صحابہ کرامؓ کے درمیان حضرت عمربن خطابؓ کی شخصیت بہت عظیم ہے۔ آپؓ کا نام لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم‘ آپ کے قبولِ اسلام کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔ آنحضورؐ کی دعا اور حضرت عمرؓ کی اپنی بہن فاطمہ بنت خطابؓ کی استقامت کے نتیجے میں اللہ نے آپ کو اسلام کی آغوش میں ڈال دیا۔ آپ نے 63سال عمر پائی اور یکم محرم 24ھ کو شہادت کے مقام پر فائز ہوئے۔ آپؓ نے شہادت سے قبل حج کیا اور واپسی کے سفر میں ایک مقام پر آپ نے سنگریزوں کے اوپر چادر بچھائی اور لیٹ گئے‘ پھر آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر اللہ سے عرض کیا: ''اے اللہ! تیرا بندہ بوڑھا ہوچکا ہے‘ قوت ضعف میں بدل چکی ہے اور رعایا دور دور تک پھیل چکی ہے‘ تو اب مجھے اس حال میں اپنے پاس بلا لے کہ میرا دامن عجزوملامت سے بالکل پاک ہو۔‘‘ جب آپؓ مدینہ میں پہنچے تو آپؓ نے وہ دعا مانگی جو اکثر آپؓ کی زبان پر رہتی تھی: '' اے اللہ مجھے اپنے راستے میں شہادت عطا فرما اور میری موت تیرے حبیبؐ کے شہر میں آئے‘‘۔
کئی صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ نے حضرت عمرؓ کی شہادت کے بارے میں خواب دیکھا۔ معروف صحابی حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں: میں نے دیکھا ایک پہاڑ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور ان کے ساتھ حضرت ابوبکرصدیقؓ ہیں۔ وہ حضرت عمرؓ کو اشارہ کرکے اپنی طرف بلار ہے ہیں۔ ابن سعد نے طبقات میں اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے کہا گیا کہ اپنے خواب کی اطلاع امیرالمومنین کی خدمت میں بھیج دیں۔ انہوں نے فرمایا: میرا دل نہیں چاہتا کہ میں عمرؓ کو ان کی موت کی خبر دوں۔ حج کے بعد حضرت عمرؓ مدینہ منورہ میں پہنچے تو زندگی کا آخری خطبہ جمعہ 21ذوالحجہ 23ھ کو مسجد نبویؐ میں ارشاد فرمایا۔ اس میں خود بھی اپنی شہادت کے بارے میں اشارہ دیا۔ مسنداحمد میں اس خطبے کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔
آپؓ نے فرمایا: میں نے ایک خواب دیکھا ہے ‘جس میں مجھے میری موت کی اطلاع ملی ہے۔ میں نے دیکھا کہ ایک مرغے نے مجھے دو مرتبہ ٹھونگیں ماری ہیں اور کچھ لوگ مجھ سے اپنے جانشین کی نامزدگی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین اور شریعت اسلامی کا محافظ ہے۔ وہ خود اس کی حفاظت کرے گا۔ اگر میں اچانک دنیا کو خیرباد کہہ جاؤں تو چھ افراد خلافت کا فیصلہ کریں گے۔ یہ چھ صحابہ وہ ہیں ‘جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور جن سے آنحضورؐ آخری دم تک خوش تھے‘پھر آپؓ نے یہ چھ نام بتا دئیے؛ سیدنا عثمان بن عفانؓ‘ سیدناعلی ابن ابی طالبؓ‘ سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ‘ سیدنا سعد بن ابی وقاصؒ‘ سیدنا طلحہ بن عبیداللہؓ اور سیدنا زبیربن العوامؓ۔
حضرت عمرؓ مفتوحہ علاقوں سے غیرمسلم غلاموں کو مدینہ میں قیام کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ کچھ صحابہؓ کے اصرار پر آپ نے ان کے غلاموں کو اس بنیاد پر اجازت دے دی کہ وہ صحابہؓ ان کے ہنر اور کمائی سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ انہی میں سے ایک مجوسی ابولؤلو جو حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کا غلام تھا‘ آپ کو شہید کرنے کا ارادہ کرچکا تھا۔ حضرت عمرؓ فجر کی نماز پڑھانے کے لیے محرابِ نبویؐ میں کھڑے ہوئے اور لوگوں کو صفیں درست کرنے کی تلقین فرمائی۔ عبداللہ بن عباسؓ‘ عبدالرحمن بن عوفؓ اور عمربن میمونؓ حضرت عمرؓ کے قریب کھڑے تھے۔ آپ فجر کی نماز میں پہلی رکعت میں لمبی سورتیں‘ مثلاً سورۂ یوسف یا سورۂ النحل پڑھا کرتے تھے‘ تاکہ زیادہ سے زیادہ نمازی پہلی رکعت پا لیں۔ فجر کی نماز اوّل وقت میں پڑھی جاتی تھی‘ جبکہ ابھی اندھیرا ہوتا تھا۔ جب آپ نے نماز شروع کی تو صف میں چھپے ہوئے اسی مجوسی نے آپؓ پر دودھاری اور زہر میں بجھے ہوئے خنجرسے حملہ کیا ‘جس سے آپ شدید زخمی ہوگئے ۔ قاتل پیچھے کی طرف دوڑا اور خنجر سے دائیں بائیں مسلمانوں کو زخمی کرتا ہوا بھاگنے لگا۔ کل تیرہ آدمی زخمی ہوئے‘ جن میں سے 7 نے شہادت پائی۔ ایک مسلمان نے قاتل پر اپنا کمبل پھینکا اور اسے قابو کرلیا‘ مگر اس نے اپنے آپ کو ذبح کرلیا۔ حضرت عمرؓ نے عبدالرحمن بن عوفؓ کا ہاتھ پکڑ کر ان کو آگے کیا‘ جنہوں نے مختصر تلاوت کے ساتھ نماز مکمل کی۔
نماز کے بعد آپؓ نے پوچھا :میرا قاتل کون ہے؟ تو آپ کو بتایا گیا کہ حضرت مغیرہؓ کا غلام۔ پوچھا وہی چکی بنانے والا مجوسی کاریگر؟ بتایا گیا: جی ہاں۔ فرمایا: میں نے اس بدبخت کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا تھا‘ مگراللہ اسے تباہ وبرباد کرے اس نے یہ بدلہ دیا‘ تاہم میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ کسی مومن کے دامن پر میرے خون کا دھبہ نہیں ہے۔ آپ کو کھجور کا شربت پلایا گیا‘ مگر وہ پیٹ کے زخم سے باہر نکل گیا‘ دودھ پیش کیا گیا‘ اسے آپ نے پیا تو وہ بھی اسی طرح زخم سے باہر نکل گیا۔ سب لوگ سمجھ گئے کہ اب امیرالمومنین کا بچنا ممکن نہیں۔ سب کی زبانوں پر آپ کے مناقب اور خوبیاں تھیں۔ اس دوران آپ کو اس بات کی فکر لاحق ہوئی کہ آپ پر جو قرض ہے‘ اس کی ادائی کا انتظام ہو۔ آپ نے اپنے بیٹے عبداللہ بن عمرؓ سے کہا: بیٹے! میرے اوپر کتنا قرض ہے؟ انہوں نے عرض کیا تقریباً 86ہزار درہم۔
آپؓ نے آخری لمحات میں بہت عظیم الشان روایات قائم کیں۔ آپؓ نے فرمایا: میرے اور میری اولاد کے مال میں سے اس قرض کو ادا کردیا جائے‘ اگر پھر بھی قرض بچ جائے تو بنوعدی بن کعب سے مدد لینا۔ اگر پھر بھی ادائی پوری نہ ہو تو قریش سے مدد کے لیے کہنا۔ ان کے علاوہ کسی اور سے کچھ نہ کہنا۔ حضرت عبداللہؓ نے فرمایا: اباجان! ہمارے پاس اتنی دولت ہے کہ یہ قرض ہم آسانی سے ادا کردیں گے۔ اس پر آپؓ کو اطمینان ہوا‘ پھر فرمایا: عبداللہ! ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کے پاس جاؤ اور انہیں کہنا کہ عمرؓ آپ کو سلام کہتا ہے‘(امیرالمومنین نہ کہنا) پھر عرض کرنا عمرؓ آپ سے درخواست کرتا ہے کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ حجرے کے اندر دفن کردیا جاؤں۔ حضرت عبداللہؓ ام المومنین کے پاس پہنچے تو وہ شدت غم سے رو رہی تھیں۔ جب انہیں پیغام ملا تو فرمایا: وہ جگہ تو میں نے اپنے لیے رکھی تھی‘ مگر میں عمرؓ کو اپنے آپ پر ترجیح دیتی ہوں اور بخوشی اجازت دے دی ۔
جب حضرت عبداللہؓ واپس آئے تو انھیں دیکھ کر فرمایا: مجھے اٹھا کر بٹھا دو۔ پھر پوچھا عبداللہ کیا خبر ہے؟ عرض کیا آپ کی آرزو کے مطابق‘ اماں جی نے اجازت دے دی ہے۔
حضرت عمرؓ کی عظمت ہے کہ اس اجازت کے باوجود فرمایا: جب میں آخری سانس لے کر موت کی وادی میں پہنچ جاؤں تو پھر ام المومنین سے عرض کرنا‘ خطاب کا بیٹا عمر آپ کو سلام کہتا اور آپ سے حجرے میں تدفین کی اجازت چاہتا ہے۔ اگر وہ اجازت نہ دیں تو مجھے عام مسلمانوں کے ساتھ قبرستان میں دفن کردینا۔ یہ اس لیے فرمایا تھا کہ سیدہ عائشہؓ زندہ عمر کو اجازت دے رہی تھیں تو اس کی موت کے بعد بھی اس کی توثیق ہوجائے۔ آخر وقت میں بے شمار لوگ آپؓ کی عیادت اور سلام عرض کرنے کے لیے حاضر ہورہے تھے۔ہجوم کی وجہ سے وہاں ٹھہرنے کی بجائے مسلسل گزرتے جارہے تھے۔ ایک نوجوان آپ کے پاس سے سلام کرکے گزرا تو دیکھا کہ اس کا تہبند زمین پر لٹک رہا ہے۔ فرمایا: نوجوان کو واپس بلاؤ۔ پھر اس سے کہا: اے بھتیجے! اپنے ازار کا پلّو اوپر اٹھا لو۔ یہ تمھارے لباس کے لیے طہارت کا باعث ہوگا اور تمہاارے دین کے لیے پاکیزگی کا سبب بنے گا۔ کیا عظیم شخصیت تھی۔ آپؓ کی رائے کی تائید میں کئی بار آیاتِ قرآنی نازل ہوئیں۔ آخری لمحوں میں بھی حقِ نصیحت ادا کیا۔
ایک روایت کے مطابق ‘آپؓ نے فرمایا: اگر عبیدہؓ زندہ ہوتے تو میں ان کو نامزد کردیتا۔ پھر انھی چھ صحابہؓ کو مشاورتی کمیٹی کا رکن مقرر کیا جن کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ چنانچہ ان صحابہؓ نے مشاورت کی‘ مگر مجلس میں فیصلہ نہ ہوسکا کیونکہ آرا برابر برابر تھیں۔ اس پر حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا کہ مجھے اگر آپ لوگ اجازت دیں تو میں عام مسلمانوں سے رجوع کروں اور ان کی رائے مجلس میں آکر پیش کردوں؛ چنانچہ اس پر اتفاق ہوا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے بڑی محنت کے ساتھ یہ فریضہ سرانجام دیا۔ گھروں میں بیٹھی ہوئی پردہ نشین خواتین سے بھی اس مسئلے پر رائے مانگی۔ عام مسلمانوں سے حتیٰ کہ چراگاہوں میں مویشی چرانے والے چرواہوں سے اور راستہ گزرنے والے قافلوں سے بھی رائے مانگی۔ پھر دو دن بعد آکر رپورٹ دی کہ لوگوں کی رائے دو صحابہ کے حق میں آئی ہے۔ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ۔ حضرت عثمانؓ کے حق میں زیادہ تعداد میں آرا آئی ہیں‘ لہٰذا حضرت عثمانؓ کی خلافت کا اعلان کرتا ہوں۔ سب لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔
آپؓ کی نماز جنازہ حضرت صہیب بن سنانؓ (رومی) نے پڑھائی۔ نماز جنازہ کے بعد آپ کو حجرۂ رسولؐ میں سیدالمرسلین وخاتم النبینؐ اور یارِ غار‘ انبیا کے بعد ساری بنی نوعِ آدم سے افضل شخصیت سیدنا ابوبکرؓ کے پہلو میں دفن کردیا گیا۔