حال ہی میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ محترم عثمان بزدار صاحب نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اعلان کیا کہ چونکہ پرائمری سطح پر ذریعۂ تعلیم انگریزی ہونے کی وجہ سے اساتذہ اور بچوں کا سارا وقت مضمون کو سمجھنے کے بجائے ترجمہ کرنے میں صرف ہو جاتا ہے اور بچے کچھ نیا نہیں سیکھ پاتے لہٰذا اگلے تعلیمی سال یعنی مارچ 2020 سے پرائمری سطح پر ذریعۂ تعلیم اردو کر دیا جائے گا۔
یہ اعلان اتنا ہی اچانک تھا جتنا ضیاء الحق کا ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے یہ اعلان کہ سارے انگلش میڈیم سکولوں میں آئندہ سے اردو ذریعۂ تعلیم ہو گا۔ یہ ایک غیر حقیقی فیصلہ تھا جسے کچھ ماہ بعد ہی واپس لینا پڑا تھا۔ ایسا ہی ایک فیصلہ بھٹو صاحب نے کیا جب ایک روز تمام پرائیویٹ اداروں کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا۔ اس کے مضمرات ابھی تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔ اسی نوع کا ایک فیصلہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں کیا گیا جب انگریزی کو پہلی جماعت سے لازمی مضمون قرار دیا گیا۔ یہ فیصلہ اس بات سے قطع نظر کیا گیا تھا کہ آیا طلب کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں انگریزی پڑھانے والے اساتذہ دستیاب ہوں گے یا نہیں۔ اٹھارہویں ترمیم تعلیم کے تالاب میں ایک اور پتھر تھا جس کے نتیجے میں نئے چیلنجز سامنے آئے۔ اس ترمیم کے ذریعے تعلیم کو ایک صوبائی معاملہ قرار دیا گیا۔ شہباز شریف کے دور میں سرکاری سکولوں میں پرائمری سطح پر انگریزی کو ذریعۂ تعلیم بنانے کے اس فیصلے میں غیر ملکی کنسلٹنٹس کی سفارشات شامل تھیں۔ محترم عثمان بزدار کا یہ فیصلہ بھی دور رس نتائج کا حامل ہو گا اس لیے اس کے نفاذ سے پہلے چند نکات پر غور ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو یہ جاننا اہم ہے کہ زبان کی اہمیت کیا ہے؟ زبان ایک طرف باہمی بات چیت کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف انفرادی اور اجتماعی شناخت کی علامت بھی ہے۔ معروف فرانسیسی ماہرِ عمرانیات Bourdeau کا کہنا ہے کہ معاشرے میں طاقت کا تعین کچھ سرمایے (Capitals) کرتے ہیں۔ ان میں معاشی سرمایہ (Economic Capital) سماجی سرمایہ (Social Capital) ثقافتی سرمایہ (Cultural Capital) شامل ہیں۔ کلچرل کیپیٹل کا ایک حصہ لسانی سرمایہ (Linguistic Capital) ہے۔ سرمایوں کی اس بحث سے واضح ہے کہ کسی بھی معاشرے میں زبان سے آگاہی وہ لسانی سرمایہ ہے جس سے طاقت کا تعین ہوتا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کوئی زبان اپنی اصل حالت میں نہ تو اچھی ہوتی ہے نہ بری اور نہ ہی طاقت ور یا کمزور۔ اس زبان کے بولنے والوں کا معاشرتی مرتبہ زبان کو کمزور یا طاقت ور بناتا ہے۔
گلوبلائزیشن کے اس دور میں انگریزی ایک اہم زبان کے طور پر ابھری ہے جس کی بڑی وجہ اچھی ملازمتوں کے حصول میں انگریزی سے آگاہی کی شرط ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی طاقت کے اہم مراکز مثلاً آرمڈ فورسز، جیوڈیشنری اور مقابلے کے امتحان میں انگریزی کا علم بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ ملازمتوں کے علاوہ اعلیٰ سطح کے تعلیم میں انگریزی کا کلیدی کردار ہے کیونکہ کتابوں اور جرائد کی بڑی تعداد انگریزی میں ہے۔
زبان کی ایک تیسری حیثیت سماجی حیثیت سے جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان میں انگریزی چونکہ با ثروت اور با اثر افراد کی زبان ہے لہٰذا اس کی سماجی حیثیت اردو سے برتر تسلیم کی جاتی ہے۔ یوں انگریزی زبان زور آور اور کمزور کے درمیان ایک خط تقسیم بن گئی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج کل ایک اچھے سکول کا معیار وہاں انگریزی زبان کی تدریس اور اس کا انگلش میڈیم ہونا ہے۔ ماضی قریب کی صورتحال ہمیں بتاتی ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر نے بڑی تیزی سے تعلیمی میدان میں پیش رفت کی‘ جس کے نتیجے میں سرکاری سکول لوگوں کی پہلی ترجیح نہیں رہے۔ اس کا مشاہدہ ہم اپنے معاشرے میں آسانی سے کر سکتے ہیں جہاں کم آمدنی والے افراد بھی اپنے بچوں کو انگلش میڈیم سکولوں میں بھیجنا چاہتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ والدین کا بچوں کو تعلیم دلوانا ان کی بہترین سرمایہ کاری (Investment) ہے۔ اس سرمایہ کاری میں انگریزی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ چاہے وہ ملازمت کا مرحلہ ہو، اعلیٰ تعلیم کا یا معاشرے میں سماجی مرتبے کا‘ انگریزی سے آشنائی ضروری ہے۔ یوں انگریزی وہ طبقاتی لکیر ہے جو معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ ایک حصے میں با ثروت اور با اثر لوگ آتے ہیں اور دوسرے حصے میں کم زور۔
اردو ذریعۂ تعلیم کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جاپان اور چین میں بھی تو ترقی قومی زبان کے استعمال سے ہوتی ہے۔ اس بحث میں ایک اہم بات فراموش کر دی جاتی ہے کہ جاپان اور چین نے اپنی اپنی قومی زبان کو با ثروت بنانے کیلئے ترجمے کا مضبوط نظام رائج کیا گیا ہے مثلاً جاپان میں مختلف زبانوں میں چھپنے والی اہم کتابوں کا ترجمہ مختصر ترین وقت میں جاپانی زبان میں ہو جاتا ہے۔ اس میں فکشن اور نان فکشن کتابیں اور مضامین شامل ہیں۔ یوں ان ممالک کی اپنی زبانوں میں لوگوں کو وہ معلومات میسر ہوتی ہیں جو دوسری زبانوں میں موجود ہوتی ہیں۔ یوں صرف جاپانی بولنے والے اور پڑھنے والے بھی دوسری زبانوں کے علم سے محروم نہیں ہوتے۔ کیا ہم نے سرکاری سطح پر اس کی کوشش کی۔ اگر پاکستان کی تعلیمی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو بلند بانگ دعووںکی بہتات نظر آتی ہے۔ اردو کے حوالے سے جذباتی نعرے لگائے گئے لیکن عملی طور پر کارکردگی غیر اطمینان بخش رہی‘ مثلاً 1948 کی قومی کانفرنس اور پھر 1959 کی شریف کمیشن رپورٹ میں اردو کے حوالے سے سفارشات پیش کی گئیں لیکن ان پر عمل نہ ہو سکا۔ شریف کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پندرہ سال کے اندر اردو کو اس کا اصل مقام دلایا جائے گا۔ پھر 1973 کے آئین میں 10 سال کی مدت دی گئی‘ لیکن یہ سب زبانی وعدے تھے۔ ان کو پورا کرنے کے لیے کوئی مربوط طریقۂ کار وضع نہ ہو سکا۔ پاکستان کے تعلیمی منظر نامے میں طبقاتی فرق سب سے بڑا چیلنج ہے۔ سرکاری سکول اور انگلش میڈیم سکول اس طبقاتی فرق کی علامتیں ہیں۔ سرکاری سکولوں میں انگلش میڈیم کے فیصلے کے پیچھے شاید اس فرق کو کم کرنے کی سوچ کارفرما تھی؛ اگرچہ اس میں اساتذہ کی عدم دستیابی سب سے بڑا مسئلہ تھا‘ لیکن کم از کم کتابیں انگریزی میں تھیں۔ اہم بات یہ ہے کہ محترم عثمان بزدار صاحب کے اس فیصلے کا اطلاق صرف سرکاری سکولوں پر ہو گا اور پرائیویٹ سکول انگریزی ذریعۂ تعلیم کو جاری رکھ سکیں گے۔ یوں سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں کے درمیان طبقاتی فرق اور زیادہ ہو جائے گا‘ جس کا نقصان سرکاری سکول کے بچوں کو ہو گا۔ اس اعلان میں ایک سروے کا ذکر بھی کیا گیا ہے جس میں 85 فیصد طلبائ، اساتذہ اور والدین نے اردو میڈیم کے حق میں فیصلہ دیا۔ کاش ایک سروے یہ بھی ہوتا کہ پالیسی ساز عہدے داروں کے اپنے بچے کن سکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ کیا ان سکولوں میں ذریعۂ تعلیم اردو ہے۔
اس فیصلے کے عملی نفاذ سے پہلے چند نکات غور طلب ہیں:
-1 اس فیصلے تک پہنچنے کے لیے مناسب ہوم ورک کیا گیا یا نہیں؟
-2 کیا یہ فیصلہ‘ جس میں سرکاری سکولوں کے بچوں کیلئے اردو اور پرائیویٹ سکول کے بچوں کیلئے انگریزی ذریعۂ تعلیم ہے‘ معاشرے میں طبقاتی فرق کو اور زیادہ گہرا نہیں کرے گا؟
-3 کیا پرائمری سکول تک اردو میں کتابیں پڑھنے والے بچے مڈل کلاس میں اچانک انگریزی کتابوں کو پڑھنے کیلئے تیار ہوں گے؟
-4 کیا اردو زبان میں ترجمے کی روایت چینی یا جاپانی روایات کا مقابلہ کر سکتی ہے؟
-5 کیا ملٹی نیشنل ملازمتوں، اور اعلیٰ سطح پر مقابلے کے امتحان کی تیاری میں انگریزی زبان کی مضبوط بنیاد ایک فیصلہ کن فیکٹر نہیں ہو گا؟
-6 کیا اعلیٰ تعلیم کیلئے انگریزی میڈیم کی بنیاد والے بچوں کو اردو میڈیم کے بچوں پر فوقیت نہیں ہو گی؟
-7 کیا ماضی میں عجلت میں کئے گئے فیصلے بعد میں واپس نہیں لینے پڑے؟
-8 کیا حکام بالا اس پالیسی کے نفاذ کے بعد اپنے بچوںکو اردو میڈیم سکولوں میں بھیجیں گے؟
یہ وہ نکات ہیں جن پر غور تعلیم میں تبدیلی کے حوالے سے ایک صائب فیصلے پر پہنچنے میں مدد دے گی۔