وقت ثابت کرے گا کہ نواز شریف کو کس چیز کی سزا ملی: احسن اقبال
سابق وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''وقت اور تاریخ ثابت کرے گی کہ نواز شریف کو کس چیز کی سزا ملی‘‘ بلکہ میرے سمیت ‘جس جس کو بھی سزا ملی‘ اسے وقت اور تاریخ ثابت کرے گی ‘کیونکہ ان دونوں کو باقی سارے کاموں سے فارغ کر دیا گیا ہے اور اداروں کا بھی یہ کام نہیں ہے‘ کیونکہ ہم تاریخی لوگ ہیں اور ہمارے سارے کام بھی تاریخی نوعیت کے ہیں ؛البتہ ابھی طے نہیں ہوا کہ تاریخ میں ہمارا نام اور ذکر کس رنگ کے حروف میں لکھا جائے گا؟ جبکہ ہم حقدار تو سنہری رنگ کے ہیں ‘کیونکہ جو جو ریکارڈز ہمارے آقاؤں نے بنائے ہیں‘ کوئی اور بنا کر دکھائے اور یہ جو نواز شریف کی طرف سے 12ارب ڈالر واپسی کی خبریں آ رہی ہیں‘ یہ بھی اُن کی سخاوت کا ایک ادنیٰ نمونہ ہو گا‘ جبکہ زرداری صاحب یا کوئی اور ایسا کر کے تو دکھائے؟ جبکہ ملک کے لیے اتنی بڑی سخاوت کا مظاہرہ کرنا بھی ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے اور جہاں تک شریفوں کی آل اولاد کا تعلق ہے ‘تو وہ بھی سخاوت میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ آپ اگلے روز دنیا نیوز سے بات چیت کر رہے تھے۔
موجودہ حکمران ‘گدھا اور گھوڑا ساتھ ملا رہے ہیں: خورشید شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''موجودہ حکمران‘ گدھا اور گھوڑا ساتھ ملا رہے ہیں‘‘ حالانکہ گدھا گھوڑے سے کہیں زیادہ قیمتی چیز ہے‘ جوکہ تقریباً نایاب ہونے کو ہے‘ کیونکہ اکثر کی کھال اتار کر بیچ دی گئی ہے اور بہت سوں کا گوشت یہ قوم کھا چکی‘ جبکہ گھوڑے کی کھال اتنی قیمتی ہوتی ہے‘ نہ اس کا گوشت اتنے شوق سے کھایا جا سکتا ہے‘ جبکہ گدھے کا ایک کمال یہ بھی ہے اس کے سینگ غائب بھی ہو جایا کرتے ہیں اور اس کی دوسری خوبی دولتی مارنا ہے‘ جبکہ گھوڑا یہ کام کبھی نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ بار برداری کے کام آ سکتا ہے‘ گھوڑا اتنے کام کا نہیںاور اسی طرح اگر مجھے اور زرداری صاحب کو ساتھ ملایا جائے تو بھی زیادتی ہوگی ‘کیونکہ وہ تو صدر تھے اور مکمل اختیارات ان کے پاس تھے‘ جبکہ میں نے جو کچھ دال دلیا کیا ہے‘ بہت کم اختیارات کے ساتھ کیا ہے ۔ آپ اگلے روز سکھر میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
رانا ثنا کا طبی بورڈ پر عدم اعتماد‘ معائنہ کرانے سے انکار کر دیا ہے: اہلیہ
نواز لیگ پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کی اہلیہ نے کہا ہے کہ ''رانا صاحب نے طبی بورڈ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے معائنہ سے انکار کر دیا ہے‘‘ کیونکہ جو بورڈ بھی آتا ہے ‘کوئی کام کا مرض تشخیص ہی نہیں کرتا اور زکام وغیرہ کہہ کر ٹال دیتا ہے ‘جبکہ زکام صرف مینڈکی کو ہوا کرتا ہے؛ حالانکہ وہ اتنے بڑے لیڈر ہیں اور اپنے سمیت جملہ اعزہ و اقرباء کیلئے جو اثاثے انہوں نے بنائے ہیں‘ ان کے پیش نظر بھی ان کیلئے تشخیص کسی بڑی بیماری کی ہونی چاہیے‘ جبکہ وہ اپنے آپ کو ماڈل ٹاؤن سانحے کا بھی ہیرو سمجھتے ہیں‘اس کا ایک صاف مطلب تویہ ہے کہ یہاں کسی کو اس کی حیثیت کے مطابق ‘ اس کا حق نہیں دیا جاتاہے۔آپ اگلے روز کیمپ جیل میں اپنے شوہر سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
کیمیا
یہ معروف شاعر دلاور علی آزرؔ کا پانچواں مجموعہ غزلیات ہے ‘جسے گوہر گھر پبلی کیشنز کوئٹہ نے چھاپا ہے۔ پس سرورق ممتاز نظم گو رفیق سندھیلوی کا تحریر کردہ ہے‘ جس کے ساتھ شاعر کی تصویر اور دیگر تصنیفات کی فہرست شائع کی گئی ہے۔ عرض ناشر کے زیر عنوان مختصر تحریر پبلشر کی طرف سے ہے۔ خوبصورت سرورق محمد اورنگزیب کا تیار کردہ ہے‘ جبکہ انتساب سیدی محمد یامین خاں عرف سائیں کالا خاں کے نام ہے۔ گٹ اپ عمدہ ہے۔ چند شعر دیکھیے:
اُس نے آہستہ سے انصاف کا پلڑا کھینچا
اور سنا دی گئی مٹی کو سزا پانی کی
مجھے دکھائی بھی دینے سے رہ گیا ہے وہ چاند
مری نشست ستارے نے کیا بدل دی ہے
آنکھ میں نیند کے رستے سے اترتا ہے سراب
خواب تو پیاس بڑھانے کے لیے ہوتے ہیں
ہم محبت کو چھپانے میں لگے ہیں آزرؔ
اور خوشبو کو بکھرنے کی پڑی رہتی ہے
ہمارے خواب ہوا میں اڑائے جائیں گے
ہماری نیند پرندوں کے نام ہو چکی ہے
اور اب یاسمین سحر ؔکی یہ غزل:
عکس در عکس کھلا ایک ہی چہرہ نکلا
وہ طبیعت میں سمندر سے بھی گہرا نکلا
میں نے رُخ موڑ دیا اپنی تمناؤں کا
کسی منزل کی طرف جب کوئی رستا نکلا
ٹوٹ پایا نہ کسی طور ملایا ہم کو
کیسا ہم تُم میں کوئی پیار کا رشتہ نکلا
میں حقیقت کے قریب اس لیے بھی ہوتی گئی
جو مرا خواب تھا تعبیر میں جھوٹا نکلا
منفرد میں ہی تھی بس ورنہ مری دنیا میں
جو بھی انسان تھا وہ ایک ہی جیسا نکلا
جس کو تعبیر کیا میں نے ترے نام کے ساتھ
وہ مری آنکھ کا ٹُوٹا ہوا سپنا نکلا
کسی منزل کا تعین بھی کچھ آسان نہ تھا
اس مسافت کا تو ہر موڑ ہی اندھا نکلا
میں اسے ڈھونڈنے کس راہ گزر تک آئی
پیچھے دریا تو مرے سامنے صحرا نکلا
ایک کمزور تعلق کے نبھانے میں سحرؔ
مجھ سے مضبوط مرے دل کا ارادہ نکلا
آج کا مطلع
ریزہ ریزہ بکھر رہا ہوں میں
شکر ہے کچھ تو کر رہا ہوں میں