تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     05-09-2019

کشمیر اور پاکستان: عالمی برادری کی حمایت کا حصول

مسئلہ کشمیر کو عالمی برادری کی نظروں سے اوجھل رکھنے کی بھارتی کوشش اس لئے بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی ہے کہ اس نے 5 اگست 2019ء کو کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔کشمیر اب ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ اس بھارتی فیصلے کی وجہ سے بھارت نواز کشمیری بھی الگ تھلگ ہوتے نظر آرہے ہیں۔ بھارت نوازکشمیری ہوں یا بھارت مخالف،کشمیر کی بھارت میںشمولیت اوراس کا ریاستی درجہ کم کرکے اسے یونین کا حصہ قرار دینے کی وجہ سے سب لوگ بھارت کے مخالف ہوگئے ہیں۔ کشمیر میں اب صرف بی جے پی اور آر ایس ایس کے کارکن ہیںجو حکومت کی نئی کشمیر پالیسی کی حمایت کررہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے دوبارہ عالمی منظرنامے کا حصہ بننے کے بعد ضروری ہے کہ پاکستان اور کشمیری‘ دونوں بدلے ہوئے عالمی نظام کی صورتحال میں نئی اور تازہ ترین حکمت عملی وضع کریں۔ اپنے سیاسی مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کے بارے میں کشمیر کا کیس مضبوط بنیادوں پر لڑنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم ایک دیر پا اور جامع حکمت عملی اپنائی جائے۔اس نئی اپروچ کا تقاضا ہے کہ سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر پاکستان کی جانب سے کی گئی تمام کوششوں کے ذریعے کشمیر کے مقدمے کومزید مستحکم کیا جائے۔
عالمی میڈیا خصوصاً برطانوی اور امریکی میڈیا، انسانی حقوق کے علمبردار اوردیگر سماجی گروپس نے اپنا تمام فوکس بھارتی افواج اور دیگر سکیورٹی اداروںکی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی طرف مبذول کررکھا ہے۔ پانچویں ہفتے میں داخل ہونے والے مسلسل کرفیو نے کشمیر میں انسانی مسائل پید ا کئے ہیں۔ مارکیٹس بند ہیں‘ بنیادی اشیائے ضرورت اور ادویات دستیاب نہیں ہیں اور عام آدمی کی زندگی زبوں حالی کا شکار ہو گئی ہے۔ بھارتی افواج کی طرف سے ٹارچر کی خبریں آ رہی ہیں۔ان رپورٹس نے شہری اور سیاسی حقوق کے حوالے سے کشمیری جدوجہدکے ساتھ ہمدردانہ جذبات پیدا کر دیئے ہیں۔
پاکستان کو چاہئے کہ اپنی کشمیرپالیسی پر حمایت حاصل کرنے کیلئے مغربی ممالک کے اس ہمدردانہ رویے سے فائدہ اٹھائے۔ پاکستان کشمیر پر عالمی حمایت حاصل کرنے کیلئے سرکاری سفارتی چینلز اور غیرسرکاری ذرائع‘ دونوں کو استعمال کر سکتا ہے۔ سرکاری چینلز میں دفتر خارجہ، سفارت خانے، حکام بالا خاص طور پر وزیر اعظم اور کابینہ کے سینئر ارکان شامل ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ سے حکومت پاکستان بیرونی حکومتوں کو کشمیر کی صورتحال اور اس حوالے سے پاکستانی موقف سے متعلق ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کرنے کیلئے ان چینلز کو استعمال کر رہی ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر خارجہ‘ دونوں نے اپنے اپنے ہم منصبوں سے فون پر بات چیت کی تاکہ بھارت کے کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے فیصلے کے بارے میں پاکستانی موقف پر حمایت حاصل کی جا سکے۔ حکومت پاکستان کشمیر کے ایشو کو یو این سکیورٹی کونسل کے نوٹس میں بھی لائی۔ اس مہینے کے آخر میں ہونے والا جنرل اسمبلی کا اجلاس پاکستان کے سرکاری حلقوں کی سفارتی مہارت کی آزمائش ہے۔ اس موقع پر بھارت کی جانب سے کشمیر پر غاصبانہ پالیسیوں کے ضمن میں لابنگ کا دیگر ریاستوں پر اثرانداز ہونے میں دوررس کردار ہو گا۔ آج کے عالمی نظام میں کسی مسئلے پرحمایت کے حصول میں عالمی برادری کے ساتھ غیرسرکاری تال میل بہت اہمیت رکھتا ہے۔ غیر سرکاری سطح پر حمایت پیداکرنے کیلئے یہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔غیر سرکاری سطح پر حمایت حاصل کرنے کی تحریک دو مدارج پر کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔ اول‘پاکستان کے داخلی سماجی گروپس اور لیڈرز کا دیگر ممالک کے غیرسرکاری حلقوں کے ساتھ تال میل اور مغربی ممالک میں بسنے والے کشمیری عوام کا غیرسرکاری سطح پر تال میل۔ غیرممالک میں بسنے والے کشمیری شہری مسئلہ کشمیر پرحمایت حاصل کرنے میں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔اس مقصد کیلئے انہیں مقامی سیاست میں متحرک ہونا ہوگا تاکہ عوام کے منتخب ارکان،لوکل میڈیا اور دوسرے کارکنوں کے ساتھ مستقل تعلقات استوار کئے جا سکیں۔ اس طرح مقامی سیاست اور سماجی امور میں ان کی اہمیت میں اضافہ ہوگا ‘جسے وہ مسئلہ کشمیر اور پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کیلئے استعمال کرسکتے ہیں۔
ان ممالک میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کیلئے دوسرا طریقہ بزنس، تجارت اور دیگرمیدانوں میں کامیاب پاکستانیوں کا کردار ہے۔ اسی طرح یونیورسٹیوں اوردیگر اداروں میں اعلیٰ تعلیم کیلئے جانے والے افراد بھی اپنے اپنے میدان میں نمایاں کارکردگی دکھا کر اس ضمن میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ اپنی کارکردگی کی بدولت وہ پاکستان کی نیک نامی کے ذریعے سوسائٹی پر اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی اور کشمیری شہریوں کو چاہئے کہ ایسی ثقافتی سرگرمیوں کا انعقاد کریں جن میں دوسری کمیونٹیز کے افرادکو بھی مدعو کیا جائے۔ پاکستانی کلچر، آرٹ، فن تعمیر، موسیقی، علمی مباحث کے ذریعے دانشورانہ تخلیقات، نمائشوں اور یوم پاکستان پر قومی پریڈ یا جشن کا انعقاد کرکے بھی پاکستانی کازکو فروغ دیا جا سکتا ہے‘ جس سے نہ صرف پاکستانی شہری ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے بلکہ اس سے ہماری کمیونٹی کا ان ممالک میں ایک ایسا امیج بنے گا جو پاکستان کے امیج کوپروموٹ کرنے میں ہاتھ بٹائے گا۔
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی سرگرمیوں کو پاکستان کے اندررہنے والے شہریوں کی ایسی ہی سرگرمیوں کے ذریعے بھی تقویت ملنی چاہئے۔ وہ پاکستان کے امیج اورساکھ کو بیرون ملک بہتر بنانے کیلئے تعلیم اورٹیکنالوجی کے میدانوں میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کریں‘ اورایسی تربیت یافتہ افرادی قوت مہیا کریں جو پاکستان کے اندر یا باہر کام کرسکتی ہو۔ ذرایع ابلاغ میں جدید ٹیکنالوجیز نے علوم اور انفارمیشن کے تبادلے کیلئے جغرافیائی فاصلے بے معنی بنا دیئے ہیں۔ پاکستانی یونیورسٹیوں کو اعلیٰ پائے کے ماہرینِ تعلیم پیدا کرنے چاہئیں جوعالمی سطح پر موثرانداز میں مقابلہ کرسکیں۔ پاکستان کے سرکاری حلقوں، یونیورسٹیوں اور دانشوروں کو چاہئے کہ وہ عالمی میڈیا اور ماہرین تعلیم کا کشمیراور پاک بھارت تعلقات پرریسرچ کرنے میں ہاتھ بٹائیں۔ اسلام آباد میں قائم بعض تھنک ٹینکس اور یونیورسٹیوں میں کشمیر پر ریسرچ سپورٹ سسٹم قائم کرنیکی ضرورت ہے۔ 1948ء سے اب تک کشمیر پر یو این سلامتی کونسل میں ہونے والے مباحث، کونسل کی قراردادوں اور ان قراردادوں پر عملدرآمد کی تمام کوششوں سے متعلق دستاویزات جمع کرنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اوردیگر اداروںمیں پاکستانی وفود کے سربراہوں کی کشمیر پر تقاریر اور بیانات بھی ان ریسرچرز کو دستیاب ہونے چاہئیں۔ مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے پاک بھارت دو طرفہ بات چیت یا عالمی سطح پر کس قسم کی تجاویز گردش کر رہی ہیں؟ ان سب سے متعلق کسی قسم کا مواد پاکستان کی کسی لائبریری یا یونیورسٹی میں دستیاب نہیں ہے۔ زیادہ تر یونیورسٹیز میں پاکستان سٹڈی سنٹرز ہیں اور پنجاب یونیورسٹی میں ایک سائوتھ ایشیا سنٹر موجود ہے۔ چیک کرنے کی ضرورت ہے کہ ان سنٹرز نے کشمیر اور پاکستان پر کس قسم کا تحقیقی مواد اکٹھا کیا ہے۔
عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ اور نیک نامی میں اضافہ کرنے کیلئے سیاحت خاص طور پر مذہبی سیاحت کو بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ اگر غیرملکی سیاح پاکستان میں مثبت تجربات سے گزرتے ہیں تو وہ بیرون ملک پاکستان کا اچھا امیج پیدا کریں گے۔ روپے کی قدر میں تیزرفتار کمی کے بعد دیگر ممالک کے سیاحوں کیلئے پاکستان میں سیاحت بہت سستی ہو گئی ہے؛ تاہم ابھی تک ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ غیرملکی سیاح بڑی تعداد میں پاکستان کا وزٹ کر رہے ہیں۔ یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں نہیں ہو رہا؟ عالمی سطح پر پاکستان کو بہت زیادہ سپورٹ نہ ملنے کی سب سے اہم وجہ ہمارا معاشی بحران ہے۔ اشد ضرورت ہے کہ معاشی بحران سے نجات کیلئے بھرپور اقدامات اور غیرملکی سرمایہ کاری اور دوطرفہ تجارت کے فروغ کیلئے سرتوڑ کوششیں کی جائے۔ پاکستان کو اندر سے مضبوط ہونا چاہئے اور ایسا کمزور اور بے یقینی کا شکار معیشت کے ذریعے ممکن نہیں۔پاکستان کو چاہئے کہ بیرون ملک اپنا امیج بہتر کرنے اور عالمی سطح پر سپورٹ حاصل کرنے کیلئے ایک جامع اور دیرپا اپروچ اپنائے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے جس پربیرون ملک مقیم پاکستانیوں سمیت حکومت اور سوسائٹی دونوں کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved