قارئین ! آج ہم کشمیر ریلی اور سفارتی محاذ سمیت ایک ایسے سلگتے ہوئے سماجی موضوع پر بات کریں گے جو ہماری نوجوان نسل اور آنے والے کل کو برباد کرنے کے درپے ہے۔ کشمیر کے بعد آسام میں ''مودی گردی‘‘ کا ایک اور بد ترین نمونہ سامنے آیا ہے۔ انیس لاکھ مسلمانوں کی شہریت منسوخ کر دی گئی‘ حتیٰ کہ رکن اسمبلی مالو، صدارتی ایوارڈ یافتہ سابق فوجی افسر ثنااللہ بھی غیر ملکی قرار دے دیئے گئے۔ بھارت کے اس اقدام کے بعد 'دریندر مودی‘ کی مخصوص ہندو ذہنیت کے پس پردہ عزائم مزید کھل کر سامنے آ چکے ہیں یعنی ہندوستان صرف ہندوئوں کا ہے۔ جبکہ دوسری طرف عرب فرمانروا مودی کے رومانس میں ''گوڈے گوڈے‘‘ دھنسے چلے جا رہے ہیں۔ ہندوئوں کی مذہبی رسومات سے لے کر بھجن کی لے تک ان کے لہکنے اور ڈولنے کے نظارے بھی سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہو رہے ہیں‘ لیکن ہمارے سفارتی و خارجی چیمپئن شاہ محمود قریشی گا، گے، گی پر مبنی ''فکشن‘‘ سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہیں۔ عمومی باتوں کو انتہائی خصوصی اور اہم ثابت کرنے کے لیے الفاظ کو ایسے چباتے ہیں گویا مودی کی ہڈیاں چبا رہے ہوں۔
دو روز قبل وزیر اعظم نے کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے کال دی تو عین دن کے 12 بجے سائرن بجوائے، ٹریفک سگنلز پر نصف گھنٹہ ٹریفک رکی رہی، ریلیاں نکالی گئیں۔ وزیر اعظم، صدر مملکت، گورنرز اور وزرائے اعلیٰ سمیت تمام حکومتی شخصیات نے بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجانے سے لے کر مودی کو سبق سکھانے تک سبھی عزائم کا بھرپور اعادہ کیا۔ ریلیاں، سائرن، دھواں دھار تقریریں، شعلہ بیانیاں اور چائے کی پیالیوں پر اٹھائے جانے والے طوفانوں کے نظارے دیکھ کر نہ جانے کیوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کارروائی کوئی نئی نہیں ہے۔ نواز شریف اپنے دور حکومت میں اس قسم کے کشمیر ڈرامے رچاتے رہے ہیں اور کشمیر کمیٹیاں اپنی کمیٹیاں نکالنے اور چلانے کے لیے اس قسم کی بے شمار کارروائیاں ڈالتی رہی ہیں۔ حکومت کی طرف سے نواز شریف ٹائپ کشمیر یکجہتی کا یہ مظاہرہ اس لیے بھی عین منطقی ہے کہ وزیر اعظم کے ارد گرد مشیروں کی جو فوج گھوم پھر رہی ہے اس سے اسی قسم کے مشوروں کی توقع کی جا سکتی ہے۔ سابقہ حکمرانوں کی پیروڈی اور نقالی کے سوا وہ اور کچھ نہیں کر سکتے۔
وزیر اعظم کے معتمد خاص اور سیاسی مشیر کیا مشورے دیتے ہوں گے؟ سیاست کے حرف ابجد سے نابلد مشیر ایک سال سے جو مشورے دیتے چلے آ رہے ہیں ان کے نتائج سے حکومت کو لگنے والے چار چاند پہلے ہی سب کچھ گہنا چکے ہیں۔ خیر جیسی قابلیت ویسے مشورے۔ نتائج تو بہرحال وزیر اعظم صاحب کو ہی بھگتنے ہیں‘ کیونکہ اس کھیل میں وہ واحد ''سٹیک ہولڈر‘‘ ہیں‘ باقی سارے تو اپنی باریاں لگانے والے موقع پرست اور مہمان اداکار ہیں۔ سفارتی و خارجی محاذ پر ناکامی و پسپائی کی وجوہات اور اسباب سامنے لانے کے بجائے قوم کو ریلیوں میں نہ الجھائیں اور اس بات کا جواب دیں کہ آپ کے سفارت خانوں میں تعینات چیمپئن کن کاموں میں مگن ہیں۔ جن اہداف سے یہ ساری آسائشیں، پروٹوکول، تام جھام اور سیون سٹار لائف سٹائل مشروط تھا‘ جب وہی نہ حاصل ہو سکیں تو یہ سب کس کھاتے میں؟
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سفارت خانوں میں سفارش اور اثر و رسوخ کے زور پر تعیناتیاں حاصل کرنے والوں کی فوج کو وطن واپس بلا کر کسی ایسے کام پر لگایا جائے جو وہ کر سکتے ہوں اور ان کی جگہ سفارت خانوں میں ایسے سفیروں اور اتاشیوں کو تعینات کیا جائے جو ''رائٹ مین فار رائٹ جاب‘‘ کے معیار پر پورا اترتے ہوں۔ پروفیشنلز کی نئی کھیپ تیار کر کے سفارت خانوں میں بھیجی جائے‘ جو آج کام شروع کرے گی تو آنے والے سالوں میں ان کے نتائج اور ثمرات برآمد ہوں گے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آئندہ کے لیے غیر متعلقہ اور غیر موزوں افسران کی سفارت خانوں میں تعیناتی پر پابندی لگائی جائے۔ ماضی میں حکمران منظورِ نظر افراد اور چہیتوںکو نوازنے اور رجھانے کے لیے فارن پوسٹنگ کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ حکمرانوں کے چہیتوں ان نا اہلوں نے کیا کارکردگی دکھانی تھی۔ ان کی نااہلیت اور نا قابلیت کا خمیازہ تو آج ساری قوم بھگت رہی ہے۔
قارئین! اب چلتے ہیں اس سلگتے ہوئے سماجی مسئلے کی طرف جو وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی فوری توجہ کا طلب گار ہے اور ہماری نوجوان نسل سمیت متمول اور کھاتے پیتے گھرانوں کے لیے ناسور بن چکا ہے۔ انتہائی افسوس اور تشویش کا مقام ہے کہ نوجوان نسل انتہائی مہلک اور جان لیوا نشے کی لت میں پڑتی چلی جا رہی ہے جبکہ لگتا ہے متعلقہ سرکاری ادارے بے حسی کی چادر تانے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ اکثر پوش علاقوں میں آئس نامی نشہ Status Symbol بنتا چلا جا رہا ہے۔ اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں کے چشم و چراغ اس نشے کے چنگل میں جکڑے جا چکے ہیں۔ اس کا ایک انتہائی خطرناک پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ نوجوان بچیوں سمیت اچھی خاصی سیانی خواتین بھی اس نشے کی عادی بن رہی ہیں۔ انتہائی مہنگا اور مہلک آئس نامی یہ نشہ منہ مانگے داموں اور من چاہی جگہ پر انتہائی دیدہ دلیری سے فروخت ہو رہا ہے۔ نشے کو پورا کرنے کے لیے نشے کی عادی خواتین کسی بھی حد تک جانے پر مجبور اور بلیک میلنگ کا بھی شکار ہوتی ہیں‘ جو سماجی بگاڑ کے ساتھ ساتھ اخلاقی بے راہروی کا بھی باعث بن رہا ہے۔
اسی کی دہائی میں متعارف ہونے والی ہیروئن نے اب تک لاکھوں گھرانے برباد کر ڈالے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے متعلقہ ادارے ہر دور میں بے بس ثابت ہوئے۔ اگر کبھی سختی کی بھی گئی تو محض ریٹ بڑھانے کے لیے، ادھر منشیات فروشوں نے ریٹ بڑھائے تو ادھر انہوں نے سہولت کاری کی قیمت بڑھا دی۔ منشیات کی روک تھام کے لیے بنائے گئے اداروں کی موجودگی اور انفورسمنٹ کے باوجود نشہ بیچنے والے اور نشہ خریدنے والے دونوں ہی اپنا اپنا مقصد اور ہدف پورا کرنے میں ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں۔ واقفان حال بخوبی جانتے ہیں کہ جہاں منشیات کے ہاتھوں لاکھوں گھرانے برباد ہوئے ہزاروں مائوں کے لعل، بہنوں کے بھائی اور باپ کے بڑھاپے کے سہارے اس منشیات کی وجہ سے منوں مٹی تلے بھی جا سوئے۔ جہاں لاکھوں گھرانوں کو منشیات کی آگ نے جلا کر راکھ کر ڈالا وہاں اشرافیہ اور شرفا کی ایک نئی کھیپ بھی تیار ہوئی جو پس پردہ منشیات کے کاروبار سے منسلک رہی اور پھر چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ جن کے پیروں میں کوئی مناسب جوتا نہیں ہوتا تھا وہ پھر لینڈ کروزروں اور پراڈوز میں پھرتے نظر آئے۔ جن کے گھروں میں رات کو سونے کے لیے جگہ تنگ پڑ جایا کرتی تھی آج ان کے محلات اور بنگلوں کا شمار نہیں۔ یہ سب کچھ یونہی نہیں ہو گیا۔ سرکاری مشینری نے بھی اس بہتی گنگا میں خوب ڈبکیاں لگائیں۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پر براہ راست ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انسداد منشیات کے لیے کردار ادا کرے لیکن اس کے اینٹی نارکوٹکس ونگ کا کوئی کردار اس حوالے سے کبھی کہیں نظر نہیں آیا۔ افیون، ٹنکچر اور دوسری نشہ آور مصنوعات ادویہ سازوں اور حکما کو ان کے کوٹے سے زیادہ منہ مانگے داموں بیچنے کے سوا کوئی کام متعلقہ اداروں کے کریڈٹ پر نہیں۔ ممکن ہے متعلقہ وزیر صاحب کو علم ہی نہ ہو کہ انسداد منشیات کی براہ راست ذمہ داری ان کے محکمہ پر عائد ہوتی ہے۔ منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی پولیس کی ذمہ داری بھی ضرور بنتی ہے‘ لیکن متعلقہ محکمہ اپنی ذمہ داری پوری کرے تو شہر میں منشیات کس طرح فروخت ہو سکتی ہیں؟ بغیر ٹوکن گاڑیاں پکڑنے کے لیے شہر بھر میں کریک ڈائون تو کیا جا سکتا ہے لیکن منشیات فروشوں کے لیے نہ تو ان کے پاس کوئی حکمت عملی ہے اور نہ تو کوئی کارکردگی۔ شہر کے جن علاقوں میں آئس اور دیگر منشیات دن دیہاڑے اور دیدہ دلیری سے فروخت کی جاتی ہیں‘ ان علاقوں میں متعلقہ محکمے کی چوکیاں کیوں نہیں قائم کی جاتیں؟ وہاں کریک ڈائون کیوں نہیں کیا جاتا؟ ساری ذمہ داری اور ملبہ صرف پولیس پر ہی نہیں ڈالا جا سکتا۔ اگر متعلقہ محکمہ منشیات فروشوں کا سہولت کار نہیں تو منشیات فروش شہر بھر میں ڈھٹائی اور دیدہ دلیری سے منشیات کس طرح پھیلا رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو متعلقہ وزیر صاحب سے ضرور لینا چاہیے‘ اور ان سے یہ بھی پوچھنا چاہیے کہ وہ محکمہ چلا رہے ہیں یا منشیات فروشی کو فروغ اور تحفظ دے رہے ہیں؟