اگلے ماہ عوام باہر نکل کر حکومت کو آئینہ د کھائیں گے : فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اگلے ماہ عوام باہر نکل کر حکومت کو آئینہ دکھائیں گے؛ اگرچہ آج ہم نے اسلام آباد کو لاک ڈائون کرنا تھا‘ لیکن اسی دوران ہمیں ایک اچھا آئینہ مل گیا‘ جس سے استفادہ کرنا بیحد ضروری تھا‘ اس لئے لاک ڈائون کا ارادہ ترک کردیا‘ کیونکہ ہمیں پتا چلا تھا کہ حکومت نے کبھی آئینہ ہی نہیں دیکھا ‘ورنہ اسے اپنا چہرہ نظر آ جاتا اور وہ سب کچھ چھوڑ جھاڑ کر گھر چلے جاتے اور اسلام آباد کو لاک ڈائون کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی‘ اس لئے میں حکومت کو خبردار کرتا ہوں کہ آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے کیلئے تیار ہو جائے تاہم ‘ اگر اسی دوران کوئی اور متبادل نظر آگیا تو آئینہ دکھانے والا پروگرام چھوڑ کراس پر عمل کریں گے‘ کیونکہ ہم بہتر‘ بلکہ بہترین پر یقین رکھتے ہیں اور ہم حکومت کا نہایت عبرتناک انجام دیکھنا چاہتے ہیں‘ جس کیلئے حکومت اچھی طرح سے تیار ہو جائے تاہم‘ حکومت اگر ہمارے ساتھ مذاکرات کرنا چاہیے تو اس کیلئے بھی ہمارے دروازے کھلے ہیں‘ کیونکہ دنیا میں بڑے بڑے مسائل مذاکرات ہی سے حل ہوتے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پنجاب کی جے یو آئی کی مجلس عاملہ سے خطاب کررہے تھے ۔
پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے : خورشید شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید علی شاہ نے کہا ہے کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور اگر حکومت یہ نہیں کرسکتی تو کم از کم میرے بارے میں ہی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے‘ جس کا بہت اچھا اثر خارجہ پالیسی پر بھی پڑے گا‘لیکن حالت یہ ہے کہ اگلے روز میرے غریب فرنٹ مین کے دفتر پر چھاپہ مار کر وہاں سے سارا ریکارڈ قبضے میں کر لیا گیا؛ حالانکہ اس نے پہلے ہی سارا حساب کتاب رکھا ہوا تھا‘ جبکہ زرداری صاحب تو بادشاہ آدمی ہیں اور حساب نہیں رکھتے ہیں ‘کیونکہ وہ بے حسابی میں یقین رکھتے ہیں ‘جبکہ ہزاروں جعلی اکائونٹس کا حساب رکھنا ویسے بھی ناممکن بات تھی‘ اس لئے انہوں نے نہایت مشکل کام اللہ میاں ہی پر چھوڑ دیا تھا اور اب انہیں مصیبت پڑی ہوئی ہے اور ان کیلئے یہ سزا ہی کافی ہے‘ کیونکہ ہر غلط کام پر سزا ضرور ملتی ہے؛ البتہ اگر یہ کام حکومت کرے تو وہ انتقامی کارروائی کہلاتی ہے‘ جو حکومت ہمارے ساتھ بھی کررہی ہے اور ہماری طرح نواز لیگ کے ساتھ بھی اور اسی لیے اس کا انجام مولانا فضل الرحمن کے ہاتھوں بہت قریب ہے۔ آپ اگلے روز سکھر میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے ۔
بخدمت جناب حضرت رئیس امروہوی
یہ سید انیس شاہ جیلانی مرحوم کی مرتب کردہ کتاب ہے‘ جسے فکشن ہائوس نے چھاپا ہے اور جس میں معروف شاعر اور صحافی رئیس امروہوی کے نام دیگر مشاہیر کے خطوط شامل کئے گئے ہیں۔ ہمارے دوست سید انیس شاہ جیلانی‘ رئیس امروہوی مرحوم کے قریبی دوست اور مصاحب بھی تھے۔ '' سفر نامہ ‘ مقبوضہ ہندوستان ‘‘ میں بھی‘ جن کا تذکرہ وافر مقدار میں موجود ہے : ع
خدا رحمت کُندآمیں عاشقانِ پاک طینت را
جن لوگوں کے خطوط اس کتاب میں شامل کئے گئے ہیں‘ ان میں سے چیدہ چیدہ نام حسب ذیل ہیں : امیر حمزہ شنواری ‘ ابن انشائ‘ احمد ندیم قاسمی ‘ احسان دانش ‘ ایم اسلم‘ پطرس (احمد شاہ بخاری ) جون ایلیا ‘ جلیل قدوائی ‘ جوش ملیح آبادی ‘ حفیظ جالندھری‘ حکیم محمد سعید ‘ رشید احمد صدیقی ‘ راغب مراد آبادی ‘ زیڈ اے بخاری ‘ سید ہاشم رضا ‘ سید احتشام حسین‘ عبد الحمید عدمؔ‘ سید ضمیر جعفری ‘ سید محمد جعفر ‘ شورش کاشمیری‘ عبد السلام خورشید ‘ عبادت بریلوی‘ عبید اللہ علیم ‘ غلام رسول مہر ‘ کمال امروہوی‘ مصطفی زیدی ‘ مینا کماری ‘ ملا واحدی‘ ماہرالقادری ‘ نیاز فتح پوری ‘ نظیر صدیقی ‘ نثار احمد فاروقی ‘ نیر واسطی اور وزیر آغا ؛ اگرچہ مکاتیب سبھی ذاتی‘ لیکن دلچسپ ہیں ۔
اور اب آخر میں رفعت ناہیدؔ کی یہ تازہ غزل‘ جو انہوں نے ایک پہاڑی مقام سے بھیجی ہے :
کون تمہاری باتیں سمجھے ‘ کون کرے سر ایک پہاڑ
یعنی ایک مصیبت اپنی یعنی اکثر ایک پہاڑ
مٹی کی خوشبو آئی اور سنگریزوں کا شور اُٹھا
دروازہ کھولا تو دیکھا اپنے در پر ایک پہاڑ
کُہرے اور بارش کی رم جھم رم جھم‘ کیا میں بھیگ گئی
پھینک رہا تھا پانی کتنا بادل بھر بھر ایک پہاڑ
تیرے سینے پر برسی تو تجھ کو جنگل کردوں گی
سر تاپا میں کالی بدلی ‘ تومتواتر ایک پہاڑ
میں سایوں میں پلنے والی تو سورج کے ساتھ بڑھا
میں آنگن کے پیڑ کی ڈالی اور تو بنجر ایک پہاڑ
کوئی کرشمہ ہے یہ نظر کا یا کوئی سوچ کا دھوکا ہے
باہر باہر بادل بادل‘ اندر اندر ایک پہاڑ
گھاٹی میں جھانکا تو پھولوں کی چادر سی بچھی ہوئی
اوپر کی جانب دیکھا تو کھڑا سر اسر ایک پہاڑ
چاروں جانب اوپر سے نیچے تک برفیں جمی ہوئیں
سارا منظر ایک سفیدی ‘ سارا منظر ایک پہاڑ
سوئیں جاگیں باری باری ‘ دیکھیں اور محسوس کریں
رات رات بھر ایک سناٹا ہے اور دن بھر ایک پہاڑ
اس کی چھوٹی سر کرتے ہی عمر تمام ہوئی ناہید ؔ
قسمت سے لے کر آئے تھے جیون دوبھر ایک پہاڑ
آج کا مطلع
ہمارے ساتھ وہ مجبور سے لگے ہوئے ہیں
قریب سے نہ سہی‘ دور سے لگے ہوئے ہیں