تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     01-09-2019

نیا ہٹلر

نریندر مودی کو ہٹلر اور اس کی فکری جنم بھومی راشٹریہ سیوک سنگھ کو نازی جرمنی سے تشبیہ دینے کے الفاظ جیسے ہی وزیر اعظم عمران خان کی زبان سے ادا ہوئے تو لمحوں میں یہ سلوگن کشمیر کے مظلوم اور محکوم مسلمانوںکی آواز اور بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف احتجاج کرنے والے دنیا کے ہر انسان دوست کا نعرہ بن گئے ۔ دنیا کے ہر قابل ذکر ملک میں کشمیریوں کے حق میں کیے جانے والے احتجاجی مظاہروں کا سب سے پسندیدہ پوسٹر وہ ہوتا ہے جس میں مودی کے چہرے کو ہٹلر کی شکل میں پینٹ کیا جاتا ہے۔ یہ پوسٹر دنیا کے کئی شہروں کی سڑکوں پر نصب کیا گیا۔ میری تجویز یہ ہے کہ پاکستان کی اطلاعات اور آئی ٹی کی وزارتوں کو مقبوضہ کشمیر میں مودی کے نازی جرمنی جیسے مظالم کی ویڈیوز تیار کر کے دنیا بھر میں پھیلانا چاہیے تاکہ مودی کا بھیانک چہرہ پوری دنیا پر آشکار ہو سکے۔ عالمی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق عمران خان کی جانب سے نریندر مودی کو ہٹلر اور اس کی تنظیم کو نازی جرمنی کا خطاب دینے سے پریشانی اور تکلیف تو مودی کو ہو رہی تھی لیکن کچھ لوگ نہ جانے کیوں عمران خان پر جوابی وار کر رہے تھے۔ اب ایسا کرنے والوں کو کون بتائے کہ مودی کو نازی اور ہٹلر کا خطاب صرف وزیر اعظم عمران خان ہی نے نہیں دیا بلکہ آج سے سات برس پہلے 19 دسمبر 2012ء کو نئی دہلی میں اس وقت کی حکمران کانگریس جماعت کے 83ویں مجلس عاملہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس کے سیکرٹری جنرل ڈگ وجے سنگھ نے بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔ وجے سنگھ نے کہا تھا کہ ہندوستان میں انتہا پسند جماعتوں کی سرپرست آر ایس ایس جرمنی کے نازیوں کی طرح مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ یہ انتہا پسند تنظیم مسلمانوں اور عیسائیوں سمیت تمام اقلیتوں کے ساتھ وہی سلوک کر رہی ہے جو نازیوں نے دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے ساتھ کیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کا ہولوکاسٹ تو امریکہ اور یورپی یونین کو ابھی تک یاد ہے‘ لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر‘ میرٹھ اور گجرات میں مسلمانوں کا ہولوکاسٹ کسی کو نظر نہیں آتا۔ یہ شاید کسی کو یاد نہیں کہ اسی مودی نے بھارتی گجرات میں مسلمانوں کے خون سے اسی طرح ہولی کھیلی تھی‘ جس طرح یہ اب مقبوضہ کشمیر میں کھیلنے میں مصروف ہے۔ جس طرح مودی کے گزشتہ اور موجودہ دور حکومت میں موب لنچنگ (مشتعل ہجوم کی جانب سے نہتے مسلمانوں پر حملے اور ان کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں) کو بڑھاوا ملا‘ یہ تو ابھی کل کی بات ہے۔ مودی کی سرپرستی میں بھارت کی سرزمین کو اقلیتوں کے لیے جہنم بنا دیا گیا ہے۔
اب مقبوضہ کشمیر مودی کے غضب کا شکار ہے‘ جس کے خلاف بھرپور آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ نئی دہلی میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف بھارت کی کمیونسٹ پارٹی کے مظاہرے میں شریک انسانی حقوق کی علم بردار اور سیکولر تنظیموں کے رہنمائوں نے اپنی تقاریر میں انکشاف کیا ہے کہ بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت اور بھارت کی دہشت گرد تنظیم ''را‘‘ کی وہ مشترکہ سازش بے نقاب ہو چکی ہے‘ جس میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بھارت کی پولیس اور دوسرے سکیورٹی اداروں میں آر ایس ایس کے لوگوں کو بھرتی کر کے کشمیر بھیجا جا رہا ہے‘ جہاں پانچ اگست سے مسلسل کرفیو کا جبر طاری ہے‘ اور جس کے سائے میں وقت کے ہٹلر کی بربریت اور سفاکیت کشمیر کے مسلمانوں کے جذبۂ ایمانی کا امتحان لے رہی ہے۔ فوجی کرفیو کی سیاہ رات کو ستائیس سے زائد دن گزر چکے ہیں لیکن مودی کی وحشت کم نہیں ہوئی۔ جیسے ہی وادیٔ کشمیر میں رات کی تاریکی اپنا سیاہ دامن پھیلاتی ہے‘ بھارت کے فوجی کیمپوں کے قید خانوں سے کشمیر کے مظلوم بیٹوں اور بیٹیوں کی چیخوں کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ شرمناک اور سفاکانہ تشدد کی تکلیف سے چیختی ہوئی ان بچیوں کی آواز شاید کسی کو سنائی نہیں دے رہی۔ اگلی صبح بھارتی درندوں کی زیادتی کا نشانہ بننے والی ان بیٹیوں کی لاشیں دریائے نیلم میں بہتی نظر آتی ہیں۔ یہ لاشیں دیکھنے والوں کے لیے بہت سے سوالات چھوڑ جاتی ہیں۔ وہ نہیں جانتیں کہ جن کو ان سوالات کے جواب دینے ہیں‘ ان میں سے کچھ تو کترینہ کیف اور دپیکا پڈکون کے سحر میں گم ہیں تو کچھ نے اجیت ڈوول اور را کے خزانوں سے کشمیر کی ان بیٹیوں اور امت مسلمہ کی حفاظت کیلئے کھڑے خاکی وردی پہنے مجاہدوںکو خود کش دھماکوں اور بم حملوں سے شہید کرنا شروع کر رکھا ہے۔ 
اندرا گاندھی کی اولاد ہو یا مودی‘ مقبوضہ کشمیر کے بیٹوں اور بیٹیوں کا قتل عام دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ وہ اندرا گاندھی کے زمانے میں بھی بے بس تھے اور آج مودی کے دور میں بھی کشمیر کی معصوم بیٹیاں کرفیو کی سیاہ راتوں میں گھروں کے اندر خوفزدہ رہتی ہیں۔ ان کا قصور صرف یہ ہے کہ ان کے پانچ سے دس سال عمر کے بھائی اور بچے آزادی کیلئے گلیوں اور سڑکوں پر کھڑے بھارتی فوجیوں کو پتھر مارتے ہیں۔ ان بہنوں کے معصوم بچے بھارتی فوج کی بکتر بند گاڑیوںکے سامنے مٹی کے ڈھیلے لے کر کھڑے ہوتے ہیں۔ آج حالت یہ ہو چکی ہے کہ بھارتی فوجی گھروں میں جا کر وارننگ دے رہے ہیں کہ اگر تم میں سے کسی کا بچہ‘ شوہر یا لڑکا جلسوں میں شامل دیکھا گیا تو اس کی ماں اور بہن کو گرفتار کر لیا جائے گا لیکن کشمیری مائیں اس کے باوجود اپنے بیٹوں اور کشمیری بہنیں اپنے بھائیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں کہ وہ باہر نکل کر غنیم کا سامنا کریں اور اس پر یہ ثابت کریں کہ وہ آزادی سے کم پر کبھی راضی نہیں ہوں گے۔ یہ کشمیری قوم کی خوش قسمتی ہے کہ کہ اس کی مائیں بہنیں اپنے بچوں اور بھائیوں کو خوشی خوشی اﷲ کی راہ میں قربانی کیلئے پیش کر رہی ہیں۔
امریکہ اور مغربی میڈیا سمیت ان کا پورا معاشرہ نہ جانے کس مرض کا شکار ہے کہ انہیں مجاہدین تو نظر آ جاتے ہیں لیکن ہندوستان بھر میں راشٹریہ سیوک سنگھ کے وہ تربیتی کیمپ نظر نہیں آتے جہاں سفید قمیض اور خاکی نیکر پہنے ہزاروں انتہا پسند ہندو نوجوانوں کو دہشت گردی کی تربیت دی جا رہی ہے اور انہیں اقلیتوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے اکسایا جا رہا ہے۔ انہیں بکتر بند فوجی گاڑیوں پر محض پتھر برساتے کشمیری بچے اور نوجوان تو نظر آ جاتے ہیں‘ لیکن ان فوجیوں کی وہ پیلٹ گنیں نظر نہیں آتیں جو ان نوجوانوں کو زخمی اور نابینا بنا رہی ہیں۔ انہیں کشمیری حریت پسندوں کی کارروائیاں تو نظر آ جاتی ہیں‘ لیکن بھارتی فوج کے وہ مظالم نظر نہیں آتے جو وہ ستر برسوں سے کشمیریوں کے خلاف روا رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں تو مقبوضہ کشمیر میں کم و بیش ایک ماہ سے مسلسل جاری کرفیو کی وجہ سے پیدا ہونے والے سنگین حالات بھی نظر نہیں آتے‘ ورنہ کہیں سے تو کوئی آواز بلند ہوتی کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کا معاملہ تو بعد میں دیکھ لیں گے‘ پہلے مقبوضہ علاقوں سے کرفیو تو ختم کرو‘ کشمیریوں کے انسانی حقوق تو بحال کرو۔ اخبارات میں شائع ہونے والی راشٹریہ سیوک سنگھ کے کیمپوں کی تصاویر صاف بتا رہی ہیں کہ فوجی تربیت پانے والے راشٹریہ سیوک سنگھ کے ان انتہا پسندوں اور بھارت کی نئی ہندو نسل کو یہ بتایا اور سکھایا جا رہا ہے کہ مسلمان تمہارے دشمن ہیں‘ ان کو ہندو بنائو یا کاٹ کر پھینک دو۔ ان سارے حقائق کو جان کر ہی وزیر اعظم عمران خان بے ساختہ پکار اٹھے ہیں کہ نریندر مودی آج کا نیا ہٹلر اور آر ایس ایس بھارت کی نئی نازی فاشسٹ جماعت ہے۔ جناب وزیر اعظم نے جو کچھ کہا ہے‘ اس میں غلط کیا ہے؟ دنیا نے ایسی درندگی کہیں دیکھی ہے‘ جیسی اس وقت مقبوضہ کشمیر میں جاری ہے اور جیسی ماضی میں بھارتی گجرات میں دیکھی گئی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved