تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     04-09-2019

قائداعظم اور سری نگر کا خورشید

یہ سری نگر میں پیدا ہونے والے ایک نوجوان کی کہانی ہے ‘جس کے دل میں کچھ کر گزرنے کی لگن تھی‘ جو آزادی کی تحریک میں پیش پیش تھا‘ جو سری نگر میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانیوں میں سے تھا‘ جو قائداعظم محمد علی جناح کا دیوانہ تھا اور پھر جسے اپنے اس خواب کی تعبیرمل گئی جو اس نے دیکھا بھی نہ تھا۔ یہ نوجوان کے ایچ خورشید تھا ‘جو بعد میں آزاد کشمیر کا صدر بنا ‘لیکن یہ ان دنوں کی بات ہے جب خورشید کی کل متاع اس کا آزادی کا جذبہ تھا‘ اس جذبے کی آنچ سے اس نے سری نگر کے نوجوانوں کو متحرک کر دیا تھا ۔ یہ نوجوان قائد اعظم کی فوج کا ہراول دستہ تھے ‘جو اپنے قائد کے اشارے پر سب کچھ قربان کرنے کو تیار تھے۔ خورشید بھی ان میں سے ایک تھا ‘لیکن ان سب میں ممتاز۔
قدرت نے اس کو تحریر اور تقریر کی صلاحیتیں دی تھیں ‘وہ کالج کی طرف سے مختلف تقریری مقابلوں میں حصہ لیتا‘ اس کے ساتھ ہی وہ ایک نیوز ایجنسی کیلئے بھی کام کرتا تھا۔ اب اس کی تمام تر صلاحیتوں کا ہدف ایک آزاد ملک کا حصول تھا‘ جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور قائداعظم جس کی تعبیر کیلئے سر گر داں تھے۔ خورشید کیلئے وہ دن ایک یادگار دن تھا جب قائداعظم نے اپنے ہاتھوں سے خورشید کو مسلم لیگ کا پرچم دیا تھا‘ لیکن ابھی وہ دن آنا باقی تھا جس نے خورشید کی زندگی میں اہم کردار ادا کرنا تھا۔ خورشید صاحب نے قائداعظم کے بارے میں اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں اُس دن کوبڑی رسان سے یاد کیا ہے۔ لیکن اس سے کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ 1944ء کے مئی کا ایک دن تھا جب خورشید سیالکوٹ میں تھا‘ جہاںقائداعظم نے ایک جلسے سے خطاب کرنا تھا۔وہیں خورشید کو اطلاع ملی کہ قائداعظم نے اگلے ہفتے سری نگر آنا ہے۔ خورشید بلاتاخیر سری نگر پہنچ گیا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمانوں کی دو بڑی پارٹیاں‘ آل جموں اینڈ کشمیر نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس اپنے اپنے پلیٹ فارم پر کام کر رہی تھیں ۔اس دورے کی دلچسپ بات یہ تھی کہ قائداعظم نے دونوں پارٹیوں کے استقبالیہ اجتماعات میں شرکت کی۔ قائداعظم نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کو اتحاد کی تلقین کی۔ قائداعظم نے سر ی نگر میں کچھ دنوں تک قیام کیا اور نیوز ایجنسی رپورٹر کی حیثیت سے خورشید کو اعلیٰ سیاسی عہدہ داروں سے ملاقات کا موقع ملتا رہتا تھا‘ لیکن قائداعظم کا معاملہ دوسرے سیاست دانوں سے مختلف تھا ۔ان تک رسائی کے لئے ٹھوس وجہ کا ہونا ضروری تھا۔
یہ 26جون کا ایک روشن دن تھا جب حسبِ عادت خورشید نے ریڈیو پر آٹھ بجے کا نیوز بلیٹن سنا‘جس میںبتایا گیا تھا کہ بہادر یار جنگ انتقال کر گئے ہیں۔ خورشید نے سوچا اس خبرکی اطلاع قائداعظم کو ملنی چاہیے تاکہ خبر پر ان کا ردعمل لیا جا سکے۔ یہ اس کی صحافتی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا حصہ بھی تھا ۔خبر سن کر قائداعظم کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور ان کی زبان سے بے ساختہ نکلا ''یہ کیسے ممکن ہے‘‘۔ اس سے ان کی بہادر یارجنگ سے وابستگی ظاہر ہوتی تھی۔ قائداعظم نے خورشید سے کہا کہ وہ اس خبر کی تصدیق کے بعد ردعمل دیں گے۔ اسی روز یہ خبر سن کر چوہدری غلام عباس اور اے آر ساغر بھی قائداعظم کی رہائش گاہ پر آئے‘ خورشید بھی ان کے ہمراہ تھا۔ اب خبر کی تصدیق ہو گئی۔ ملاقات کے بعد جب سب اٹھ کر جانے لگے تو قائداعظم نے خورشید کو رکنے کا کہا اور پھر اپنے سیکرٹری کو اپنا ردعمل ڈکٹیٹ کرایا۔ اچانک قائداعظم نے خورشید کی طرف دیکھا اور کہا :کیا تم میرا پرائیویٹ سیکرٹری بننا پسند کرو گے؟خورشید کو ایک لمحے کو یوں لگا کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے‘ لیکن وہ خواب نہیں تھا ۔اس سے پہلے کہ خورشید کوئی جواب دیتا قائداعظم نے کہا :تم اچھی طرح سوچ لو اور یہ بھی کہ تم کتنی تنخواہ کی توقع کر رہے ہو۔ خورشید نے اپنے دوستوں سے ذکر کیا تو ان میں سے ایک نے کہا :اس میں سوچنا کیسا‘ اگر مجھے قائداعظم کا پٹھان گارڈ زین گل بھی اپنا پرائیویٹ سیکرٹری رکھ لے تو میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھوں گا ۔کچھ دن گزرنے کے بعد4 جولائی 1944 ء کو خورشید نے قائداعظم کو بتایا کہ وہ 100 روپے ماہانہ پرملازمت کیلئے تیار ہے۔ قائداعظم کے چہرے پر مسرت کی ایک جھلک آئی اور گزر گئی۔ قائداعظم نے کہا:باقی جگہوں پر تو تمہیںرہائش ملے گی‘ لیکن ممبئی اور دہلی میں تمہیں اپنا بندوبست کرنا ہو گا۔
خورشید نے ان شرائط کے ساتھ قائداعظم کے ہمراہ اپنے سفر کا آغاز کیا‘ جو 1944ء سے1947ء تک کے عر صے پر محیط ہے۔ اس میں خورشید کو قائداعظم کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اس نے دیکھا کہ قائد وقت کے انتہائی پابندہیں۔ وہ ایک کھرے اور سچے سیاست دان ہیں‘ دوسرے سیاست دانوں کی اکثریت کے برعکس جن کی گھٹی میں منافقت ہوتی ہے۔قائد کے کچھ اصول تھے جن پر وہ سختی سے عمل کرتے تھے ۔ایک بار خورشید نے خود بھی قائد کا غصہ دیکھا‘ ہو ا یوں کہ ایک فوٹو گرافر نے خورشید سے کہا کہ وہ قائد کے گھر کی تصویر بنانا چاہتا ہے۔ اس نے خورشید سے مکان کے عقبی حصے میں داخل ہو کر تصویر بنانے کی اجازت چاہی ۔ خورشید نے اسے عام سی بات سمجھ کر اجازت دے دی‘ لیکن اسے خبر نہیں تھی کہ محترمہ فاطمہ جناح کی تیز بین نگاہیں یہ دیکھ رہی تھیں ۔ انہوں نے ساری بات قائداعظم کو بتائی ‘خورشید کی طلبی ہوئی تو خورشید نے وضاحت کی‘ اس پر قائد نے سخت لہجے میں کہا: جب اس سلسلے میں واضح ہدایات موجود تھیںتو فوٹو گرافر کو اندر آنے کی اجازت کیوں دی گئی؟خورشید نے دیکھا کہ قائد کو اپنے اردگرد کے لوگوں کا خاص خیال ہوتا۔ ملازمت کے کچھ دنوں بعد قائد نے خورشید کی تنخواہ میں50 فیصد اضافہ کر دیا۔ خورشید بمبئی کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کوئی ان کا دوست نہیں تھا اور وہ تنہا لمبی واک پر نکل جاتے تھے۔ایک دن قائداعظم نے خورشید سے پوچھ لیا: ینگ مین !تم یہاں خود کوتنہا تو محسوس نہیں کرتے؟ پھر خود ہی کہنے لگے: دوستوںکے انتخاب میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے‘ اس نصیحت کے پیچھے شاید قائد کی اپنی زندگی کے تجربات بھی ہوں گے‘ جب ان کے قریبی رفقا نے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔
قائد کو زبان و ادب سے خاص لگائو تھا‘ ایک روز انہوں نے بتایا کہ سکول کے زمانے میں انہوں نے فارسی پڑھی تھی‘ گجراتی ان کی اپنی زبان تھی‘ اردو انہوں نے شعوری طور پر سیکھی‘ تا کہ عوام کے ساتھ ان کا رابطہ ہو سکے‘ انگریزی زبان پر ان کی دسترس تھی۔ ایک بار انہوں نے خورشید سے پوچھا :کیا تم نے شیکسپیئر کو پڑھا ہے؟ خورشید نے جواب دیا جی کچھ ڈرامے پڑھے ہیں ۔قائد نے کہا: اب ایک بار پھر پڑھو‘ الفاظ کا ذخیرہ اور ان کا درست چنائو شیکسپیئر کے ہاں ملتاہے۔خورشید نے کہا کہ قائداعظم کو صرف دو موقعوں پر ویبسٹر ڈکشنری کا استعمال کرتے دیکھا‘ ایک بار انہوں نے Absolute Majorityکے معنی و مفہوم دیکھنے کیلئے ڈکشنری کا استعمال کیا اور دوسری بار عید الفطر کے موقع پر ایک پیغام جاری کرنے سے پہلیدیکھا کہ'' To Close Ranksـــ‘‘ کا استعمال صرف آرمی کیلئے ہوتا ہے یا عام معنوں میں بھی استعمال ہو سکتا ہے۔
خورشید نے قائد کو ہر حال میں ایک مستقل مزاج‘ راست گو‘ محنتی‘ ذہین اور ہمدرد شخص کے روپ میں دیکھا‘جس نے تنہا ہندوئوں اور انگریزوں کے مقابلے میں ایک علیحدہ ملک کی جنگ لڑی۔ وہ تصور جسے سب دیوانے کا خواب کہتے تھے‘ قائد کے عزمِ صمیم سے حقیقت بن گیا ۔پاکستان بننے کے ایک سال بعد قائد اعظم کا انتقال ہو گیا۔ 1988ء میں خورشید بھی ایک حادثے میں چل بسے ‘یقینا دونوں کی روحیں ایک طویل اور تھکا دینے والے سفر کے کامیاب اختتام پر شانت ہوں گی۔ شاید کبھی کبھار گرمیوں کی طویل دوپہروں اور سردیوں کی لمبی راتوں میں خورشید کو قبرستان کی گمبھیر خاموشی میں قائد کی مانوس آوازآتی ہو گی''ینگ مین! تم خود کو یہاں تنہا محسوس تو نہیں کرتے؟‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved