ہم تصور اور حقیقت کے درمیان الجھ کر‘ پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ذہنوں کے پردے پر جلوہ گر ہونے والے تصورات گوناگوں صفات کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کی دل کشی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہر تصور اپنے اندر کسی نہ کسی حد تک جاذبیت رکھتا ہے۔ جو کچھ ہمیں مل نہ سکا ہو اُسے ہم تصور کی مدد سے دیکھتے ہیں اور تصور ہی تصور میں پا بھی لیتے ہیں! یہ کوئی انوکھی مشق نہیں۔ جو کچھ مل نہیں سکا ہے یا ہم کر نہیں پائے ہیں اُس کے بارے میں تصور باندھتے رہنا ایک ایسی مشق ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ یہ مشق بہت حد تک معمول کا درجہ رکھتی ہے اور دنیا کا ہر انسان اس معمول کے پنجرے میں قید ملے گا۔
جو کچھ ہم چشمِ تصور کی مدد سے دیکھتے ہیں وہ خوش نما ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ ہماری آرزوؤں اور امنگوں کا عکس ہوتا ہے۔ جب ہم اپنی کسی آرزو کے بارے میں سوچتے ہیں تو انتہائی پُرامیدی کی حالت میں ہوتے ہیں۔ انسان جب اپنی خواہشات کو بنیاد بناکر پُرامید ہوتا ہے تو کہیں بھی‘ کچھ بھی غلط دکھائی نہیں دیتا۔ تصور ہمیں ایک ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جس میں ہمارے لیے سبھی کچھ اچھا ہوتا ہے‘ راوی چَین ہی چَین لکھ رہا ہوتا ہے اور ہر طرف سے ''سب اچھا ہے‘‘ کی صدائیں آرہی ہوتی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ محض تصورات کی دنیا میں رہنے سے تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب بہر طور نفی میں ہے۔ سوچنے کی عادت چاہے جتنی بھی مضبوط اور جامع ہو‘ عمل کا مکمل نعم البدل ثابت نہیں ہوسکتی۔ کہنے کو ہم ایک دنیا میں جی رہے ہیں‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم کم از کم دو دنیاؤں کے باسی ہیں۔ ایک طرف تو وہ دنیا ہے جو ہمارے ذہن میں بسی ہے‘ یعنی خواب و خیال کی‘ تصورات کی دنیا۔ اس دنیا میں سب کچھ ہماری خواہشات کے مطابق چل رہا ہوتا ہے۔ جو کچھ ہم کر نہیں پاتے یا حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے وہ ہم تصورات کی دنیا میں پالیتے ہیں‘ کرلیتے ہیں۔ یہ چونکہ بہت آسان آپشن ہے اس لیے اپنانے میں دیر نہیں لگائی جاتی۔
دوسری دنیا ہے حقیقت کی‘ جس میں ہم واقعی سانس لے رہے ہیں۔ یہ حقیقی دنیا اچھی خاصی سفاک ہے۔ یہ کسی کی شرم رکھتی ہے نہ لحاظ کرتی ہے۔ حقیقی دنیا میں سب کچھ وہی ہوتا ہے جیسا دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ کسی بھی چیز کو کسی اور رنگ میں پیش کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ حقیقی دنیا چونکہ حقیقتوں سے بنی ہے اس لیے ہر حقیقت کو قبول کرنا ہی پڑتا ہے۔ کوئی بھی حقیقت ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے‘ ہمیں بھائے یا نہ بھائے ... اُسے قبول کرنے کے ساتھ ساتھ برتنا بھی پڑتا ہے۔ حقیقی دنیا میں کسی بھی بنیادی اور ہمہ گیر تبدیلی کے لیے لازم ہے کہ انسان اپنی ذات سے جُڑی ہوئی ہر حقیقت کو کھلے دل سے اور پورے ہوش و حواس کے ساتھ تسلیم کرے۔ اس منزل سے گزرنے ہی پر انسان اپنی ذات سے وابستہ تمام حقیقتوں سے مطابقت رکھنے والی طرزِ فکر و عمل کا حامل ہو پاتا ہے۔
یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ کوئی تصور چاہے جتنا بھی خوبصورت ہو‘ اُسے زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔ تصور اول و آخر تصور ہی ہوتا ہے۔ اُسے زندہ رکھنے کی قیمت کبھی کبھی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اس محاذ سے پسپا ہو جانا ہی دانائی کا مظہر کہلاتا ہے۔ دوسری طرف زمینی حقیقت کو مٹانا کسی کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ حقیقت اپنے آپ کو تسلیم کرواکے دم لیتی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ایک طرف تصور کو تادیر زندہ رکھنا ممکن نہیں ہوتا اور دوسری طرف حقیقت کو ختم یا نابود نہیں کیا جاسکتا۔ اس حقیقت کو سمجھنے والے ہی اپنے آپ کو حقیقی کامیابی سے ہم کنار کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔
زندگی کو حقیقی کامیابی‘ خوش حالی اور مسرّت سے ہم کنار کرنے کے لیے لازم ہے کہ حقیقت اور تصور کے درمیان توازن قائم کیا جائے۔ کسی بھی انسان کے لیے معقول ترین طرزِ فکر و عمل یہ ہے کہ حقیقت کی دنیا کو نظر انداز نہ کرے اور تصورات کی دنیا میں گم ہوکر نہ رہ جائے۔ عمومی سطح پر ہوتا یہ ہے کہ انسان حقیقت سے چشم پوشی برتتے ہوئے تصورات کی دنیا میں غرق ہوکر سکون محسوس کرتا ہے۔ یہ غیر حقیقی اور عارضی سکون اُسے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے‘ مگر یہ بات آسانی سے سمجھ میں اس لیے نہیں آتی کہ انسان کوتاہ بین ہے اور صرف وقتی معاملات کو اچھی طرح سمجھ پاتا ہے۔ پیش بینی کے لیے حواس و عقل کی تربیت لازم ہے۔ کم ہی لوگ اس حوالے سے تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ تصورات کی دنیا میں گم رہنا تو کسی طور مناسب نہیں مگر ہاں‘ ایک خاص حد تک تصورات سے مستفید ہوا جاسکتا ہے۔ ہماری زندگی میں ایسا بہت کچھ ہے جو تصورات کا مرہون منت ہے۔ مگر ایسا اُسی وقت ممکن ہوتا ہے جب تصورات کو حقیقتوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے بھرپور محنت کی جائے۔
اس دنیا میں ہمیں ترقی کے نام پر جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ ہر معاملے میں اپنائے جانے والے توازن اور پیدا کی جانے والی ہم آہنگی کا مرہون منت ہے۔ سوچنے والوں نے بہت کچھ سوچا اور محض سوچنے کی منزل میں نہیں رک گئے بلکہ آگے بڑھ کر حقیقت کی دنیا کو بھی گلے لگایا۔ تمام متعلقہ حقیقتوں کا جائزہ لے کر جو تصورات قائم کیے جاتے ہیں اُن میں حقیقت پسندی جھلکتی ہے۔
آج انسان کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرکے محض تصورات کی دنیا میں گم رہنے کو ترجیح دینے پر تُلا ہوا ہے۔ اس روش پر گامزن رہنے سے شخصی اور اجتماعی دونوں ہی سطحوں پر شدید نقصان پہنچتا ہے‘ مگر اس نقصان کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا کیے بغیر اس خوش فہمی میں رہا جاتا ہے کہ کچھ نہ کچھ بھلا ہوکر ہی رہے گا۔ متوازن زندگی بسر کرنے کے مؤثر ترین طریقوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم کسی بھی بڑی‘ نمایاں اور غیر معمولی اثرات مرتب کرنے والی زمینی حقیقت کو نظر انداز نہ کریں۔ جن زمینی حقیقتوں کا ہم سے براہِ راست تعلق ہو اُنہیں نظر انداز کرنے کی صورت میں صرف خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ خواب دیکھتے رہنے کے بجائے بیداری کی حالت میں عمل پسندی کا مظاہرہ کرنا واقعی اور حقیقی نتائج پیدا کرتا ہے۔
ہم میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ سوچنا ہے۔ سوچے بغیر بات نہیں بنتی۔ مگر محض سوچنے سے بھی بات نہیں بنتی۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ اس تقاضے کو نبھانے کے لیے لازم ہے کہ محض سوچنے تک محدود نہ رہا جائے‘ تصورات میں گم نہ رہا جائے بلکہ زمینی حقیقتوں پر متوجہ ہوکر ایسی عمل پسندی اپنائی جائے جو زندگی کو زیادہ سے زیادہ معنویت بخشتی ہو۔ یہ سب کچھ بہت مشکل‘ بلکہ ناممکن دکھائی دیتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ بتدریج آگے بڑھنے کی صورت میں یہ سب کچھ بہت آسان ہو جاتا ہے اور دل و دماغ کو سکون و تقویت بھی بخشتا ہے۔ اگرہمیں زندگی کو بامعنی بنانا ہے تو حقیقت پسندی کو مزاج کا حصہ بنانا ہی پڑے گا۔
ہم میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ سوچنا ہے۔ سوچے بغیر بات نہیں بنتی۔ مگر محض سوچنے سے بھی بات نہیں بنتی۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ اس تقاضے کو نبھانے کیلئے لازم ہے کہ محض سوچنے تک محدود نہ رہا جائے‘ تصورات میں گم نہ رہا جائے بلکہ زمینی حقیقتوں پر متوجہ ہوکر ایسی عمل پسندی اپنائی جائے جو زندگی کو معنویت بخشتی ہو۔