تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     03-09-2019

اچھے اور بُرے نہیں‘ اچھائی اور بُرائی!

بعض خرابیاں اِس بُری طرح ہماری زندگی کا حصہ ہیں کہ اُن سے گلو خلاصی دردِ سر میں تبدیل ہوچکی ہے۔ بُری عادتوں کی طرح بُرے خیالات بھی انسان کے لیے عذاب ہی کی صورت ہوتے ہیں۔ بُرے یا منفی خیالات کے بطن سے ایسے عقائد جنم لیتے ہیں‘ جو ذہن کو جامد کردیتے ہیں۔ ہم بہت کچھ جانتے ہوئے بھی اصلاحِ احوال کے حوالے سے کچھ نہیں کر پاتے۔ 
اب یہی دیکھیے کہ دنیا میں کوئی ایک انسان بھی ہر اعتبار سے جامع نہیں‘ بے عیب نہیں ‘مگر پھر بھی ہم بے عیب انسان تلاش کرتے رہتے ہیں! ہر انسان کسی نہ کسی اعتبار سے ادھورا ہے۔ اُس میں کوئی نہ کوئی خامی یا خرابی ضرور پائی جاتی ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ کسی بھی انسان میں خوبیوں اور خامیوں کا تناسب کیا ہے اور وہ بڑی حد تک دوسروں کے لیے کارآمد ہے یا ناکارہ۔ 
ہم زندگی بھر ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں‘ جن میں کوئی کھوٹ نہ پائی جائے‘ جبکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھری دنیا میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں‘ جس میں کوئی کھوٹ نہ ہو۔ کیا سبب ہے کہ اس حوالے سے ہماری سوچ بدلنے کا نام نہیں لیتی؟ ہم اپنی خامیوں‘ کمزوریوں اور کوتاہیوں سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود اپنے آپ کو بھی بے عیب ثابت کرنے کی کوشش کیوں کرتے رہتے ہیں؟ اتنے سے نکتے پر غور کرنے کی توفیق کیوں نصیب نہیں ہوتی کہ اگر سبھی بے عیب یا جامع ہوتے تو کسی کو کسی کی ضرورت نہ ہوتی اور یوں دنیا کا کارخانہ بند ہو جاتا! ذرا سوچئے کہ اگر سبھی بے عیب اور اپنی اپنی ضرورت کے مطابق ‘جامع ہوں تو تعلقات کی نوعیت کیا رہ جائے گی؟ جب کسی کو کسی کی ضرورت ہی نہیں رہے گی ‘تو دنیا کی ساری نیرنگی اور خوب صورتی دم توڑ دے گی۔ یہ بات سمجھنے کے لیے کسی کا آئن سٹائن ہونا لازم نہیں کہ اس دنیا کی ساری رونق اس حقیقت کے دم سے ہے کہ کوئی بھی ہر اعتبار سے جامع نہیں اور مختلف خامیوں اور کمزوریوں کے باعث ہی ہمیں ایک دوسرے سے مدد لینا پڑتی ہے۔ ایک دوسرے کا حاجت مند رہنا ہی وہ حقیقت ہے ‘جس نے دنیا کی رنگینی کو برقرار رکھا ہے۔ 
ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہم اوروں میں بہت کچھ تلاش کرتے ہیں‘ مگر وہی کچھ اپنے اندر پیدا کرنے اور پروان چڑھانے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہم دوسروں میں بہت کچھ چاہتے ہیں تو دوسروں کو بھی تو ہم میں بہت کچھ درکار ہوگا۔ جو کچھ ہم دوسروں میں دیکھنا چاہتے ہیں ‘وہی کچھ دوسرے ہم میں دیکھنے کے خواہش مند ہوں گے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اُسے جو دوست ملے‘ وہ ہر اعتبار سے مکمل شخصیت ہو۔ وہ اس نکتے پر بھی تو غور کرے کہ جو اُس سے دوستی کرنا چاہے گا‘ وہ بھی تو اُس میں جہان بھر کی خوبیاں دیکھنے کا خواہش مند ہوگا۔ یہ معاملہ دو طرفہ ٹریفک جیسا ہے‘ یعنی تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔ 
کائنات کا نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ کوئی بھی مکمل اور جامع نہ ہو۔ اگر ہر چیز اپنی جگہ جامع ہو تو جو کچھ بھی کائنات میں ہے‘ وہ ایک دوسرے سے یکسر بے تعلق سا ہوکر رہ جائے۔ کائنات کی نیرنگی اِس حقیقت کے دم سے ہے کہ سب ایک دوسرے سے جُڑے ہیں اور ایک دوسرے کے‘ کسی نہ کسی حد تک‘ ضرورت مند ہیں۔ 
بے عیب انسانوں کی تلاش بہت خطرناک معاملہ ہے ‘کیونکہ جب ہم کسی میں مکمل جامعیت تلاش کرتے ہیں تو کوئی چھوٹی سی خرابی بھی ہمیں آگے بڑھنے سے روک دیتی ہے۔ اگر ذہن میں یہ نکتہ کیل کی طرح گڑ یا ٹُھنک جائے کہ صرف اُسی کو اپنانا ہے جو ہر اعتبار سے جامع ہو تو پھر ہم بہت سے ایسے لوگوں کو نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں ‘جو ہماری زندگی میں معنویت پیدا کرنے کی اچھی خاصی صلاحیت و سکت کی حامل ہوں۔ انسانوں کی طرح یہ معاملہ چیزوں کا بھی ہے۔ کسی جامع چیز کی تلاش میں ہم بہت سی کام کی چیزوں کو خواہ مخواہ مسترد کرتے چلے جاتے ہیں۔ انتہائی نوعیت کی سوچ اپنانے سے ایسا ہی ہوتا ہے۔ 
معاشرے کا ایک عمومی چلن یہ ہے‘ یعنی لوگ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اچھوں کو اپناؤ اور بُروں سے دامن چھڑاؤ۔ یہ اپروچ اچھی خاصی حد تک غلط‘ بلکہ بے بنیاد ہے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر اعتبار سے مکمل کوئی نہیں۔ سبھی کسی نہ کسی حد تک خامیوں اور کمزوریوں کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے میں دانش کا تقاضا یہ ہے کہ ہر انسان کی خوبیوں کو شناخت کرکے سراہا اور اپنایا جائے اور اُس میں جو کچھ بھی بُرا ہے وہ چھوڑ دیا جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی میں کوئی معمولی سی خرابی یا کمزور دکھائی دے جائے تو ہم اُسے مکمل طور پر مسترد کردیتے ہیں۔ کسی ایک خامی کی بنیاد پر کسی کے پورے وجود کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے‘ نہ مسترد۔ یہ انتہائی رویہ ہے جو ترک کیا جانا چاہیے۔ اس حوالے سے ذہنی تیاری کی ضرورت ہے۔ ہر انسان کو اپنے وجود میں زیادہ سے زیادہ خوبیاں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے‘ مگر ہر اعتبار سے جامع قرار دیئے جانے کی خواہش بے جا ہے‘ غیر ضروری ہے۔ ہم ہر اعتبار سے جامع نہیں ہوسکتے۔ اور اس کوشش میں اُن تھوڑی بہت خوبیوں کو بھی غارت کردیتے ہیں ‘جو قدرت نے ہمیں عطا کی ہوتی ہیں۔ 
دانش کہتی ہے کہ جو کچھ قدرت نے ہمیں عطا کیا ہے‘ اُسے بہ طریقِ احسن بروئے کار لانے پر متوجہ رہنا چاہیے۔ اسی صورت ہم اپنے ماحول اور مجموعی طور پر پورے معاشرے کے لیے بہت حد تک مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ ذرا سی کمی محسوس ہونے پر کسی کا پورا وجود مسترد کرنا ایسی انتہا پسندی ہے‘ جو دوسروں کے ساتھ ساتھ ہمارے اپنے وجود کو بھی متاثر کرتی ہے۔ جب ہم کسی کمی یا خامی کے باعث کسی کو مسترد کرتے ہیں تو اُس کی خوبیوں سے استفادہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہتے‘ یعنی جو تھوڑا بہت کسی سے حاصل کیا جاسکتا تھا‘ اُس سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ 
زندگی ہم سے ہر معاملے میں اعتدال پسندی کا تقاضا کرتی ہے۔ رشتوں اور تعلقات کے حوالے سے بھی انتہائی سوچ اپنانا خطرناک ہے۔ جس میں جتنی اچھائی ہے وہ اپنائی جانی چاہیے اور جتنی بُرائی ہے اُسے چھوڑ دینا ہی بہتر ہے۔ جنہیں ہم اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہتے ہیں ‘وہ ہماری ہی طرح کے انسان ہیں۔ جو کچھ ہم میں ہے وہی کچھ اُن میں بھی ہے۔ اگر ہم چند خرابیوں کی بنیاد پر لوگوں کو ٹھکراتے چلے جائیںتو گزار چکے زندگی۔ ہمیں بہت سے معاملات میں اصولوں پر تھوڑا بہت سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔ اصولوں پر کیا جانے والا ہر سمجھوتا ایسا نہیں ہوتا کہ انسان کی پوری اخلاقی حیثیت کو داؤ پر لگادے۔ کہیں کہیں اصولوں کو نرم رکھتے ہوئے کام کرنا پڑتا ہے۔ دنیا کا کاروبار اِسی طور چلتا ہے۔ ہمیں اپنے ماحول میں موجود لوگوں کو اُن کی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کرنا پڑتا ہے۔ کسی کی اچھائیوں کو قبول کرنا اور بُرائیوں کو مسترد کرنا ہوتا ہے۔ جامع ترین انسانوں کی تلاش میں سرگرداں رہنے والے اگر اپنے وجود کا جائزہ لیتے ہوئے حقیقت پسندی کی راہ پر گامزن ہوں تو توازنِ فکر و عمل کی منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ بے عیب انسان تلاش کرنے اور اِس معاملے میں اصولوں پر سمجھوتا نہ کرنے‘ یعنی لچک نہ دکھانے والے بالآخر تنہا رہ جاتے ہیں۔ ایسے انجام سے بچنے کی کوشش لازم ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved