غضب خدا کا ملک کے طول و عرض میں کوئی ایک کونا ڈھونڈے سے نہیں مل سکتا جہاں ملاوٹ‘ جھوٹ اور مکروفکریب نہ ہو۔ نیت سے لے کر معیشت تک ہر طرف دھوکہ ہی دھوکہ‘ فریب ہی فریب۔ حکمرانوں کے اعلانات اور فیصلوں سے لے کر اشیائے خورونوش تک سبھی میں ملاوٹ ہی ملاوٹ۔ حکمرانوں کے فیصلے بناوٹ اور ملاوٹ میں لتھڑے ہوں گے تو یہی کچھ ہو گا جو ہر طرف نظر آرہا ہے۔ ایک فرمان ہے کہ ''لوگوں کو ان کی عبادات سے نہیں ان کے معاملات سے پہچانو‘‘۔ ہمارے معاملات کی ایک جھلک پیشِ خدمت ہے ''دودھ میں ملاوٹ‘ خوراک میں ملاوٹ‘ ادویات میں ملاوٹ‘ سیمنٹ میں ملاوٹ‘ میک اَپ کے سامان سے لے کر آلات و تعمیرات میں ملاوٹ‘ مکر و فریب اور دھوکہ دہی پر چلنے والے یہ سارے دھندے نان سٹاپ‘ انتہائی ڈھٹائی اور زور و شور سے چلائے جا رہے ہیں۔
معصوم بچوں کی بنیادی خوراک دودھ سے لے کر جان بچانے والی ادویات تک سبھی کچھ بے حیائی اور سفاکی سے بیچنے والے سوداگر معاشرے میں انتہائی ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ انسدادِ ملاوٹ کے نظام اور قوانین کے باوجود ''مُک مُکا اور چمک‘‘ نے تمام اخلاقی اور سماجی قدروں کو دفنا دیا ہے اور متعلقہ قوانین ان سوداگروں کے گھروں کی باندی بنا ڈالے ہیں۔ جب متعلقہ ادارے قوانین پر عمل درآمد کے بجائے کنسلٹنسی اور سہولت کاری کو نصب العین بنا لیں تو پھر اس معاشرے کا اﷲ ہی حافظ ہوتا ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ مسجدیں نمازیوں سے کھچاکھچ بھری نظر آتی ہیں۔ جمعۃ المبارک کی نماز کے اجتماعات مسجدوں سے نکل کر سڑکوں‘ پارکوں اور گرین بیلٹوں تک پھیلے نظر آتے ہیں۔ رمضان المبارک میں بھی مسجدیں نمازیوں کے لیے ناکافی پڑ جاتی ہیں۔ جہاز بھر بھر کر عمرے اور حج پر جانے والے مسلمان بھی عبادات تو بھاگ بھاگ کر کرتے ہیں لیکن ان کے اعمال اور کردار سے ان عبادات کی جھلک کہیں نظر نہیں آتی۔ چند روز قبل برادرِ محترم حسن نثار نے اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں برناڈ شا کے حوالے سے ایک ایسا فقرہ کوٹ کیا تھا اور پروگرام ختم ہونے کے بعد بھی میں اس فقرے کے اثرات سے باہر نہ آ سکا تھا۔ وہ فقرہ کچھ یوں تھا کہ ''اسلام دنیا کا بہترین مذہب ہے اور مسلمان بد ترین فالورز‘‘۔
تحریک انصاف کے انتخابی دعووں سے لے کر حکومت میں آنے کے بعد کیے جانے والے وعدوں اور اقدامات کا نصف بھی اگر سچ ہو جاتا تو بخدا صورتحال اتنی مایوس کن ہرگز نہ ہوتی۔ عوام کو روٹی کے لالے تو ویسے ہی پڑے ہوئے تھے۔ روٹی پوری کرتے ہیں تو یوٹیلٹی بلز دیکھ کر بلبلا اُٹھتے ہیں۔ ادویات کی قیمتیں پہنچ سے دور پا کر اکثر مریض خود کو یہ دلاسے دیتے بھی دکھائی دیتے ہیں ''دوائی نہ وی کھاواں گے تے کی ہوووے گا‘ موت تے اپنے وقت تے اِی آؤنی اے‘‘۔ یعنی ادویات بھی مریضوں کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں اور اس پر ستم یہ کہ حکومتِ پنجاب نے ٹیچنگ ہسپتالوں میں نجکاری کا آرڈیننس جاری کر دیا ہے‘ جس کے تحت ہسپتال سرکار کے بجائے اب پرائیویٹ لوگ چلائیں گے۔ ٹیچنگ ہسپتالوں میں پرنسپل اور ایم ایس سمیت کئی اہم عہدے ختم کر دئیے گئے ہیں اور پرائیویٹ لوگوں پر مشتمل بورڈ ہسپتال چلانے کے لیے تقرری اور تعیناتیاں کریںگے‘ جبکہ مستحق اور نادار مریضوں کا مفت علاج معالجہ بھی اسی بورڈ کا صوابدیدی اختیار ہو گا۔
1998ء میں سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف ٹیچنگ ہسپتالوں میں کم و بیش یہی ماڈل نافذ کرکے ناکام کروا چکے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے ہسپتالوں میں اس ماڈل کے ثمرات اور فیض کے چشمے عوام پہلے ہی بھگت رہے ہیں۔ ٹیچنگ ہسپتالوں میں کام کرنے والے سرکاری ڈاکٹرز اور دیگر عملے کا سروس سٹرکچر آدھا تیتر آدھا بٹیر ہونے جارہا ہے‘ جبکہ خودمختار بورڈ کے آگے سرکار اور وزارتِ صحت کی حیثیت کیا ہوگی؟ اور عوام کی کیا گت بننے جارہی ہے‘ وہ سب نوشتۂ دیوار ہے۔ بے وسیلہ اور مستحق مریضوں کی بورڈ تک رسائی کیونکر ہوگی اور انہیں علاج معالجہ کی مفت سہولیات کیسے مل سکیں گی‘ ان سوالات کا جواب نہ تو وزیرصحت کے پاس ہے اور نہ ہی ان کے قریبی رفقا اور مشیروں کے پاس۔ دور کی کوڑی لانے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ماڈل ایک ڈاکٹر صاحب کی ضد اور خواہش پوری کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ اس تناظر میں یہ کہنا قطعی بے جا نہ ہو گا کہ ڈاکٹر برکی کی برق بالآخر عوام پر گرا دی گئی ہے۔
صوبائی وزیر صحت ساری عمر پی ایم اے کی سیاست کرتی رہی ہیں۔ لگتا ہے‘ یہی معاملہ وہ موجودہ وزارت کے ساتھ بھی کر رہی ہیں۔ ایک سال گا‘ گے‘ گی کی گردان کے بعد بھی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ شعبہ صحت کے معاملات سب کے سامنے ہیں‘ گزشتہ ایک سال کے دوران اس میں کیے گئے فیصلے اور اقدامات بھی اور ان سے نکلنے والے نتائج بھی۔ میں ذاتی طور پر حیرت کا شکار ہوں کہ محکمہ صحت کے معاملات میں مناسب بہتری کیوں نہیں لائی جا سکی۔ گزشتہ ایک سال کے دوران سرکاری ہسپتالوں کی صورتحال یہ رہی کہ مریضوں کے لیے ذلت‘ دھتکار اور پھٹکار کے غیر انسانی منظر جا بجا آج بھی نظر آتے ہیں۔
بد دیانتی صرف مالی ہی نہیں ہوتی انتظامی بھی ہوتی ہے اور انتظامی بد دیانتی کے نتائج اور خمیازے آنے والی نسلوں کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ یہ قوم تو ابھی سابقہ حکمرانوں کی بد دیانتیوں کے خمیازے اور قیمتیں ہی نہیں چکا پا رہی۔ موجودہ حکومت نے ان خمیازوں کا مزید بوجھ عوام پر ڈال دیا ہے۔ ابھی تو بلی تھیلے سے باہر آنی ہے... ٹیچنگ ہسپتالوں کے انتظامی بورڈز بننے ہیں اور یہ بورڈز بھی پرائیویٹ افراد پر مشتمل ہوں گے۔ ان بورڈز میں کون کون ہو گا‘ کس کس کو نوازا جائے گا‘ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ غیر منتخب‘ غیر موزوں اور عوام کے مسترد کیے ہوئے درجنوں افراد کو پہلے ہی سرکاری اداروں میں کھپایا جا چکا ہے‘ جن کی اہلیت نا معلوم اور کارکردگی تا حال صفر ہے۔ حکومت کے پاس ایک سنہری موقع اور آنے والا ہے۔ چہیتوں اور منظور نظر افراد کو نوازنے کے لیے نیا ''فلڈ گیٹ‘‘ کھلنے جا رہا ہے‘ جس میں بچے کھچے اور اپنی باری کے منتظر کھلاڑیوں کی باریاں با آسانی لگوائی جا سکیں گی۔
عوام اور ہسپتال کا کیا ہے؟ عوام کو پہلے ہی کون سی سٹیٹ آف دی آرٹ سہولیات میسر تھیں‘ انہیں پہلے بھی دھکے ملتے تھے اور وہ دھکے کھا کھا کر عادی ہو چکے ہیں۔ ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے دھتکار اور پھٹکار نہ بھی ختم ہوئی تو کیا ہوگا؟ کھلاڑیوں کی باریاں لگنی چاہئیں بس! میرے خیال میں اس حکومتی اقدام کے بعد وزارتِ صحت کا سیکنڈری شعبہ عملی طور پر پرائیویٹ افراد کے ہاتھوں میں چلا جائے گا جبکہ پرائمری ہیلتھ کے شعبے سے بھی جان چھڑوانے کے لیے حکومتی چیمپئن مصروفِ عمل ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب اس کی باری کب آتی ہے؟ ٹیچنگ ہسپتالوں کو پرائیویٹ بورڈز کے حوالے کرنے کے فیصلے کے بعد یہ راز افشا ہو چکا ہے کہ حکومت عوام کو صحت عامہ کی سہولتیں فراہم کرنے سے نہ صرف قاصر ہے بلکہ راہِ فرار اختیار کر چکی ہے۔ تعجب ہے! ''چارہ گر چارہ گری سے بھاگ رہے ہیں‘‘ ؎
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دُکھ تھے‘ بہت لا دوا نہ تھے
آفرین ہے فیصلہ سازوں اور حکومتی چیمپئنز پر کہ انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ ان کے اس اقدام سے بیماروں پہ کیا گزرے گی؟ ٹیچنگ ہسپتالوں میں رائج الوقت نظام 2003ء میں پرویز الٰہی دور میں متعارف کروایا گیا‘ جس میں صرف احساس و اخلاص کی کمی کو پورا کر لیا جاتا تو عوام کے لیے یہ سسٹم بہترین ثابت ہو سکتا تھا۔ بد قسمتی سے یہاں بھی حکمرانوں کے فیصلے دوسرے فیصلوں کی طرح ملاوٹ زدہ ہی ثابت ہوئے۔ ان کے دعوؤں اور وعدوں میں اگر ملاوٹ نہ ہوتی تو آج یہ اپنی اُن ذمہ داریوں سے نہ بھاگتے جن کا بیڑا اٹھانے کے لیے عوام نے انہیں مینڈیٹ دیا تھا۔ آنے والے وقتوں میں اس انتظامی بد دیانتی کا خمیازہ بہرحال عوام نے ہی بھگتنا ہے اور منظر نامہ بھی کچھ یوں ہی ہو گا: ؎
اک اک کر کے مر گئے سارے سب چیخیں خاموش ہوئیں
بستی کا رکھوالا سمجھا روگ کٹے بیماروں کے