مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے، اور جس طرح دن دہاڑے پوری وادی کو ایک قید خانے میں تبدیل کر دیا گیا ہے، اس کی مثال تاریخ میں شاذ ہی ملے گی۔ دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے کا دعویدار بھارت پوری دُنیا کے سامنے ننگ دھڑنگ کھڑا ہے۔ اس کے معاشرے اور حکمران طبقے کی نہایت گھنائونی تصویریں عالمی رائے عامہ کے سامنے آ رہی ہیں، اور یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا کہ بنی نوع انسان کے سامنے بھارت کا چہرہ اس سے پہلے اتنا گدلا کسی ایشو پر نہیں ہوا تھا۔ کسی بین الاقوامی ادارے یا تنظیم کے کسی وفد کو مقبوضہ علاقے کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں مل رہی، اور تو اور آل انڈیا کانگرس کے رہنما اور قائد حزبِ اختلاف راہول گاندھی کوشش کے باوجود وہاں قدم نہیں رکھ سکے۔ انہیں سری نگر کے ہوائی اڈے سے واپس بھجوا دیا گیا... اس صورتِ حال پر بعض حکومتوں کے اظہاریوں میں تو احتیاط سے کام لیا جا رہا ہے، اور بھارتی حکومت کے ساتھ مختلف النوع مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے الفاظ کا چنائو کیا جا رہا ہے، لیکن دُنیا بھر میں کوئی ایک آواز بھی بھارت کے حق میں بلند نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ اسرائیل نے بھی داد و تحسین کے ڈونگرے نہیں برسائے۔ اِکا دکاّ مسلمان ممالک کا سرکاری رد عمل بھی کشمیری اور پاکستانی عوام کی خواہشات کا ساتھ نہیں دے پا رہا، بے اعتنائی یا لا تعلقی سے دِل دُکھ رہے ہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی ایک ملک (دُنیا کے نقشے پر) ایسا نہیں ہے، جو کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دیتا ہو، اور اٹوٹ انگ کی بھارتی رٹ کو تسلیم کرتا ہو۔ اقوام عالم کا سو فیصد موقف یہ ہے کہ مسئلہ موجود ہے، اس کا حل تلاش کیا جانا چاہئے۔ پاکستان اور بھارت دونوں پر زور دیا جاتا ہے، اور دونوں سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر حل تک پہنچیں گے۔
پورا پاکستان پوری شدت کے ساتھ کشمیر کی آواز بنا ہوا ہے، تمام اختلافات کو پس پشت ڈال کر اس حوالے سے یکجہتی اور یک آوازگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی اپیل پر جمعہ کے روز ''کشمیر آور‘‘ منایا گیا، اور پوری قوم نے آدھ گھنٹہ کھڑے رہ کر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے ''نیو یارک ٹائمز‘‘ میں چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں بھارتی قیادت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے یہ کسی پاکستانی وزیر اعظم کی طرف سے لکھا جانے والا پہلا مضمون ہے، جو ایک بین الاقوامی جریدے میں چھپ کر عالمی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے فلسفے کو بھی اُجاگر کیا اور بتایا کہ اس کی فکری رہنمائی کا فریضہ ادا کرنے والی آر ایس ایس کے بانی نازی ازم سے متاثر تھے، اور جس طرح ہٹلر نے یہودیوں کو ختم کیا، اسی طرح ہندوئوں کے علاوہ دوسری اقوام کو مٹا دینا چاہتے تھے۔ بھارتی قیادت کی عالمی سطح پر یہ بے نقابی شاید ہی پہلے کبھی ہو پائی ہو۔
حکومتِ پاکستان اور مختلف سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں پر لازم ہے کہ وہ اس طرز استدلال کو آگے بڑھائیں، اور آر ایس ایس کے فلسفے سے دُنیا کو اچھی طرح آگاہ کریں۔ وزیر اعظم عمران خان نے توجہ دلائی ہے کہ اگر ہٹلر کی طرح مودی کو بھی ''خوش‘‘ رکھنے یا اس سے بنا کر رکھنے کی پالیسی جاری رہی تو پھر وہی ہو گا جو میونخ میں مذاکرات کے بعد ہوا تھا۔ یاد رہے کہ دوسری جنگِ عظیم سے پہلے برطانوی وزیر اعظم چمبر لین ہٹلر سے معاملہ سازی پر لگے ہوئے تھے، اسی رویئے سے حوصلہ پا کر اس نے چیکو سلواکیہ کا ''ادغام‘‘ کر لیا تھا، اور پولینڈ پر حملہ آور ہوا تھا نتیجتاً، برطانیہ کو جنگ کے میدان میں اترنا پڑا۔ اور چمبر لین سے وزارتِ عظمیٰ سر ونسٹن چرچل کو منتقل ہو گئی۔ دوسری جنگِ عظیم تاریخ کی ایک ہولناک ترین جنگ تھی، جس میں آٹھ سے نو کروڑ افراد مارے گئے تھے، جسے کئی سال لڑا جاتا رہا اور دُنیا کا جغرافیہ (ایک بار پھر) بڑے پیمانے پر تبدیل ہو گیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بجا طور پر خبردار کیا ہے کہ اگر دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی پر توجہ نہ دی گئی، بھارتی نازیوں سے بنا کر رکھنے کی پالیسی جاری رہی تو دُنیا ایک ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچ سکتی ہے، اور جنگِ عظیم سے کہیں زیادہ نقصانات اور صدمات کا بوجھ اسے اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ایٹمی جنگ کوئی آپشن نہیں ہے، اس کا تصور بھی نہیں کیا جانا چاہئے، بلکہ روایتی جنگ کو بھی تنازعات طے کرنے کا ذریعہ نہیں سمجھنا چاہئے، لیکن تاریخ میں نہ چاہنے کے باوجود بہت کچھ ہوا ہے، اور بہت کچھ ہو جاتا رہا ہے، اس لئے اقوام عالم خاموش تماشائی کا کردار ادا کر کے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکیں گی۔ تابکاری اثرات ان کو بھی لپیٹ میں لے کر رہیں گے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان کئی جنگیں لڑی جا چکی ہیں، کسی بھی جنگ نے مسئلہ حل نہیں کیا، نئے مسائل البتہ پیدا کر دیئے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان اگر کشمیر کا تنازعہ نہ ہوتا تو وہ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھ سکتے تھے اور عالمی سیاست میں انتہائی موثر کردار ادا کر سکتے تھے۔ بھارت کو اقوام متحدہ میں ''ویٹو پاور‘‘ کا درجہ حاصل ہو سکتا تھا، لیکن دونوں ممالک کے درمیان الجھائو نے دونوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان سے بنگلہ دیش تو برآمد کر لیا گیا، لیکن بھارت سے بہت کچھ نکلنا اور نکالنا باقی ہے۔ کشمیر کو ہڑپ کرنے کے بجائے اسے اپنے ان علاقوں کی طرف توجہ دینی چاہئے جہاں علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں۔ پاکستان اور کشمیر میں جذبات بہت مشتعل ہیں، لیکن قوموں کے مسائل محض غصّے اور جذبات سے حل نہیں ہوتے۔ اس کے لئے ناخنِ تدبر سے کام لینا پڑتا ہے۔ پاکستان اور بھارت آج ایک دوسرے کو شکست دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں... ان کے اپنے اپنے مفاد کا تقاضہ ہے کہ مسئلے کو ٹالتے چلے جانے کے بجائے اس کے حل پر توجہ مرکوز کی جائے۔ بھارت کو سوچنا چاہئے، ستر سال گزرنے کے بعد وہ کشمیر میں ان سیاسی عناصر کی حمایت سے بھی محروم ہو چکا ہے، جو کبھی اس کے ساتھ محدود الحاق کو ترجیح دیتے تھے۔ اس لیے مزید وقت ضائع کرنے سے کیا فائدہ؟ واجپائی اور نواز شریف کے درمیان... پرویز مشرف اور من موہن سنگھ کے درمیان معاملات آگے بڑھ ہی تو رہے تھے، ٹوٹے ہوئے دھاگوں کے سرے ایک بار پھر جوڑ لیجیے۔گرد آلود فائلوں کو جھاڑیے، اور پرانے سفر کا نیا آغاز کر دیجیے۔ جب یہ بات طے ہے کہ جنگ کسی فریق کو مردِ میدان نہیں بننے دے گی، تو پھر کوئی ایسا منظر تخلیق کریں جس میں سب آگے بڑھتے نظر آئیں۔ کشمیری عوام کے جذبہ خود مختاری کی تسکین ہو سکے۔ پاکستان اور بھارت بھی اپنے آپ کو شکست کے داغ سے محفوظ رکھ سکیں۔ ایسا حل مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ بر صغیر کی تقسیم قیام امن کے لئے عمل میں آئی تھی۔ بٹوارے کو جھگڑے ختم کرنے کا ذریعہ بننا چاہیے تھا۔ قائد اعظمؒ نے دونوں ممالک کے درمیان ''امریکہ اور کینیڈا‘‘ کے تعلقات کی بات کر کے اسی حقیقت کی نشاندہی کی تھی۔ آج بھارت کو خود اپنے انتہا پسندوں سے خطرہ ہے۔ وہ اس کے سیکولر اور جمہوری چہرے پر کوتاہ نظری کا تیزاب چھڑک کر اسے مسخ کر رہے ہیں۔ بھارت کے اندر ہونے والی دھینگا مشتی اسے خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچا رہی ہے۔ اس کے اپنے آئین کو سبوتاز کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش دراصل مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو کے آدرشوں کی چتا جلانے کے مترادف ہے۔ بھارتی سماج، وہاں کی سیکولر اور جمہوری جماعتیں وہاں کی عدلیہ، سب اپنی بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں۔ بھارت کے برسر اقتدار جنونیوں کے ہاتھوں بھارت کی اپنی قبا تار تار ہو رہی ہے۔ اپنا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ اپنی دُنیا اندھیر ہو رہی ہے۔ اپنے آپ پر خود کش حملہ ہو رہا ہے ؎
نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)