تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     04-09-2019

سرخیاں‘ متن اور شعر و شاعری

حکومت کشمیر پر مگر مچھ کے آنسو بہا رہی ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت کشمیر پر مگر مچھ کے آنسو بہا رہی ہے‘‘ اور میرا خیال ہے کہ مگر مچھ کو ابھی اس بات کا علم نہیں‘ ورنہ وہ خود ان سے حساب کتاب کر لیتا اور کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ حکومت کے پاس بہانے کیلئے اپنے آنسو بھی نہیں اور اسی سے ظاہر ہے کہ یہ کتنے دن مزید چل سکتی ہے‘ جبکہ جمہوریت کا تقاضا بھی یہ ہے کہ آپ اپنے آنسو بہائیں اور اگر آنسو نہیں ہیں تو ٹسوے ہی بہا لیں اور میں سوچ رہا ہوں کہ خود جا کر مگر مچھوں کو اطلاع دے دوں کہ آنسو بہانے کے لیے اس نے مگر مچھ ہی کا انتخاب کیوں کیا ہے۔ وہ مچھلی یا زیادہ سے زیادہ کچھوے کے آنسو بھی بہا سکتی تھی اور میرا خیال ہے کہ اگر حکومت کا عالم یہ ہے تو مجھے اسے گرانے کیلئے کسی خاص تگ و دو کی ضرورت نہیں ۔ آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ملک ایسے لوگ چلا رہے‘ جوبالکل بھی دُور اندیش نہیں:سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''ملک ایسے لوگ چلا رہے‘ جو بالکل بھی دور اندیش نہیں ‘‘ کیونکہ اگر ان میں آگے دیکھنے کی تھوڑی بہت صلاحیت بھی ہوتی تو میں سامنے کھڑا صاف نظر آ سکتا تھا؛ حالانکہ ابھی کل ہی میں نے اُن سے مسئلہ کشمیر پر اپنے تعاون کی بھرپور کوشش کا اعلان کیا تھا اور اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کی آنکھوں میں موتیا وغیرہ اتر آیا ہے‘ جسے وہ موتیے کے پھول سمجھے ہوئے ہے ‘ورنہ وہ اس کا علاج اب تک کروا چکے ہوتے ‘جبکہ میں تو اس میں ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ سوائے اس کے کہ انہیں تعویز لکھ دوں‘ جو کافی اچھے نتائج دے رہا ہے‘ جبکہ میں نے سیاست کے ساتھ ساتھ یہ کام بھی شروع کر دیا ہے کہ آدمی کے پاس کچھ ہُنر تو ہونا ہی چاہیے کہ سیاست تو آنی جانی چیز ہے ‘بلکہ میں نے جماعت کے دیگر زعماء کو بھی تلقین کی ہے کہ وہ بھی اس کام کی طرف توجہ دیں کہ اس میں خلقِ خدا کی بھلائی کا کام سیاست سے کہیں زیادہ ہے۔ آپ اگلے روز پشاور میں تجارتی مرکز کے افتتاح کے موقعے پر خطاب کر رہے تھے۔
حکومت ٹھیک کام کر رہی ہے‘ پولیس کلچر بدلیں گے: عثمان بزار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''پنجاب حکومت ٹھیک کام کر رہی ہے‘ پولیس کلچر بدلیں گے‘‘ اور جب سے میں نے کابینہ اور ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ کیا ہے‘ وہ سارے کام اچھل اچھل کر کر رہے ہیں‘ جبکہ میں ذرا اپنے تن و توش کی وجہ سے زیادہ اچھل نہیں سکتا‘ بس دو تین انچ تک ہی اچھلتا ہوں اور سانس لینے کیلئے بیٹھ جاتا ہوں اور اس کے بعد کام میں مصروف ہو جاتا ہوں‘ جبکہ وفاقی حکومت کا کام تو ویسے ہی بہت آسان ہو گیا ہے‘ کیونکہ زلفی صاحب اور وزیر قانون ہی سارے مسئلے حل کر رہے ہیں‘ جن کو جہانگیر ترین کا بھرپور تعاون حاصل ہے ‘جبکہ دوسرے تقریباً تمام وزراء فراغت کے مزے لوٹ رہے ہیں اور اگر ہمارا کام تسلی بخش طور پر نہیں چلتا تو وزیراعظم سے ان صاحب کو کچھ عرصے کیلئے اُدھار لے آئیں گے ۔ آپ اگلے روز میڈیا سے بات کر رہے تھے۔
200 ارب سے زائد قرضے معاف کرنے 
پر تحریک اسمبلی میں لائیں گے: خورشید شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید علی شاہ نے کہا ہے کہ ''200 ارب سے زائد قرضے معاف کرنے پر تحریک اسمبلی میں لائیں گے‘‘ اور کس قدر نا انصافی اور افسوس کا مقام ہے کہ حکومت 200 ارب تک کے قرضے تو معاف کر رہی ہے‘ جبکہ میرے 5 ارب کے اثاثے اس کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہیں اور ان کیلئے میں نے جو شبانہ روز کشٹ اٹھایا ہے‘ اس کا اسے کوئی احساس ہی نہیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور یہ بھی کوئی شرافت نہیں کہ اتنا عرصہ میری فائلوں کو دبائے رکھنے کے بعد انہیں پھر سے کھولا جا رہا ہے ‘جس سے اس کی بے یقینی اور تلون مزاجی کا پتا چلتا ہے اور میں سوچ سوچ کر پریشان ہو جاتا ہوں کہ آخر اس حکومت کا کیا بنے گا؟ لیکن یہ اپنے انجام سے بے خبر اور بے پروائی سے حکومت کرتی چلی جا رہی ہے‘ جیسے کوئی اسے پوچھنے والا ہی نہ ہو۔ آپ اگلے روز سکھر میں اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
ہم مکمل خراب ہیں صاحب
آپ سارے کے سارے اچھے ہیں
آپ کی دوستی سے ڈرتا ہوں
آپ کُوفہ کے رہنے والے ہیں
اب کہ کھونے کو کچھ نہیں باقی
تُو مرا آخری اثاثہ تھا (اسدؔ علی باقر)
کسی فقیر نے وحشت میں طشت اُلٹا تھا
کہیں زمین پڑی ہے اب آسمان کہیں
بیٹھ جائے گی دُھول رستے کی
کام آئے گا یہ کھڑا ہونا (آزاد حسین آزادؔ)
شام ہوتے ہی یاد کی کھڑکی
کوئی دھیرے سے کھول جاتا ہے
دونوں سے رسم و راہ کو ٹالا نہیں گیا
رستہ کسی سے کوئی نکالا نہیں گیا
تنہائی کہہ رہی ہے مقدر ہے تیرگی
سایہ بتا رہا ہے اُجالا نہیں گیا
میں ہی پنجرہ‘ میں ہی قیدی‘ حیرت ہے
یہ کیسی دیوار سی میرے اندر ہے
ترے جمال کے آگے نہیں مجال مری
کہ تجھ سے آنکھ ملے اور گفتگو بھی رہے (نعیم ؔضرار)
آج کا مطلع
وہ ایک طرح سے اقرار کرنے آیا تھا
جو اتنی دور سے انکار کرنے آیا تھا

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved