انسان مزاجاً کچھ ایسا واقع ہوا ہے کہ یکسانیت سے بہت جلد اکتا جاتا ہے۔ یکسانیت ذہن کو ناکارہ بناتی چلی جاتی ہے۔ ذہن اگر ڈھنگ سے کام نہ کرے تو انسان دوسروں سے بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ یکسانیت؛چونکہ ذہن کو سُست کردیتی ہے‘ اس لیے وہ ڈھنگ سے کام نہیں کر پاتا اور یوں انسان بیشتر معاملات میں پس ماندگی کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایسے میں یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ آج کی حشر پرور دنیا میں بھی بہت سوں نے یکسانیت کو زندگی بسر کرنے کے بنیادی طریق کا درجہ دے رکھا ہے۔
ہر دور مختلف حوالوں سے انسان کے سامنے چیلنج کھڑا کرتا اور اُسے آگے بڑھنے یا غیر معمولی جذبے سے کام کرنے کی تحریک دیتا آیا ہے۔ زمانے کا کام ہے‘ تحریک دینا۔ تحریک و تحرّک کے حوالے سے اپنے پورے وجود کو مکمل طور پر تیار کرنا یا نہ کرنا انسان کے اختیار کی بات ہے۔ کوئی بھی انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وقت یا حالات نے اُسے بہتر زندگی بسر کرنے کی گنجائش نہیں بخشی۔ ہر دور انسان کے لیے چند ایک امکانات ضرور لے کر آتا ہے۔ کسی بھی مشکل صورتِ حال کو چیلنج کی صورت میں قبول کرکے امکان میں تبدیل کرنا ہر انسان کے بس کی بات ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ وہ اس چیلنج کو قبول کرکے امکانات کی راہ ہموار کرتا ہے یا نہیں؟ دنیا بھر کے پس ماندہ معاشروں کا جائزہ لیجیے تو چند خصوصیات مشترک دکھائی دیں گی۔ ان معاشروں میں وقت کا ضیاع سب سے بڑی مشترکہ حقیقت ہے۔ وقت کی قدر کرنے والے کامیاب رہتے ہیں۔ یہ حقیقت پس ماندہ معاشروں کے ناکام ترین انسان بھی تسلیم کرتے ہیں۔ دنیا کا ناکام ترین انسان بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ محنت کا صلہ نہیں ملتا یا وقت کی قدر کرنے والے ناکام رہتے ہیں۔ تو پھر کیا سبب ہے کہ وہ اپنے آپ کو تبدیل نہیں کرتے‘ محنت نہیں کرتے اور وقت کی قدر کرنے سے گریزاں رہتے ہیں؟ بات کچھ یوں ہے کہ کسی بھی حقیقت کو تسلیم کرنا اور اُس کا تھوڑا بہت احترام کرنا اور بات ہے اور اُس حقیقت کو زندگی کا حصہ بنانے کی خاطر میدانِ عمل میں قدم رکھنا بالکل الگ بات ہے۔ انسان کسی حقیقت کو تسلیم کرنے کی حد تک تو کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا‘ مگر جب محنت کرنے کی بات آتی ہے تو بہانے گھڑنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ عمل سے گریز جہاں بنیادی قدر کا درجہ رکھتا ہو وہاں کسی کو آمادہ بہ عمل کرنا جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔
پاکستان کا شمار بھی اُن معاشروں میں ہوتا ہے‘ جو ٹھہر گئے ہیں۔ بہتا ہوا پانی زندگی کی علامت ہے۔ بہتے ہوئے پانی میں بیماریاں پیدا کرنے کی صلاحیت و سکت برائے نام ہوتی ہے۔ ٹھہرا ہوا پانی سو طرح کی بیماریاں پیدا کرتا ہے۔ رینگنے اور اُڑنے والے بیشتر کیڑے مکوڑے ٹھہرے ہوئے پانی ہی کی پیداوار ہوتے ہیں۔ ٹھہرا ہوا پانی‘ جوہڑ کہلاتا ہے۔ جوہڑ کا پانی کسی بھی اعتبار سے توانا ہوتا ہے‘ نہ توانائی بخش۔ اُس میں غلاظت کا تناسب بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ یہی حال اُن معاشروں کا بھی جو ٹھہرے ہوئے ہیں ‘یعنی جوہڑ میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ بھی بُری طرح ٹھہرا ہوا ہے۔ منیرؔ نیازی نے خوب کہا ہے: ؎
منیرؔ اس شہر پر آسیب کا سایا ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
ہمارا بھی تو یہی حال ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت کچھ ہو رہا ہے‘ جبکہ ہو کچھ بھی نہیں رہا! سب یہی ظاہر کر رہے ہیں کہ اُن میں غیر معمولی تحرّک ہے ‘جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دور تک تحرّک دکھائی دیتا ہے ‘نہ تحریک۔
ایک زمانے سے پاکستانی معاشرے کا ایک بنیادی چلن یہ ہے کہ معاملات کو جوں کا توں رہنے دیا جائے‘ کسی بھی چیز اور کسی بھی بات کو چھیڑا نہ جائے۔ سب ڈرتے ہیں کہ کچھ ہلانے جلانے سے بہت کچھ ہل جائے گا‘ کوئی بڑی مصیبت کھڑی ہوجائے گی۔ سوال صرف حکومت و ریاست یا معیشت و معاشرت کا نہیں‘ ہر معاملے میں یہی سوچ کارفرما ہے کہ معاملات کو چھیڑا نہ جائے‘ سب کچھ بس یونہی چلنے دیا جائے۔
جب کچھ نیا کرنے سے گھبراہٹ محسوس ہو تو معاملات محض خرابی کی طرف بڑھتے ہیں۔ زندگی کا ہر شعبہ ہم سے کچھ نہ کچھ جدت چاہتا ہے‘ تحرّک کا طالب رہتا ہے۔ کچھ بھی نیا کرنے سے گھبرانے اور یکسانیت کے دائرے میں گھومنے والوں سے کسی بھی ایسے قدم کے اٹھائے جانے کی توقع وابستہ نہیں کی جاسکتی ‘جو معاملات کو درستی اور بہتری کی طرف لے جائے۔ کیا یہ بدقسمتی کی انتہا نہیں کہ آج کا پاکستان بھی ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہے؟ ہم بھی تو یکسانیت کے پُجاری ہوکر رہ گئے ہیں۔ ہمیں بھی تو جدت سے ڈر لگتا ہے۔ ہر نیا خیال ہمیں روح فرسا محسوس ہوتا ہے۔
جمود کو توڑنے کے تصور ہی سے ہمارے اعصاب چٹخنے لگتے ہں۔ یکسانیت نے مجموعی طور پر پوری زندگی کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے‘ بلکہ دبوچ رکھا ہے۔ کوئی بھی معاملہ محدود سوچ‘ یکسانیت پسندی اور عمل گریز رویے کے دائرے سے باہر نہیں۔ سب کچھ محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کیفیت نے اب بند گلی کی شکل اختیار کرلی ہے۔
حکومتی اور ریاستی سطح پر کسی بڑی تبدیلی کے واقع نہ ہونے کا رونا رونے والے ذرا بتائیں کہ وہ خالص انفرادی سطح پر اپنی زندگی میں کون سی بڑی تبدیلی یقینی بناسکے ہیں۔ کیا وہ خود اپنے لیے سنجیدہ ہیں؟ اپنے وجود کو محض اپ ڈیٹ نہیں ‘بلکہ اپ گریڈ کرتے رہنا اب لازم ہوچکا ہے۔ کیا لوگ انفرادی سطح پر اِس حقیقت سے ہم آہنگ ہو پائے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر کسی کو بھی موردِ الزام ٹھہرانے سے کیا حاصل؟
ہم اُس بند گلی کے باسی ہیں جہاں کسی بھی بامعنی اور بارآور تبدیلی کو تقریباً حرام قرار دیا جاچکا ہے۔ ہر فضول سرگرمی زندگی کا حصہ بن چکی ہے‘ چاہے اُس کے دم سے مثبت تبدیلیوں کی راہ مکمل طور پر مسدود ہی کیوں نہ ہوتی ہو۔ اس بند گلی میں نئی بات کرنے والوں کو پسند نہیں کیا جاتا۔ کسی بھی حوالے سے اصلاح یا درستی کی سوچ رکھنے والوں کو یکسر اجنبی تصور کیا جاتا ہے اور بات یہیں تک نہیں رکتی ‘بلکہ اُن سے الگ تھلگ رہنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے!
یکسانیت بے عملی کو جنم دیتی ہے۔ بے عملی کا مطلب ہے صرف گزارے کی سطح پر زندگی بسر کرتے رہنا اور ایسا کچھ بھی نہ کرنا‘ جس سے معمولات میں کوئی اہم مثبت اور بارآور تبدیلی رونما ہو۔ آج ہمارا یہی کیس ہے۔ یکسانیت کے بطن سے پیدا ہونے والی بے عملی نے ہمیں ایسی بند گلی میں بند کردیا ہے ‘جس میں استطاعت سے کہیں کمتر درجے کی زندگی بسر کرنے کو کافی سمجھ لیا گیا ہے اور اس حوالے سے ذرا سی بھی شرمندگی یا پچھتاوا محسوس نہیں کیا جارہا۔
کیا یہ بند گلی یونہی ہماری زندگی کے لیے حدودِ اربعہ کا درجہ اختیار کیے رہے گی؟ کیا ہم یونہی‘ سوچے سمجھے بغیر‘ بھیڑ چال کے انداز سے زندگی بسر کرتے رہیں گے؟ وقت آگیا ہے کہ سوچ تبدیل کی جائے‘ یکسانیت ترک کرکے کچھ نیا کرنے کا سوچا جائے‘ نئی سوچ کے مطابق ‘اپنے اندر جذبۂ عمل پیدا کیا جائے‘ تحرّک کو راہ دی جائے اور اس انداز سے زندگی بسر کی جائے کہ بند گلی کے عذاب سے نجات نصیب ہو اور ہم خم ٹھونک کر کہہ سکیں کہ ہم بھی روئے زمین پر موجود ہیں اور کچھ کرنے کی صلاحیت و سکت ہی نہیں‘ عزم بھی رکھتے ہیں۔