کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں‘ عالمی طاقتیں اورمسلمان ممالک‘ جن سے ہم بے معنی توقعات باندھ لیتے ہیں ‘ سبھی کو سانپ سونگھ گیا ۔ صرف ایران کی جانب سے بھارت کو انصاف سے کام لینے کی ہلکی پھلکی تاکید کی گئی ۔ ہم ہیں کہ روزانہ میڈیا میں‘ کانفرنسوں اور جلسے جلوسوں میں دہائی دے رہے ہیں۔ کشمیری محبوس ہیں۔اُن کی خفیہ‘ لیکن یقینی طور پر نسلی کشی کی جارہی ہے ۔ بڑے پیمانے پر قتل ِعام ہوسکتا ہے۔ بھارت کے وزیر ِاعظم نریندر مودی نے پاکستان اور کشمیریوں کو بیک وقت دھوبی پٹکا مارا ہے ۔وہ پہلا وار کرنے میں کامیاب ضرور ہوئے ہیں‘ مگر طاقت کے نشے میں غالباًوہ کشمیریوں کی مزاحمت کی تحریک کا غلط اندازہ لگارہے ہیں۔جارح سب سے پہلے بڑا وار کرتا ہے ۔ اُسے زعم ہوتا ہے کہ جنگ کا میدان اُس کے ہاتھ میں ہے ‘ آئندہ کا نقشہ بھی وہ اپنی مرضی مفادات سے ترتیب دے گا‘ لیکن طاقت کے استعمال اور مزاحمت کا گہرا تعلق ہے ‘ خاص طور پر جب دوقومیتوں کا ٹکرائو مذہب یا نسل کی بنیاد پر ہو۔ کشمیریت ایک قومی جذبہ ہے ‘جس میں مسلمان‘ ہندو‘ بدھ مت اور سکھ ‘ سب زبان‘ تاریخ اور مکانی نسبت سے کشمیری ہیں۔ یہاں تک کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے بھی آخری دم تک کوشش کی کہ کشمیر کی منفرد حیثیت باقی رہے ۔ انہوں نے الحاق اسی شر ط پر کیا تھا کہ انڈیا کے پاس صرف دفاع‘ کرنسی اور مواصلات کے شعبے ہوںگے ۔ معاملات بھارت اور پاکستان کی آزادی کے ساتھ خراب ہوئے۔ تین جون کے منصوبے کو حرف ِآخر سمجھا گیا۔ ریاستوں کے لیے کوئی بھی تیسرا راستہ نہ تھا‘ آزادی دینے کے لیے کوئی تیار نہ تھا۔ نوابی ریاستوں کو کسی نہ کسی کا حصہ بنناتھا۔
پاکستان اور بھارت کی آزادی کا راستہ تو آئینی اور قانونی تھا‘ مگر آزادی کی صبح خون میں نہائی ہوئی طلوع ہوئی ۔ اُس میںسب کا خون شامل تھا۔مسلمان‘ سکھ اور ہندو۔ کون زیادہ مارے گئے‘ کون کم؟ کس نے کہاں اور معصوم لوگوں کا قتل ِعام شروع کیا؟ گھر جلے ‘ گھروں سے بے دخل کیا گیا۔ یہ سب ثانوی باتیں ہیں۔ اُس خون کے گہرے دھبے صرف تاریخ ہی میں نہیں‘ دونوں ریاستوں کے دوطرفہ تعلقات اور انتہا پسند تنظیموں کی شکل میں بھی نظر آتے ہیں۔ اُس خون خرابے میں کشمیر بھی دو حصوں میں بٹ گیا‘ اور آج تک دونوں ریاستوں کے درمیان تنازعے کی وجہ بنا ہوا ہے ۔ گزشتہ ستر برسوں کے دوران انڈیا نے گاجر اور ڈنڈے کی پالیسی اپنا ئے رکھی ۔ ڈنڈا گولیوںکی صورت بہت استعمال ہوا۔ کئی دہائیوں سے جعلی مقابلے کرکے کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا جارہا ہے ۔ ہزاروں قیدو بند‘ اور جسمانی تشدد کی اذیت جھیل رہے ہیں۔ پیلٹ گن کے چھروں نے سینکڑوں کی بینائی چھین لی ۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق کئی ہزار کشمیری جاں بحق کیے جاچکے ہیں۔
پانچ اگست کے بعد‘ جب سے کشمیر کی رہی سہی داخلی خودمختاری کا خاتمہ ہوا‘ مسلم اکثریتی علاقوں میں کرفیو نافذ ہے ‘ سکول بند‘ ہسپتال بند‘ تجارت ختم‘ مواصلات کا نظام معطل‘ لوگ گھروں میں محبوس ہیں۔ بھارت کو خوف ہے کہ کرفیو ختم ہوا تو لوگ باہر نکلیں گے‘ جلوس نکلیں گے ‘ بپھرے ہوئے عوام اینٹوں اور پتھروں سے قابض فوج پر ٹوٹ پڑیں گے ۔ پاکستان کا کشمیر کی آزادی‘ خودمختاری اور اپنے ساتھ الحاق کا مطالبہ ایک طویل داستان رکھتا ہے ۔ بھارت کے ساتھ ٹکرائو‘ تزویراتی حکمت ِعملی کی بنیاد‘ اور سلامتی کا مرکز ِثقل مسئلہ کشمیر ہی رہا ہے ۔ ہمارا کشمیریوں کا ساتھ دینا ہماری اپنی بقا اور سلامتی کی جدوجہد کا حصہ ہے ۔ مصیبت کی اس گھڑی میںکشمیری پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے مؤثر انداز میں کشمیر کی موجودہ صورت ِحال اور فسطائیت پرمبنی بھارت کی پالیسی کو دنیا کے سامنے رکھا ہے ۔ اسلامی کانفرنس تنظیم کا دروازہ کھٹکھٹایا‘ اسلامی ریاستوں کے سربراہوں سے رابطے کیے‘ سلامتی کونسل میں ایک عرصے کے بعد یہ مسئلہ زیر ِ بحث آیا‘ مغرب کی بڑی طاقتوں کے سربراہوں کے ساتھ بھی وزیر ِاعظم عمران خان نے رابطے کئے اور صورتحال سے آگاہ کیا۔ لیکن یہ سب رد ِعمل واجبی سا ہے۔
کیا وجہ ہے کہ بڑی طاقتیں اور زیادہ تر اسلامی ممالک نے چپ سادھ رکھی ہے؟ امریکی صدر نے دوبارہ ثالثی کی بات کی‘ مگر اس شرط پر کہ پاکستان اور بھارت‘دونوں ثالثی تسلیم کریں۔ بھلا بھارت ایسا کیوں کرے گا؟ زیادہ تر ممالک نے یہ کہہ کر ہمیں ٹال دیا کہ وہ حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ پتہ نہیں ہمیں عالمی سیاست کی اصلیت‘ ریاستوں کے کردار‘ بین الاقوامی تعلقات کی ساخت کب سمجھ میں آئے گی؟ اس ضمن میں کچھ گزارشات ہیں: عالمی سطح پر ناانصافی اور امن ایک ساتھ نہیں چل سکتے ۔ ہر فلسفہ ‘ ہرنظریہ اور معقولیت یہی کہتی ہے کہ انصاف کے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا۔ ریاست کے داخلی نظام میں اگر انصاف نہ ہو تو امن قائم ہی نہیں رہتا‘ اگر دکھائی دیتا ہے تو جبر اور طاقت کے استعمال سے‘ اور داخلی انصاف کا نظریہ وسیع معنوں میں لیا جاتا ہے ‘ جیسا کہ حقوق‘ اقتصادی ناہمواری کا خاتمہ اورتقسیم ِ زر کے پیمانے۔ خارجی طور پر انصاف فوجی طاقت‘ اور اس کے استعمال کے تابع ہے ۔ ہرطاقتور انصاف کا معیار خود ترتیب دیتا ہے ۔ طاقتور ظالم بھی ہے اور منصف بھی ۔ کمزور اور ناتواں قوموں کا کوئی ساتھ نہیں دیتا‘ سوائے اُن کے جن کا براہ ِراست مفاد جڑا ہوتا ہے ۔
ان حالات میں پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جس کا کشمیری عوام کے ساتھ براہ ِراست مفاد ہے اور کشمیریوں کی حمایت ہماری قومی سلامتی ‘ خارجہ اور داخلی پالیسیوں کا بنیادی حصہ رہی ہے ۔بیرونی دنیا انسانی حقوق کی پامالی سے کم ہی متاثر ہوتی ہے۔ جب تک آگ کے شعلوں سے دوسروں کو خطرہ نہ ہو‘ کوئی پروا نہیں کرتا ۔ کسی دور کے گھر کوآگ نے لپیٹ میں لے رکھاہو‘ اس کے مکین جل رہے ہوں‘ تودوسروں کو کوئی فکر نہیں ہوتی۔ عمران خان نے نیویارک ٹائمز میں اپنے مضمون میں ایک تاریخی نکتہ اٹھایا‘ مغربی طاقتوں کو ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کی تنبیہ کی ‘ درست کہا ہے کہ اگروہ سوچتے ہیں کہ بھارت کی کشمیر پالیسی کے اثرات اُن تک نہیں پہنچیں گے تو وہ سخت غلطی کررہے ہیں۔ یہ وہی غلطی ہوگی کہ جس کی وجہ سے فسطائی جرمنی کو شہ ملی‘ اور وہ ایک کے بعد دوسری ریاست پر فوج کشی کرتا چلا گیا۔ عالمی جنگ اور اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی ''مٹی پائو‘‘ پالیسی کا نتیجہ تھی۔ اب آہستہ آہستہ مغربی میڈیا ‘ کچھ دانشوروں اوراراکین ِ پارلیمنٹ کی طرف سے آوازیں اٹھنا شروع ہوئی ہیں‘ مگر ابھی تک بے اثر اور بے نتیجہ ۔ کسی قوم کا مفاد براہ ِراست کشمیریوں سے وابستہ نہیں۔ انصاف اور انسانی حقوق کی پامالی کی دلیل وسیع مادی مفادات کے سامنے بے وقعت دکھائی دیتی ہے ۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ امید کی شمع جلتی رہی ہے‘ جدوجہد جاری ہے‘ اور انصاف ہدف ہے ۔ طاقت پر مبنی عالمی نظام ٹوٹ تو نہیں سکتا‘ لیکن انسانی حقوق کی کھلی پامالی پر دنیا زیادہ دیر تک خاموش بھی نہیں رہ سکتی ۔
کئی دہائیوں سے مسلمانوں کے خلاف مغرب اور مشرق ‘ ہر جگہ دہشت گردی کا بیانیہ غالب رہا۔ ہماری تہذیب‘ اسلامی روایات اور عقائد کو انتہا پسندی‘ جہادی اور عسکریت کے رنگ میں پیش کیا گیا ۔ نائن الیون کے واقعات مغرب کے نزدیک تہذیبی ٹکرائو کی عملی صورت تھے ۔ اس سوچ کی وجہ سے آزادی کی جدوجہد کو بھی دہشت گردی کی جنگ قرار دے دیا گیا۔ دنیا میں سوچ کے زاویے تبدیل ہوگئے ‘ حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دے کر اُن کے خلاف عسکری کارروائی کا جواز مل گیا۔ افغانستان سے لے کر سوڈان تک‘ ہر مسلمان ملک میں آگ لگی ہوئی ہے ۔ نہ صرف قومی ریاستیں کچھ مخالف گروہوں کے خلاف برسر ِ پیکار ہیں‘ بلکہ مسلمان اقلیتوں کو کچلنے کی کھلی چھٹی بھی مل چکی ہے ۔ فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ ہم نے دنیا کو خاموش ہی دیکھا ۔ امن کی کوششیں ضرور کی گئیں‘ لیکن مقصد مضبوط اسرائیل کا تمام صورت ِ حال پر کنٹرول تھا۔ خدشہ ہے کہ ایسا ہی '' امن‘‘ کشمیر کے لیے تجویز نہ کردیا جائے۔
ایک بات طے ہے کہ پاکستان سفارتی محاذ پر کشمیریوں کا مقدمہ اٹھا رہا ہے ‘ لیکن کشمیریوں کو اپنی جنگ خود لڑنی ہوگی ۔ اس میں پاکستان کی اعانت ضروری ہے ۔ صبر ‘ تحمل‘ دانش مندی اوراجتماعی سوچ کے سہارے پُرامن جدوجہد کا طویل راستہ ہمارے سامنے ہے ۔ اس دوران بھارت کی طرف سے طاقت کے استعمال کا جواب ضرور دینا ہوگا۔