تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     01-09-2019

سرخیاں‘متن‘ ٹوٹا اور ابرارؔ احمد کی نظم

صفائی کے نام پر عوامی پیسے کے ضیاع کی اجازت نہیں: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''صفائی کے نام پر عوامی پیسے کے ضیاع کی اجازت نہیں‘‘ اوّل تو عوامی پیسے کے ضیاع کی ہم سے کوئی اجازت طلب ہی نہیں کرتا اور جن لوگوں نے اس کے ضیاع کی اجازت کیلئے درخواستیں دے رکھی ہیں‘ ہمارے پاس ان کو اجازت دینے کا وقت ہی نہیں‘ کیونکہ ہم یہ کام خود ہی بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ کر رہے ہیں‘ مثلاً: وزیراعظم نے ارکان ِکابینہ اور اسمبلی کی تنخواہیں بڑھانے سے منع کیا تھا‘ لیکن میں نے وہ کام بھی کر کے دکھا دیا ‘کیونکہ خود ان کے وزراء مشیروں اور پارلیمانی سیکریٹریوں کی تعدادقریباً سو تک پہنچ چکی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
کشمیریوں کی آزادی کی جنگ خود لڑنا پڑے گی: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''کشمیریوں کی آزادی کی جنگ خود لڑنا پڑے گی‘‘ اور مجھ سے وہ اس کی امید ہرگز نہ رکھیں‘ کیونکہ میں اپنے حصے کی جنگ کشمیر کمیٹی کی چیئر مین شپ کے دوران پہلے ہی لڑ چکا ہوں اور لاک ڈائون کرنے اور حکومت گرانے کا کارِ خیر میں بُری طرح مصروف ہوں؛ اگرچہ اس میں اچھی طرح بھی مصروف ہوا جا سکتا تھا‘ لیکن یہ حکومت ہے ہی ایسی کہ اس کیخلاف کوئی بھی کام اچھے طریقے سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے مصروفیات کے پیش نظر مجھ سے یہ توقع نہ رکھی جائے کہ میں کشمیریوں کی جنگ بھی لڑتا پھروں گا؛ حالانکہ میں یہ کام زیادہ خوش اسلوبی کے ساتھ کر سکتا ہوں‘ کیونکہ بھوکا بٹیر زیادہ لڑتا ہے اور اب تو جب سے دونوں بڑی پارٹیوں نے آنکھیں پھیری ہیں‘ مجھے بھوکا رہنے کی گویا عادت بھی پڑ گئی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک جگہ خطاب کر رہے تھے۔
وزیراعظم گھبرائیں نہیں‘ ہم ان کے ساتھ ہیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم گھبرائیں نہیں‘ ہم ان کے ساتھ ہیں‘‘ اور یہ بات سنتے ہی اُن کی ساری گھبراہٹ دور ہو گئی اور کہہ رہے تھے کہ اگر یہ بات آپ پہلے کہہ دیتے تو کس قدر اچھا ہوتااور اب آپ سے درخواست ہے کہ میری حوصلہ افزائی اسی طرح کرتے رہیں‘ ورنہ یہ نہ ہو کہ میں پھر گھبرانا شروع کر دوں‘ کم از کم جب تک مولانا فضل الرحمن لاک ڈائون والا ڈراما نہیں کر لیتے‘ اس وقت تک تو مجھے اس گھبراہٹ سے نجات حاصل رہے اور بڑے افسوس کی بات ہے کہ آپ کے پاس گھبراہٹ دور کرنے کا یہ نسخۂ کیمیا موجود تھا‘ لیکن مجھ پر اسے استعمال کرنے میں اتنی دیر کر دی‘ جس پر میں نے کہا کہ مجھے آپ پر واقعی ترس آنے لگا تھا اور میں آپ کو یہ پیشکش کرنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ ویسے بھی قوم کو مجھ سے کافی توقعات باندھ رکھی ہیں۔ آپ اگلے روز کشمیر کے حق میں مظاہرے کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ایک درخواست
جناب وفاقی وزیر فواد چوہدری نے گزشتہ روز غالبؔ کا ایک شعر ؎
جب توقع ہی اُٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
اس طرح ادا کیا ہے ع
توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ کیا کسی سے گلہ کریں
ظاہر ہے کہ تقریر اور گفتگومیں زیادہ اختصار سے کام لینا چاہیے‘ اس لیے انہوں نے غالبؔ کے شعر کو خلاصے کی شکل میں ادا کیا‘ بلکہ ایک طرح سے اصلاح بھی کی ہے کہ غالبؔ کو شعر اس طرح کہنا چاہیے تھا‘ اسی طرح اگر وہ پورے دیوانِ غالبؔ ہی کا خلاصہ کر دیں تو قوم کا بہت سا قیمتی وقت بچ جائے گا اور ہمارے شاعروں کو بھی سبق‘ بلکہ عبرت حاصل ہو جائے گی کہ زیادہ واویلا کرنے کی بجائے اپنا مافی الضمیر شعر میں بیان کرتے ہوئے کم سے کم الفاظ استعمال کیے جائیں؛ اگرچہ وہ بہت مصروف رہتے ہیں‘ کیونکہ بعض دوسری وزارتوں کا کام بھی انہی کو کرنا پڑتا ہے۔ امید ہے کہ ہماری درخواست کو ضرور پذیرائی حاصل ہوگی۔پیشگی شکریہ!
اور ‘ اب ابرار احمد کی یہ نظم:
روشنی میرے اندر ہے
عجب خواب تھا/ جو تری نرم آنکھوں سے بہتا چلا جا رہا تھا/ کہیں نیند کے ایک جھونکے کی صورت بہت نیلا پانی تھا/ پانی ... جسے میں نے سوچا بہت تھا/ زمیں پر‘ مگر پہلے دیکھا نہیں تھا/ وہاں چار سُو غیر آبادیاں تھیں/ قدامت کے آثار تھے/ ریت پر پائوں دھنستے گئے تھے/ وہیں پر پڑے ہیں!/ وہ مہکار تھی/ جیسے شالاطؔ اطراف میں بال کھولے ہوئے پھر رہی ہو/ وہی خواب تھا/ جس نے امجدؔ کو اپنی پکڑ میں لیا/ وہ مٹّی میں مٹّی یہ کب جانتا تھا/ ہوا کا کوئی بھی ٹھکانہ نہیں ہے/ وہ اگلے دیاروں کو مہکانے کب کی نکل بھی چکی تھی/ وہ ہر رات لکھنے کو خط سوچتا/ اجنبی بے نشاں منزلوں کی طرف پھینک دیتا/ وہ لفظوں کے پیکر بناتے ہوئے/ روز جیتا رہا‘ روز مرتا رہا/ وہ بھاگا‘ اندھیرے کے پیچھے/ زمیں آسماں کے کناروں تلک‘ تیز سائیکل چلائی/ اور آخر کو لوٹا کہ دندانے سُوکھے پڑے تھے/ وہ جیمی ؔہو ‘کوئی کہ شالاطؔ ہو/ واقعہ ہو کہ ہو خواب کوئی/ اسے دیکھتی ہیں ‘جو آنکھیں/ وہی جانتی ہیں/ وہی دل سمجھتاہے ‘اس بھید کو/ اس کے اسرار کو عُمر بھر جھیلتا ہے
مگر غیر ممکن سا ‘یہ خواب میرا/ ہے میرے زمانے کا پر تو/ کسی مختلف وقت کے دائرے میں رکا یہ شبستاں/ مرے گرد پھیلا ہوا ہے/ اِدھر سے اُدھر سر کو ٹکڑا رہا ہوں/ میں بکھری ہوئی نیند میں/ بہت دُور تک بے اماں تیرگی ہے/ مگر یوں بھی ہے/ میں اسی میں چمکتا ہُوا راستہ دیکھتا ہوں/ سو‘ ٹھہرا رہوں گا نواحِ محبت میں/ اور میں ترے خواب کو طاق میں رکھ کے دیکھا کروں گا/ اسے اپنی وحشت سے ڈھانپے رہوں گا/ کہ جینا غضب ہے/ اسی رنگِ شب میں اگر روشنی ہے/ تو وہ میرے اندر ہے/ باہر نہیں ہے!
آج کا مطلع
ایسی کوئی در پیش ہوَا آئی ہمارے
جو ساتھ ہی پتّے بھی اُڑا لائی ہمارے

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved