تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     03-09-2019

کشمیر…ایک حریت پسند کی نظر میں

مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر ساری دنیا کی نظر ہے۔ان کی بھی جوکشمیریوں سے ہمدردی رکھتے ہیں اور ان کی بھی جو کشمیریوں کی نسل کشی کے درپے ہیں۔ایک ماہ کے کرفیو اور تمام تر طاقت کے استعمال کے باوجود صورتحال بھارتی فوج کے کنٹرول میں نہیں ہے۔امریکہ کے صدارتی امیدوار ہوں یا امریکی کانگریس کی خارجہ امور کمیٹی‘یورپی پارلیمنٹ یا عالمی ذرائع ابلاغ ‘ہر کسی کی زبان پر کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے واقعات ہیں۔میں نے یہ ساری صورتحال ایک ایسے کشمیر ی حریت پسند کے سامنے رکھی جو مقبوضہ وادی کے رہنے والے ہیں۔عملی طور پر تحریکِ حریت میں حصہ لیا ‘بھارتی فورسز نے انہیں سزائے موت سنا رکھی ہے‘لیکن اب وہ کسی اور ملک میں مقیم ہیں ‘ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں اور مقبوضہ وادی کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ میں نے ان سے جب کشمیر سے متعلق حالیہ سفارتی کامیابیوں کا ذکر کیا تو انہوں نے ایک لمبا سانس لیا اور کچھ یوں گفتگو کی جوقارئین کی نظر ہے:
''انسان زندگی کی بازی ہار جاتا ہے‘ وجود فنا ہو جاتا ہے۔ انسان اور وجود کو وقتی طور پر شکست دی جا سکتی ہے‘ اسے دبایا جا سکتا ہے‘وجود کو قید کیا جا سکتا ہے‘ لیکن آئیڈیالوجی کو‘ نظریے کو کبھی بھی ابدی شکست نہیں دی جا سکتی۔ نظریے کی آبیاری ازخود نظامِ کار کے تحت ہوتی رہتی ہے۔ ایک وجود کے بعد دوسرا وجود‘ تیسرا وجود اور پھر لاتعداد وجود اپنے نظریے کی بقا کے لیے اپنے اپنے حصے کا کام کر کے دنیا سے رخصت ہوتے جاتے ہیں۔ ایک نسل کے بعد دوسری نسل اپنے نظریے کی آبیاری اپنے تن‘ من‘ دھن اور یہاں تک کے اپنے خون اور آبرو سے بھی کرتی ہے۔ نظریے کے پیروکار فوری شکست و فتح عروج و زوال کے نتائج سے بے پروا ہو کر اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہیںاور بالآخر آئیڈیالوجی کی جیت ہوتی ہے۔ جو قوم اور کمیونٹی اپنے ارادوں میں پختہ اور عزمِ صمیم رکھتی ہو تو اپنے نظریے کو حاصل کرنے کے لیے آخری حد تک جاتی ہے اور اللہ تعالی بھی ایسے لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ ماضی قریب کی بہت سی تحریکیں اسی بنیاد پر کامیاب ٹھہریں۔ نظریاتی جنگیں اور نظریاتی تحریکیں مال و دولت اور بھاری بھرکم دفاعی سازوسامان سے نہیں جیتی جاتیں۔ اور نہ ہی اس میں عددی کثرت کو دیکھا جاتا ہے۔ بس بنیادی بات اتنی ہے کہ نظریے کی اساس حق اور سچ پر ہونی چاہیے۔ حق اور سچ کو ہمیشہ فتح ہے اور باطل اور جھوٹ کو ہمیشہ شکست۔ قرآن مجید میں بھی بار بار جدوجہد‘ عملِ صالح اور مسلسل دعوت کی تلقین کی گئی ہے۔ انبیائے کرام نے بھی اپنے اپنے ادوار میںاسی فلسفے کی بنیاد پر حق اور سچ کا علم بلند کرنے اور فکرِ حقیقی اور راست نظریے کی عمل پذیری کے لیے فکری اور عملی جدوجہد کی۔ آئیڈیالوجی اور نظریے کی عمل پذیری‘ عارضی پسپائی سے اس کے پیروکار کبھی بھی حوصلے اور ہمت نہیں ہارتے بلکہ ایک نئی حکمت عملی کے تحت تازہ دم ہو کر دوبارہ میدان میں اترتے ہیں اور اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہیں
جدوجہد کرنے والوں کا ہدف اور مقصد ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ اس کے نتیجے میں وہ خود بھی ثمرات حاصل کریں گے‘ نہیں بلکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ کرنے کے لیے اپنا تن‘ من‘ دھن ‘جان اور آبرو کی قربانی پیش کر رہے ہوتے ہیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افواجِ پاکستان‘انٹیلی جنس اداروں‘سول و ملٹری سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ اپنے لئے نہیں ‘بلکہ اپنی آئندہ نسلوں کے لیے وطنِ عزیز کو محفوظ کیا۔ آپریشن راہِ راست‘ضرب عضب‘ ردالفساد‘ ابھی کل ہی کی بات ہے‘ لیکن آج باطل نظریے کے حامل فنا ہو چکے ہیں اور پاکستان اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔چند ہزار نے قربانیاں دے کر کروڑوں پاکستانیوں کا مستقبل محفوظ کر دیا۔روس اور امریکا کو افغانستان میں قدرے نہتے مجاہدین نے محض نظریے کی بنیاد پر شکست دی۔ایٹم بم ہونے کے باوجود یہ طاقتیں اپنا ہدف حاصل نہ کرسکیں اورنہتے مجاہدین کے ارادوں اور عزم کو شکست نہ دے سکیں۔تحریکِ پاکستان برصغیر میں ایک طویل عرصے تک چلتی رہی‘رہنما اور عام شہری اس تحریک کا حصہ بنتے رہے ‘اپنا تن‘ من ‘دھن قربان کرتے رہے‘ بالآخر اپنی آزادی کی منزل پالی اور جو باقی بچے وہ اپنی زندگی میں جہدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ہندو‘سکھ‘مسلم سب نے قربانیاں دیں اور منزل حاصل کی‘ مگر ہندوؤں نے عددی اکثریت اور طاقت کے بل بوتے پر انگریز وںسے مل کر تقسیم ہند کے منصوبے میں دو نمبر یاں کیں اور باقی اقلیتوں کو بھی غلام شہری بنانے کی کوششیں کیں‘ جو اَب تک جاری ہیں۔فلسطینیوں کی جدوجہد بھی عصر ِحاضر کی ایک مثال ہے جو نتائج‘جانی اور مالی نقصان سے بے پرواہ پتھروں سے اسرائیل کے ٹینکوں اور جہازوں کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔مسلم حکمرانوں کی بے حسی‘بے حمیتی سے فلسطینی بچوں‘خواتین اور بس بس بوڑھوں کوکوئی غرض نہیں‘ وہ سب اس نیت سے اپنے حصے کی قربانی دیتے جارہے ہیں کہ ان کی قربانیوں کے نتیجے میں ایک دن ان کا نظریۂ حریت غالب آئے گا اور ان کی نسلیں اس تحریک سے بہرہ ور ہوں گی۔عام آدمی سے لے کر پڑھے لکھے دانشور تک سب کے خیال میں یہ فلسطینی اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں اور انہیں سمجھوتہ کرلینا چاہیے ‘حالات سے بھی اور تاریخ کے جبر سے بھی‘لیکن یہ ''نادان‘‘ اور ''نا سمجھ‘‘ اپنے نظریے سے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ مسلم حکمران اگرچاہیں تو ان نہتے ‘مظلوم فلسطینیوں کے لیے کیا کچھ نہیں کر سکتے‘ مگر ان مسلم حکمرانوں کی سوچ اور حوصلے تو مال و دولت اور دفاعی سازوسامان سے ناپے اور تولے جاتے ہیں۔
برصغیر کے مسلمانوں کو1947ء میں ایک طویل جدوجہد کے نتیجے میں آزادی نصیب ہوئی اور الگ وطن پاکستان حاصل کیا۔اپنی سرزمین پاکستان کو آباد کرنے کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جنم بھومی میں گھر بار مال و زر چھوڑا اور پاکستان کا رُخ کیا ‘تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی۔جان اور آبرو کی بے مثال قربانیاں دیں اور آزاد وطن میں ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے نظریہ پر یہ سب کچھ ہوا اس وقت بھی قائد اعظم محمد علی جناح ؒ ‘اس فکرو فلسفہ کا علم اٹھانے والے قدرے تنہا تھے‘ بڑی اکثریت انہیں دیوانہ کہتی تھی‘ ہندو اور انگریز مل جل کر رہنے کے لیے بڑی پرکشش مراعات اور عہدے کی پیشکش ہوئی ‘یہاں تک کہ متحدہ ہندوستان کا پہلا وزیر اعظم بننے کی پیشکش بھی کی گئی‘ لیکن قائداعظم نے مشکل راستے کا انتخاب کیا اور آج پاکستان اسلامی ملکوں میں پہلی ایٹمی قوت ہے۔1971ء کے بعد پاکستان شکست خوردہ تھا ‘معیشت کا برا حال تھا‘ لیکن اس کے باوجود ایٹمی قوت بنا اور مال و دولت کے انبار رکھنے والے مسلم حکمران اور مسلم ریاستوں کو یہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔اگر مال و زر سے ہی ایٹمی قوت بننا نصیب ہوتا توسارے عرب حکمران اور ایران آج ایٹمی قوت بن چکے ہوتے۔مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک اور اس تحریک میں قربان ہونے والے کشمیری اپنی آزادی کی تحریک لڑرہے ہیں اور کشمیریوں کا بھی یہی نظریہ ہے جس کی بنیاد پر قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان حاصل کیا تھا۔کشمیر کی آزادی سے دو قومی نظریے اور پاکستان کی تکمیل ہوگی۔کشمیری خواتین‘بچوں اور بوڑھوں نے گزشتہ ستر برسوں میں جان ‘مال آبرو کی جو قربانیاں دی ہیں وہ اقوام متحدہ‘سپر طاقتوں اور مال و زر کے بوجھ تلے دبے ہوئے عرب و عجم کے مسلم حکمرانوں کے آشیرباد اور مدد کے بغیر دی ہیں۔ اوریہ قربانیاں مصمم ارادے اور ایک نظریے پر قائم ہیں۔یہ تحریک‘جدوجہد اور قربانیاں اس وقت تک جاری رہیں گی‘ جب تک ہمیں ہماری منزل حاصل نہیں ہو جاتی۔ 
تاریخ گواہ ہے کہ کبھی کسی طاقتور نے بڑے طاقتور سے آزادی حاصل نہیں کی‘ بلکہ ہمیشہ کمزور‘ بے بس‘ محکوم اور لاغر طبقے نے اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور اور بڑے سے آزادی حاصل کی۔رسول اکرمﷺ نے جب دین ِاسلام کو متعارف کروایا تو کن کن مصائب‘رنج و الم کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور فتح بالآخر اس وقت کے کمزور طبقے مسلمانوں کو ہی حاصل ہوئی کیونکہ وہ ایک نظریے پر قائم تھے۔غزوۂ بدر کے شہدا نے فتح مکہ کی بنیاد رکھی غزوہ اُحد سے سبق حاصل کیا اور غزوہ خندق میں لڑے بغیر اپنی توانائیوں کو بچایا اور وہ غلبہ حاصل ہوا جو پوری دنیا نے دیکھا۔ نواسہ رسول ﷺ حضرت امام حسینؓ نتائج سے بے پروا ہو کر راہِ حق میں نکلے۔اس وقت بڑے بڑے جید علمانے ان کے اقدام کو قبل از وقت قرار دیا‘ لیکن وہ وہ حق اور سچ کا علم لے کر نکلے اور اپنے سے کہیں زیادہ بڑی قوت سے ٹکرائے ۔اپنا آج آنے والی مسلم اُ مہ کے لیے قربان کیا۔یہ حق و باطل کی سوچ آج تک میدان میں ہے اور امام حسینؓ کی نام لیوا پوری مسلم اُمہ ہے‘ لیکن یزید کا نام زبان پر تو کیا ذہنوں میں بھی لانے کو تیار نہیں۔اس لیے مقبوضہ کشمیر کا ہرشہری ہر بچہ ‘ بوڑھا اورہر خاتون اس نظریے اور فلسفے پر قائم ہوتے ہوئے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ آنے والی نسلوں کے لیے اپنا آج قربان کر رہے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کی تحریک اقوام متحدہ کی قرارداد‘سپر طاقتوں کی حمایت یا مسلم حکمرانوں کے مال و زر کی محتاج نہیں ہے‘ یہ جاری رہے گی‘البتہ کشمیر کی فصل جتنی اب تیار ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔بس اک حوصلہ‘ہمت اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔مقبوضہ کشمیر میں دشمن کا اتنا بڑا فوجی سرنڈر ہوسکتا ہے کہ تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی‘‘۔
یہ گفتگو کر کے پڑھا لکھا کشمیری حریت پسند اٹھ کر چلا گیا اور اس کے جانے کے بعد میں یہ سوچتا رہا کہ اس نے جو زمینی حقائق اور مقبوضہ وادی کی عملی صورتحال بیان کی ہے اس میں واقعی وزن ہے۔میں نے کشمیری حریت پسند کو اتنا یقین ضرور دلایا کہ پاکستان اور پاکستانی عوام بھی کشمیراور کشمیریوں سے اتنا ہی پیار کرتے ہیں جتنا کشمیری پاکستان سے کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved