محرم الحرام ان چار مہینوں میں سے ایک ہے ‘جن کواللہ تبارک وتعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دیا ۔ محرم الحرام کی پہلی تاریخ کو خلیفہ دُوم سیدنا عمر فاروقؓ کی شہادت ہوئی‘ جبکہ اس کی 10 تاریخ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے ظلم سے نجات حاصل ہوئی اوراسی تاریخ کو سیدنا حسین ؓ نے جام شہادت کو نوش کیا۔ حضرت عمر فاروقؓ ان 10عظیم شخصیات میں شامل ہیں ‘جن کو رسول اللہ ﷺنے ایک ہی نشست میں جنت کی بشارت دی۔ حضرت عمر فاروق ؓکی رفعت کا عالم یہ ہے کہ خود رسول اللہ ﷺنے معراج کی را ت اور خواب میں آپؓ کے محل کو جنت میں دیکھا۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺکے پاس بیٹھے ہوئے تھے‘ تو آپﷺنے فرمایا کہ میں نے خواب میں جنت دیکھی‘ میں نے اس میں ایک عورت کو دیکھا ‘جو ایک محل کے کنارے وضو کر رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ یہ عمر بن خطاب ؓکا محل ہے۔ مجھے ان کی غیرت یاد آئی اور میں وہاں سے فوراً لوٹ آیا۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ رو دئیے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ! کیا میں آپﷺ کے ساتھ بھی غیرت کروں گا؟
رسول اللہ ﷺجن صحابہ کرام ؓسے خصوصی شفقت فرماتے تھے‘ ان میں حضرت عمر فاروق ؓ بھی شامل تھے۔ صحیح بخاری میں حضرت عمر بن العاص سے روایت ہے: نبی کریم ﷺنے انہیں غزوہ ذات السلاسل کیلئے بھیجا ( عمرو رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ) پھر میں آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے پوچھا کہ آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟ آپﷺنے فرمایا کہ عائشہ سے میں نے پوچھا‘ اور مردوں میں؟ فرمایا کہ اُن کے باپ سے۔ میں نے پوچھا‘:اس کے بعد؟ فرمایا کہ عمر بن خطاب ؓسے۔
اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن ہشام ؓسے روایت ہے کہ ہم ایک مرتبہ نبی کریم ﷺکے ساتھ تھے۔ آپ اس وقت حضرت عمر بن خطاب ؓکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے تھے۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی شان وعظمت سے نوازا ‘لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت میں بھی خلفائے راشدین کو خصوصی مقام حاصل تھا۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺکے زمانہ ہی میں جب ہمیں صحابہ کے درمیان انتخاب کے لیے کہا جاتا تو سب میں افضل اور بہتر ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قرار دیتے‘ پھر عمر بن خطاب ؓکو پھر عثمان بن عفان ؓکو۔
حضرت عمر فاروقؓ ہمہ وقت اتباع رسول ﷺکے جذبات سے سرشار رہا کرتے تھے اور نبی کریم ﷺ کی پیروی کو اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے ۔صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ عمر بن خطاب ؓنے حجر اسود کو خطاب کر کے فرمایا ''بخدا مجھے خوب معلوم ہے کہ تو صرف ایک پتھر ہے‘ جو نہ کوئی نفع پہنچا سکتا ہے ‘نہ نقصان اور اگر میں نے رسول اللہ ﷺکو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی بوسہ نہ دیتا‘‘۔ اس کے بعد آپ نے بوسہ دیا۔ پھر فرمایا ''اور اب ہمیں رمل کی بھی کیا ضرورت ہے۔ ہم نے اس کے ذریعہ مشرکوں کو اپنی قوت دکھائی تھی تو اللہ نے ان کو تباہ کر دیا۔" پھر فرمایا "جو عمل رسول اللہﷺنے کیا ہے اسے اب ہم چھوڑنا بھی پسند نہیں کرتے۔‘‘
حضرت عمر فاروق میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے للہیت اور ایثار کے عظیم اوصاف کو ودیعت فرما دیا تھا‘ وہ اپنے بہترین مال کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کیلئے آمادہ وتیار رہتے تھے۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ عمر بن خطاب ؓ کو خیبر میں ایک قطعہ زمین ملی تو آپ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں مشورہ کیلئے حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے خیبر میں ایک زمین کا ٹکڑا ملا ہے اس سے بہتر مال مجھے اب تک کبھی نہیں ملا تھا ‘ آپ اس کے متعلق کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ اگر جی چاہے تو اصل زمین اپنے ملکیت میں باقی رکھ اور پیداوار صدقہ کر دے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو اس شرط کے ساتھ صدقہ کر دیا کہ نہ اسے بیچا جائے گا‘ نہ اس کا ہبہ کیا جائے گا اور نہ اس میں وراثت چلے گی۔ اسے آپ نے محتاجوں ‘ رشتہ داروں‘غلام آزاد کرانے ‘ اللہ کے دین کی تبلیغ اور اشاعت اور مہمانوں کیلئے صدقہ ( وقف ) کر دیا اور یہ کہ اس کا متولی اگر دستور کے مطابق ‘اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق‘ وصول کر لے یا کسی محتاج کو دے تو اس پر کوئی الزام نہیں۔
حضرت عمر ؓنبی کریم ﷺکی ہمراہی میں جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی خدمت میں پیش پیش رہے ‘وہاں پر نبی کریم ﷺاور سیدنا صدیق اکبر کے بعد آپؓ نے اللہ کے دین کی خوب خدمت فرمائی اور اس حوالے سے نبی کریم ﷺکے خواب کی تعبیر کو پورا کر دکھلایا۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپﷺنے فرمایا کہ میں سو رہا تھا کہ خواب میں میں نے اپنے آپ کو ایک کنویں پر دیکھا‘ جس پر ڈول تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جتنا چاہا میں نے اس ڈول سے پانی کھینچا‘ پھر اسے ابن ابی قحافہ ( ابوبکر رضی اللہ عنہ ) نے لے لیا اور انہوں نے ایک یا دو ڈول کھینچے‘ ان کے کھینچنے میں کچھ کمزوری سی معلوم ہوئی اللہ ان کی اس کمزوری کو معاف فرمائے‘ پھر اس ڈول نے ایک بہت بڑے ڈول کی صورت اختیار کر لی اور اسے عمر بن خطاب ( رضی اللہ عنہ ) نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ میں نے ایسا شہ زور پہلوان آدمی نہیں دیکھا ‘جو عمر (رضی اللہ عنہ ) کی طرح ڈول کھینچ سکتا۔ انہوں نے اتنا پانی نکالا کہ لوگوں نے اپنے اونٹوں کو حوض سے سیراب کر لیا۔
آپ ؓنے اپنے زمانہ خلافت میں جہاں پر اللہ تعالیٰ کے حقوق کی پاسداری کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا‘ وہیں پر رعایاکے لیے انصاف کی فراہمی کو بھی یقینی بنائے رکھا۔ اور ہر موقع پر مظلوم کی حمایت کرتے رہے‘ آپؓ نے اپنے مقرر کردہ حکام کو بھی ظلم سے بچنے کا حکم دیا؛ چنانچہ صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ہنی نامی اپنے ایک غلام کو ( سرکاری ) چراگاہ کا حاکم بنایا ‘ تو انہیں یہ ہدایت کی ‘ اے ہنی! مسلمانوں سے اپنے ہاتھ روکے رکھنا ( ان پر ظلم نہ کرنا ) اور مظلوم کی بددعا سے ہر وقت بچتے رہنا ‘ کیونکہ مظلوم کی دعا قبول ہوتی ہے۔
حضرت عمر فاروق ؓکے زمانہ خلافت تک اسلامی سلطنت ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رہی اور آپ ؓفتنوں کے سامنے سینہ سپر رہے‘ لیکن آپ کی شہادت کے بعد امت مسلمہ کو بہت سے فتنوں کا سامنا کرنا پڑا۔ صحیح بخاری میں حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطابؓؓ نے ان سے اس فتنے کے بارے میں پوچھا ‘جو سمندرکی طرح (ٹھاٹھیں مارتا )ہو گا۔ انہوں نے کہا اس فتنہ کا آپ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان بند دروازہ ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا وہ دروازہ کھولا جائے گا یا توڑا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں‘ بلکہ توڑ دیا جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کہ پھر تو بند نہ ہو سکے گا۔ حضرت مسروق نے حضرت حذیفہ سے پوچھا کہ وہ دروازہ کون ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ وہ خود عمر رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ کو مدینہ طیبہ سے بہت زیادہ محبت تھی اور آپ دنیا سے بحیثیت ِشہید رخصت ہونا چاہتے تھے ؛ چنانچہ آپ ‘اللہ تبارک وتعالیٰ سے نبی کریم ﷺکے شہر مبارک میں شہادت کی دعا مانگتے رہے۔ جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قبول فرما لیا اور آپ مدینہ طیبہ میں جام شہادت کو نوش کرنے کے بعد قیامت کی دیواروں تک رسول ﷺاور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ کے ہمراہ محو خواب ہو گئے۔
آپ کی شہادت پر جمیع صحابہ کرام کو بہت زیادہ دھچکا پہنچا ۔صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس ؓسے روایت ہے کہ میں ان لوگوں کے ساتھ کھڑا تھا‘ جو عمر بن خطاب ؓکے لیے دعائیں کر رہے تھے‘ اس وقت ان کا جنازہ چارپائی پر رکھا ہوا تھا‘ اتنے میں ایک صاحب نے میرے پیچھے سے آ کر میرے شانوں پر اپنی کہنیاں رکھ دیں اور ( عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے ) کہنے لگے: اللہ آپ پر رحم کرے۔ مجھے تو یہی امید تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں ( رسول کریم ﷺاور ابوبکر رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ ( دفن ) کرائے گا‘ میں اکثر رسول اللہ ﷺکو یوں فرماتے سنا کرتا تھا کہ ''میں اور ابوبکر اور عمر تھے‘‘‘ ''میں نے اور ابوبکر اور عمر نے یہ کام کیا ‘‘''میں اور ابوبکر اور عمر گئے‘‘ اس لیے مجھے یہی امید تھی کہ اللہ‘ آپ کو ان ہی دونوں بزرگوں کے ساتھ رکھے گا۔ میں نے جو مڑ کر دیکھا تو وہ علی ؓ تھے۔
حضرت عمر فاروق ؓکو جس طرح صحابہ کرام میں قبولیت حاصل رہی ‘ اسی طرح صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی آپ ؓ کی ذات سے محبت آج بھی ہر مسلمان کے دل میں زندہ وتابندہ ہے اور جب بھی کبھی عدل ‘انصاف ‘ انتظام اور کامیاب حکومت کرنے والے کسی حکمران کی مثال دی جاتی ہے‘ توحضرت عمر فاروق ؓکا نام نامی سرفہرست آ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت عمر فاروق کی شخصیت اور سیرت سے رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین )