تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     02-09-2019

خوشی کے شادیانے یا ماتم

ہم لوگ من حیث القوم جذباتی واقع ہوئے ہیں۔ ذرا سی اچھی خبر مل جائے تو خوشی کے شادیانے بجانے لگتے ہیں۔ مثلاً وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کے دوران صدر ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی بات کیا کی کہ یار لوگ خوشی سے بغلیں بجانے لگے اور پچھلے ہفتے نریندر مودی کو ابو ظہبی اور بحرین میں سرکاری اعزازات ملے تو ہمارے ہاں صف ماتم بچھ گئی۔ جذباتی قسم کے لطیفے بنے کہ ڈرائیوری ہم کرتے رہے اور ایوارڈ مودی لے اڑا۔ کسی نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ خلیجی حکمران اگر پاکستانی لیڈروں کو چوائس دیں کہ وہ اعلیٰ ایوارڈ یا اقامہ میں سے ایک چیز کا انتخاب کریں تو وہ مؤخرالذکر کو ترجیح دیں گے۔ بقول پروین شاکر ''بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔‘‘
اگلے روز غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ ٹو پی میں دوران تقریر وزیراعظم عمران خان کہہ رہے تھے کہ میں میچ ہار کر گھنٹوں سوچا کرتا تھا کہ مجھ سے غلطیاں کہاں کہاں ہوئیں۔ یہ ہے وہ روّیہ جو بطور قوم ہمیں اپنانا چاہئے۔ یعنی کسی بھی سیٹ بیک کے بعد ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ غلطی کہاں ہوئی اور پھر اس بات کا بھی تہیہ کریں کہ آئندہ یہ غلطی نہیں ہوگی۔ مگر ہم ہیں کہ ستر سال سے ڈنگ ٹپائو پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔ بار بار وہی غلطیاں کرتے ہیں۔ خود احتسابی، ٹھنڈے دل سے غلطیوں پر غور اور ریسرچ کی عادات سرے سے غائب ہیں۔
خلیجی ممالک سے ہمارے روابط کی تاریخ طویل ہے۔ سب سے زیادہ با ثمر تعاون دفاعی میدان میں رہا۔ ہماری نیوی اور ایئر فورس کو وہاں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آج سے پندرہ سال پہلے مجھے عمانی ائیر چیف نے کہا تھا کہ پورے خطّے میں پاکستانی اور اسرائیلی فضائیہ لاجواب ہیں اور پھر میں نے انہیں اُس پاکستانی پائلٹ کا نام بتایا جس نے 1974ء میں شامی فضائی حدود میں اسرائیلی طیارہ مار گرایا تھا۔ عسکری تعاون کے علاوہ ہماری لیبر فورس نے خلیجی ملکوں کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 
ہمارے میڈیا میں چند صاحب الرائے لوگوں کا کہنا تھا کہ خلیجی ممالک ہمارے اپریل 2015ء والے فیصلے سے نالاں تھے۔ اگر ہم یمن کے حوالے سے افواج بھیج دیتے تو شاید نریندر مودی کو عرب اعزازات نہ ملتے۔ چند ایک کا کہنا ہے کہ ہمیں سعودی عرب 2015ء میں یک جہتی کے اظہار کے لیے فوجی دستے بھیج دینا چاہئے تھے۔ مجھے اس رائے سے اختلاف ہے۔ ہماری شروع سے پالیسی رہی ہے کہ ہم عربوں کی آپس کی لڑائیوں کا حصہ نہیں بنیں گے‘ بلکہ ہو سکے تو سفارتی راستوں سے اختلافات کو کم کرانے کی کوشش کریں گے۔ اور اب تو یو اے ای بھی یمن سے فوجیں واپس بلا رہا ہے۔ عرب امارات کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ یمن کے مسئلے کا سیاسی حل ہی ممکن ہے۔ یہی بات ہماری پارلیمان نے 2015ء کی قرارداد میں کہی تھی۔ 
ہاں البتہ جس انداز سے ہماری پارلیمنٹ میں بحث مباحثہ ہوا تھا وہ عرب بھائیوں کے لیے پریشان کن ضرور تھا۔ خلیجی ممالک میں پارلیمانی ڈیموکریسی نہیں ہے۔ چند ممالک میں نامزد یا منتخب شدہ پارلیمان ضرور ہے مگر وہاں ہماری طرح ایوان میں شور و غوغا نہیں ہوتا۔ ہماری پارلیمنٹ میں مجھے یاد ہے زور شور سے مباحثہ ہوا تھا۔ میڈیا کو بھی ایک دلچسپ موضوع مل گیا تھا۔ خلیجی ممالک اس بات پر تحفظات کا اظہار کر رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو فیصلہ کرنے کا حق ہے لیکن طریقے، سلیقے اور خاموشی سے بھی معاملہ نپٹایا جا سکتا تھا۔ میرے خیال میں اگر ہم قومی اسمبلی اور سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس بلاتے اور تمام بحث کو میڈیا سے دور رکھتے تو اپنا مقصد ہم خوش اسلوبی سے حاصل کر سکتے تھے۔ خیال خاطر احباب بھی رکھ لیتے اور قرارداد بھی پاس ہو جاتی۔
ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی رہا ہے کہ ہمارے چند لیڈر خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے لگے تھے۔ زرداری صاحب دوران صدارت چوالیس مرتبہ دبئی گئے۔ میاں نواز شریف آٹھ سال تک سرور پیلس میں لگاتار ضیافت کے مزے لوٹتے رہے۔ جنرل مشرف اب بھی ایک خلیجی ملک میں مقیم ہیں۔ مبینہ طور پر انہیں ایک برادر ملک کے فرماں روا نے خطیر رقم کا چیک دیا جو بخوشی قبول کر لیا گیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ کہتے کہ جناب آپ کا بے حد شکریہ مجھے پاکستان سے اچھی خاصی پنشن ملتی ہے‘ میں لیکچرز دے کر کافی فیسیں بھی لیتا ہوں کیونکہ مغربی ممالک کے سامعین مجھے سننا چاہتے ہیں۔ اور اس جواب سے پاکستان کی عزت دوبالا ہو جاتی۔ اب آپ مجھے بتائیے کہ انڈیا کا کوئی سابق صدر یا وزیر اعظم آٹھ سال تک کسی خلیجی ممالک کا مہمان رہا ہے۔ انڈیا والوں کو اپنے ملک کی عزت کرانا آتی ہے۔ کہنے کو اور بھی بہت کچھ ہے مگر میں جھجک محسوس کر رہا ہوں۔ ملک کی عزت کا تحفظ ضروری ہے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ ہمارے سفارت کار اپنا کام اچھی طرح جانتے نہیں اور اگر جانتے بھی ہوں تو باہر کے ممالک میں لہو و لعب میں مصروف رہتے ہیں۔ میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ یہ الزام بہت ہی بودا ہے۔ ہمیں جب بھی قومی محاذ پر کوئی پشیمانی ہوتی ہے تو ہم قربانی کا وہ بکرا تلاش کرنے لگتے ہیں جس پر سارے کا سارا الزام ڈال کر ہم بری الذمہ ہو جائیں۔ ہمارے فارن آفس میں بہتری کی گنجائش ضرور ہے، مگر اس منسٹری کی کارکردگی کئی وزارتوں سے بہتر ہے۔ اس وزارت کے افسر تیس سال تک خانہ بدوشی کی حالت میں اپنے ملک کی خدمت کرتے ہیں۔
یہ بھی لکھا گیا اور کہا گیا کہ انڈیا کے سفارت کار بہت قابل اور فرض شناس ہیں۔ انگریزی کا محاورہ ہے کہ ہمسائے کا باغیچہ زیادہ خوب صورت لگتا ہے۔ ایک وہ زمانہ بھی ہم نے دیکھا ہے جب انڈین سفارت کار ہمیں رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے کیونکہ ان کے پاس منیر اکرم اور ریاض محمد خان کے پائے کے سفارت کار نہیں تھے اور پھر بھٹو صاحب کی لیٹرل انٹری آئی جس سے فارن سروس میں دو گروہ بن گئے۔ یک جہتی قصۂ پارینہ بن گئی۔ مورال نیچے آ گیا۔ یہ سب تو ہمارا اپنا کیا دھرا تھا۔ اس میں انڈیا کا کیا قصور کہ ہم اپنے ادارے تباہ کرنے میں خود کفیل ہیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ پچھلے چند سالوں سے سی ایس ایس میں اچھی پوزیشن لینے والے امیدوار پھر سے فارن سروس کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔
اور اب ذکر ہو جائے اُس بیس فیصد کوٹہ کا جس کے تحت ہماری ہر حکومت نان کیریئر سفیر لگاتی ہے۔ گویا فارن منسٹری حلوائی کی وہ دکان ہے جہاں ہر حکمران نانا جی کی فاتحہ کے بعد مفت کی جلیبیاں اپنے منظور نظر لوگوں میں بانٹتا ہے۔ انڈیا میں ایسی پوزیشن نہیں ہے۔ ہمارے ہاں جنرل پرویز مشرف نے ایک ایسے شخص کو انڈونیشیا میں سفیر لگایا جس نے جاتے ہی فارن آفس سے پوچھے بغیر دو بیش قدر عمارتیں مع بیس کنال زمین کے بیچ ڈالیں۔ میاں نواز شریف نے 2014 میں دوحہ قطر میں ایک ایسے بینکار کو سفیر لگایا جو ان کا فیملی فرینڈ بھی تھا۔ اس سے پہلے 1998 میں وہ بحرین میں کیپٹن صفدر کے انکل میجر ظفر اقبال کو سفیر لگا چکے تھے اور اسی سال اپنے ایک ہم زلف کو برما میں سفیر کبیر بنا چکے تھے۔ ہمارے لیڈر اپنے ذاتی مفادات کے مطابق سفیر لگاتے ہیں جبکہ انڈیا میں سلیکشن قومی مفاد کے مطابق ہوتی ہے۔ زرداری صاحب کے مفادات اور اثاثے یو اے ای میں ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک زمانے میں انہوں نے پولیس کے ایک با اعتماد افسر کو وہاں سفیر لگایا تھا‘ اور پھر حسین حقانی کو واشنگٹن میں پوسٹ کیا۔ ان کے کارنامے بیان کرنے کیلئے متعدد کالم درکار ہیں۔
مثل مشہور ہے کہ گائے کا بچھڑا اپنے کھونٹے کی مضبوطی کے مطابق اچھل کود کرتا ہے۔ آپ اپنی معیشت کو درست کریں۔ فیکٹریاں دن رات چلائیں۔ اچھی پراڈکٹس مناسب قیمت پر سپلائی کریں۔ ہر جگہ پروفیشنل سفیر لگائیں۔ آپ کی برآمدات تیزی سے بڑھیں گی۔ سی پیک کا منصوبہ مکمل ہو گا تو خلیجی ممالک میں ہماری اہمیت بڑھے گی۔ بس محنت سے کام کرتے رہیں۔ جذباتی ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved