تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     04-09-2019

پولیس تشدد‘ ہلاکت‘ نوٹس‘ مذاکرات کامیاب!

جو ریاستیں فلاحی سے زیادہ سیکورٹی سٹیٹس بن جاتی ہیں‘ وہاں تشدد‘ ہلاکت‘ نوٹس اور کامیاب مذاکرات کا چاک چکر ہمیشہ بغیر کسی روک ٹوک کے چلتا رہتا ہے۔اس چاک چکر میں طاقتوروں کے اپنے اپنے کٹہرے ہوتے ہیں ۔ اِن کٹہروں میں بغیر کسی وکیل اور دلیل کے صرف طاقت کی زبان بولتی ہے۔طاقتور ہی فیصلہ کرتا ہے کہ اُس نے ہاتھ آئے ہوئے شکار کو کس حد تک تشدد کا نشانہ بنانا ہے یا پھر اُسے قیدِحیات سے ہی نجات دلا دینی ہے۔مقصدکسی وڈیرے کو خوش کرنا یا کچھ حاصل وصول کرنا بھی ہوسکتا ہے۔ترقی کے زینے جلدی طے کرنے کے لیے بھی یہ نسخہ اکسیر سمجھا جاتا ہے ۔ اس چکر میں کبھی نقیب اللہ محسودآتا ہے‘ کبھی پورا پورا خاندان ‘ کبھی صلاح الدین ‘ کبھی عامر مسیح تو کبھی امجد ذوالفقار۔
معاملہ ایسی صورت میں مزید سنگین ہوجاتا ہے جب جواب دہی کا کوئی خوف بھی باقی نہ رہ گیا ہو۔ الزام عائد ہوا کہ نقیب اللہ محسود کے کالعدم تنظیموں سے تعلقات ہیں۔جنوری 2017ء میں ایک پولیس مقابلے کے بعد اُسے ہلاک کردیا گیا۔ ایک خطرناک شخص کو مارنے کے لیے پولیس کے جوانوں نے اپنی جانیں تک خطرے میں ڈال دیں۔ لواحقین نے اس کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاج کیا۔ حسبِ روایت حکومت نے نوٹس لیا اور تحقیقات کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ تحقیقات کے نتیجے میں ثابت ہوگیا کہ نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے ۔قصور واروں کو سزا دئیے جانے کے بے شمار دعوے بھی کیے گئے۔کامیاب مذاکرات کے ذریعے لواحقین کو یقین دلا دیا گیا کہ انشااللہ اس کیس کو ٹیسٹ کیس بنایا جائے گا اور قصور واروں کو سزا ملے گی۔ اگر کسی قصور وار کو سزا ہوئی ہو تو براہ کرم ہمیں بھی آگاہ کردیا جائے۔ ساہیوال کے قریب بھی انسدادِ دہشت گردی فورس نے دوخواتین سمیت چار افراد کو خاک وخون میں نہلا دیا تھا۔ اُن کے اپنے بچوں کے سامنے جو لاہور کے جنرل ہسپتال کے عقب میں واقع ایک بستی کے گھر میں‘ آج بھی بے چارگی کی تصویر بنے دکھائی دیتے ہیں۔جنوری 2019ء میں ہونے والے اس مقابلے کے دوران مرنے والوں کو پہلے دہشت گرد قرار دیا گیا ‘لیکن بعد میں ثابت ہوگیا کہ مرنے والے کسی شادی میں شرکت کے لیے جارہے تھے۔احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تو حسب ِروایت اعلیٰ سطح پر واقعے کا نوٹس لے لیا گیا۔ احتجاج کرنے والوں اور حکومتی ذمہ داروں کے درمیان کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں احتجاج کا سلسلہ بھی تھم گیا ‘ اُسی روایتی اُمید پر کہ اِس مرتبہ تو ضرور کچھ نہ کچھ نتیجہ برآمد ہوگا۔بس ‘تب سے اب تک نتیجے کا انتظار ہے‘ لیکن رزلٹ غیرمعینہ مدت کے لیے لیٹر آن ہے‘ جو لیٹر آن ہی رہے گا۔ویسے بھی کوئی کب تک سنگلاخ چٹانوں سے سرٹکراتا رہے۔ہماری زندگی کے جھمیلے پہلے کون سے کم ہیں ‘جو طاقتوروں کے ساتھ متھا لگا لیا جائے ۔
حال ہی میں پولیس کی ہلاکت میں اپنی زندگیوں سے محروم ہوجانے والے امجد ذوالفقار‘ عامر مسیح اور صلاح الدین کے لواحقین بھی یہی روش اختیار کریں گے ۔ گجر پورہ کے ٹارچر سیل میں پولیس تشدد کا نشانہ بن کر اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھنے والے امجد ذوالفقار کا رونا دھونا بھی بہت سے ذہنوں سے محو ہوچکا ہے۔ کس کو یاد ہوگا کہ ٹارچر سیل کی سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں وہ چارپائی پر لیٹا ‘ چلا چلا کر کہہ رہا تھا کہ انہوں نے مجھے میری بیٹی اور بیوی کے سامنے شدید تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ میری کمرٹوٹ گئی ہے اور مجھ سے اُٹھا نہیں جارہا ہے۔ کچھ وقت گزر گیا‘ کچھ مزید گزر جائے گا اور اگر تھوڑا بہت کچھ یاد بھی ہے تو وہ بھی جلد ذہنوں سے محو ہوجائے گا۔شمالی چھاؤنی تھانے میں عامر مسیح کی ہلاکت بھی جلد قصہ پارینہ بن جائے گی۔ کسی کو یاد بھی نہیں رہے گا کہ پولیس تشدد کا نشانہ بننے والا یہ نوجوان دوبچوں کا باپ تھا۔کسی کو یاد بھی نہیں رہے گا کہ اُس کی کمائی پر گھر چلتا تھا۔ ہاں اتنا ضرور ہوا ہے کہ حسب ِدستور غیرذمہ داری کا مظاہرہ اور تشدد کرنے کی الزامات میں چھ پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔لواحقین کی کچھ اشک شوئی ہوگی ‘تبھی تو وہ احتجاج کا راستہ اختیار نہیں کریں گے۔اشک شوئی کا سب سے بڑا ذریعہ ذمہ دار پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا جانا سمجھا جاتا ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ ایسے ہر کیس میں فوری طور پر یہی کیا جاتا ہے‘اسی کو بنیاد بنا کر احتجاج کرنے والوں کو تسلی دی جاتی ہے کہ ذمہ دارسلاخوں کے پیچھے پہنچ گئے ہیں۔ہاں‘ البتہ اتنا ہونے کے لیے بھی ضروری ہے کہ بات میڈیا پر آجائے۔ ذہنی معذور صلاح الدین کے کیس میں تو اُس کے لواحقین احتجاج کی ہمت بھی نہ کرسکے۔اُن کا طرزِعمل دیکھ کریوں محسوس ہوا ‘جیسے اس بات کو تسلیم کرلیا گیا ہو کہ اب احتجاج کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔معلوم نہیں ذمہ دار خاموشی کی گمبھیرتا کو کیوں محسوس نہیں کرپارہے۔وہ کیوں یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ وقت کہیں سے کہیں پہنچ چکا ہے۔وہ کیوں اپنی سوچوں کو تبدیل نہیں کرپارہے۔ گونگے بہرے صلاح الدین کی موت بھی اُنہیں جھنجھوڑ نہیں پارہی؟ اگر صلاح الدین کے والد یہ کہہ رہے ہیں کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اُن کا بیٹا بچپن سے ذہنی معذور تھا تو کیا اس میں کوئی شک کا عنصر پیدا ہوتا ہے۔ صلاح الدین کی وائرل ہونے و الی ویڈیو میں اُس کی حرکتیں ہی اُسے ذہنی معذور ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ اُس کی ذہنی معذوری کی بابت نہیں معلوم ہوسکا تو اُس پر تشدد کرنے والے پولیس والوں کو معلوم نہیں ہوسکا۔ وہ ذہنی معذور پولیس والوں سے یہی پوچھتا رہا کہ اُنہوں نے مارنا کہاں سے سیکھا ۔
صلاح الدین کے پاس تھوڑی سی بھی عقل ہوتی تو اُسے یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ وہ جان جاتا کہ طاقت کے اپنے طور طریقے ہوتے ہیں۔ اس کے نشے میں چور رہنے والے رات کے اندھیرے میں فیصل آباد کے ایک گھر کی دیواریں بھی پھلانگ سکتے ہیں‘گھر کے اندر داخل ہوکر خواتین کو تشدد کا نشانہ بھی بنا سکتے ہیں۔ وہ ناکے پر کسی کو بھی روک کر گالیاں نکال سکتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ جہاںلوگ پولیس کی حراست میں دم توڑ رہے ہوں ‘ وہاں بھلا ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے۔دل دکھتا ہے‘ ان واقعات پر کہ کبھی ہمارے محافظ بھی اپنی روش تبدیل کریں گے یا نہیں ؟آپ لاکھ پولیس ‘ عوام دوست ایپس متعارف کروالیں‘دعوے کرلیں کہ پولیس ‘ عوام کی جان و مال کا تحفظ کرنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے‘ لیکن زمینی حقائق کیا ہیں ‘ سب جانتے ہیں۔عموما پولیس کے برے روئیے کی ایک توجیح ‘ اُن پر کام کا زیادہ بوجھ ہونا بھی پیش کی جاتی ہے۔ کوئی پوچھے کہ بھئی اس میں عوام کا کیا قصور ہے۔ وہ بیچاری تو ٹیکسوں کے نام پر آپ کے پاس گروی پڑی ہوئی ہے ۔ اب یہ تو آپ کا کام ہے کہ آپ اداروں کو ٹھیک کریں۔پولیس کو وسائل فراہم کریں ۔ اِس حوالے سے سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کافی اچھے اقدام اُٹھائے تھے۔محکمہ پولیس کے ملازمین کی تنخواہوں میں پرُکشش اضافہ بھی کیا ‘لیکن محکمے میں رشوت ستانی کم ہوسکی نہ سروسز میں مطلوبہ بہتری آسکی۔موجودہ حکومت نے بھی برسراقتدار آنے سے پہلے‘ محکمہ پولیس میں بہتری لانے کے بہت دعوے کیے تھے ‘جن کی تعبیرابھی تک پینڈنگ ہے۔ یہ پینڈنگ ہی رہے گی‘ جب تک بنیادی حقائق کو نظرانداز کیا جاتا رہے گا۔تسلیم کہ محکمہ پولیس کو بے شمار مسائل درپیش ہیں ۔ اس کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ ورکنگ آورز کا تعین نہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ان عوامل کو بری کارکردگی کی توجیحات کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ان کو بنیاد بنا کر پولیس کو اپنے ہی شہریوں پر تشدد کرنے اور اُنہیں جان سے مار دینے کا حق نہیں دیا سکتا ۔ در اصل ایسا ہونے کی سب سے بڑی وجہ سزا کا خوف نہ ہونا ہے۔ آپ دیکھ لیجئے کہ پولیس حراست میں ہلاکتوں کے جتنے بھی مقدمات درج ہوئے ہیں‘ اُن میں شاید ہی کسی پولیس اہلکار کو سزا ہوئی ہو۔ مقدمہ درج ہوتا ہے اور اکثر صورتوں میں اہلکار گرفتار بھی ہوتے ہیں ‘لیکن اُس کے کچھ عرصے کے بعد سب کچھ تبدیل ہوجاتا ہے۔طویل تاریخیں اور حکومتی و محکمانہ دباؤ متاثرین کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیتا ہے۔
اب یکے بعد دیگر پولیس حراست میں ہونے والی ہلاکتوں پر بھی بہت شور اُٹھا ہے‘ لیکن کچھ عرصے کے بعد اِن کیسز کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا ‘جو اس سے پہلے ایسے کیسز کے ساتھ ہوتا رہا ہے‘ پولیس تشدد‘ ہلاکت ‘ نوٹس ‘ مذاکرات کامیاب!
جو ریاستیں فلاحی سے زیادہ سیکورٹی سٹیٹس بن جائیں‘ وہاں تشدد‘ ہلاکت‘ نوٹس اور کامیاب مذاکرات کا چاک چکر ہمیشہ بغیر کسی روک ٹوک کے چلتا رہتا ہے۔ اس چاک چکر میں طاقتوروں کے اپنے اپنے کٹہرے ہوتے ہیں ۔ اب یکے بعد دیگر پولیس حراست میں ہونے والی ہلاکتوں پر بھی بہت شور اُٹھا ہے‘ لیکن کچھ عرصے کے بعد اِن کیسز کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا ‘ 
جو اس سے پہلے ایسے کیسز کے ساتھ ہوتا رہا 
ہے‘ پولیس تشدد‘ ہلاکت‘ نوٹس ‘ مذاکرات کامیاب!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved