول کرنے کو تیار ہے۔ وہ فوراً تحریری طور پر الحاق کے لیے تیار ہو گیا۔ اس نے گورنر جنرل مائونٹ بیٹن کے نام ایک خط لکھا جس میں اس نے ریاست کی بری حالت کا ذکر کیا اور فوجی مدد کی درخواست دہرائی۔ مہاراجہ نے گورنر کو لکھا کہ اس کی خواہش ہے‘ وہ ایک نگران حکومت قائم کرے اور شیخ عبداللہ ریاست کے وزیر اعظم مہر مہاجن کے ساتھ مل کر صورتحال کو قابو میں لائیں۔ خط کے آخر میں مہاراجہ ہری سنگھ نے لکھا: اگر ہندوستان سری نگر کو بچانا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ فوری طور پر فوج بھیجی جائے۔ مہاراجہ نے اس الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیے جو وی پی مینن دہلی سے اپنے ساتھ لایا تھا۔ 
یہ سارا عمل مکمل کرنے کے بعد جب وی پی مینن واپس دہلی جانے لگا تو مہاراجہ ہری سنگھ بولا: ایک بات بتائوں‘ رات جب سونے گیا تھا تو میں نے اپنے اے ڈی سی کو کہا تھا کہ اگر وی پی مینن واپس آ جائے تو اسے نیند سے نہ جگائیں کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ سب ٹھیک ہوگیا ہے‘ لیکن اگر وہ واپس نہ آئے تو اسے نیند ہی میں گولی مار دی جائے۔
الحاق کی دستاویز لے کر وی پی مینن فوری طور پر دہلی کے لیے روانہ ہو گیا‘ جہاں سردار پٹیل اس کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔ پٹیل وہ خط لے کر فوراً دوبارہ ڈیفنس کمیٹی کے اجلاس میں چلا گیا‘ جہاں یہ فیصلہ ہونا تھا کہ فوج بھیجی جائے یا نہیں۔ اجلاس میں طویل بحث شروع ہو گئی کہ فوج بھیجنی چاہیے یا نہیں‘ کیونکہ ہندوستانی فوج کے جانے سے پاکستان بھی اپنی فوج بھیج سکتا تھا اور یوں ایک بڑی جنگ کا خطرہ پیدا ہو سکتا تھا۔ آخر طویل بحث مباحثہ کے بعد طے ہوا کہ پہلے مہاراجہ ہری سنگھ کی الحاق کی درخواست کو قبول کر لیا جائے۔
شیخ عبداللہ پہلے سے دہلی میں تھا اور وہ نئی ہندوستانی حکومت سے بار بار منت سماجت کر رہا تھا کہ فوری طور پر کشمیر میں فوجی بھیجیں؛ تاہم ہندوستانی حکومت کو پتا تھا کہ شیخ عبداللہ کی کوئی قانونی یا آئینی حیثیت نہیں کہ محض اس کے کہنے پر ہندوستانی فوج سری نگر بھیجی جائے۔ اوپر سے ہندوستانی قیادت کو یہ بھی علم تھا کہ کل کلاں کو پاکستان نے بھی شیخ عبداللہ کی اس درخواست کو کوئی وقعت نہیں دینی کیونکہ اس وقت اصل حکمران مہاراجہ تھا۔ اگرچہ یہ بات بھی زیر بحث تھی کہ شیخ عبداللہ کی طرح مہاراجہ بھی تو اپنی ریاست کھو چکا ہے اور اس وقت سری نگر پر کوئی حکومت یا اس کا حکمران موجود نہیں ہے‘ لہٰذا اخلاقی یا قانونی طور پر مہاراجہ کے ان حالات میں ہندوستان سے الحاق کرنے کے فیصلے پر بھی بہت سارے شکوک پیدا ہو سکتے تھے؛ تاہم اب بھی شیخ عبداللہ کی نسبت مہاراجہ کے پاس زیادہ اخلاقی اور قانونی جواز تھا کہ وہ الحاق کر لے۔ 
اب سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ مہاراجہ کی سب سے اہم درخواست کا کیا کیا جائے؟ وہ ہندوستان سے فوجی مدد مانگ رہا تھا۔ بڑی عجیب بات تھی کہ اسی مہاراجہ کو سمجھانے کے لیے دو ماہ پہلے لارڈ مائونٹ بیٹن سری نگر میں تین دن اس کے محل میں گزار کر آیا تھا۔ وہ مسلسل مہاراجہ کو قائل کرنے کی کوششوں میں لگا رہا کہ پاکستان کو جوائن کر لے کیونکہ یہی اس کے لیے اچھا تھا‘ وہ قائد اعظم سے بات کرکے اسے بہتر پیکیج لے دے گا۔ کشمیر کو فطری طور پر پاکستان کے ساتھ ہی جانا چاہیے تھا‘ اور مائونٹ بیٹن نے مہاراجہ کو اس حوالے سے دلیلیں دینے کی کوشش بھی کی تھی۔ مائونٹ بیٹن نے مہاراجہ کو یہ تک بتا دیا تھا کہ وہ اگر پاکستان کے ساتھ الحاق کرتا ہے تو بقول وزیر داخلہ سردار پٹیل کے‘ ان کی حکومت اس پر اعتراض نہیں کرے گی کیونکہ وہ یہ سمجھ سکتی تھی کہ ایک تو کشمیر کی آبادی میں مسلمان زیادہ ہیں‘ دوسرے کشمیر کے تمام راستے پاکستان سے ہی ہو کر جاتے ہیں؛ تاہم مہاراجہ نے نہ صرف مائونٹ بیٹن کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا بلکہ جس صبح اس نے دہلی واپس لوٹنا تھا، مہاراجہ اسے رخصت کرنے تک نہیں آیا تھا۔ 
لارڈ مائونٹ بیٹن کے ذہن میں یقینا یہ بات ہوگی کہ وہی مہاراجہ جو اس کی بات سننے کو تیار نہیں تھا اور اسے رخصت کرنے بھی نہیں آیا تھا‘ اس وقت خود سری نگر سے دربدر ہوکر جموں میں اپنے محل میں لیٹا اس سے مدد کی بھیک مانگ رہا ہے۔
جب اجلاس میں فوج بھیجنے کی بات ہونے لگی تو بھارتی فوج کے سربراہ، نیوی اور ایئر چیف‘سب نے کہا: ہندوستانی فوجیں کشمیر بھیجنے میں بہت سارے خطرات ہیں۔ 
اجلاس میں نہرو کی حالت دیکھنے والی تھی۔ وہ ایک دانشور کی طرح گفتگو کر رہا تھا۔ وہ کشمیر کے معاملے کو فلسفیانہ رنگ دینے میں لگا ہوا تھا۔ وہ اس وقت کشمیر کو روس، امریکہ اور اقوام متحدہ کے نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ سردار پٹیل یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور اس کا صبر جواب دے رہا تھا۔ آخر سردار پٹیل سب کے سامنے پھٹ پڑا اور بولا: جواہر لال‘ چھوڑو یہ سب بحث مباحثہ اور فلاسفی، یہ بتائو تم کشمیر چاہتے ہو یا نہیں؟
لارڈ مائونٹ بیٹن سمیت سب کی نظریں نہرو کی طرف اٹھ گئیں جو اس اچانک سوال کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ اجلاس میں موجود ہندوستان کا ڈی جی ملٹری آپریشن سام مانک شاہ اچانک چوکس ہو گیا کیونکہ نہرو کے جواب پر ہی سب کچھ منحصر تھا۔
نہرو گہری سوچ میں غرق تھا اور سب آنکھیں اس پر مرکوز تھیں۔ سردار پٹیل پھر زور سے بولا: جواہر لال تم کشمیر چاہتے ہو یا ہم پاکستان کو دے دیں؟ (جاری) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved