زندگی میں ہر شخص کو کسی نہ کسی ضرورت کے تحت سفر کرنا پڑتا ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت موسیٰؑ‘ حضرت خضرؑ اور حضرت ذوالقرنین ؑ کے سفروں کا ذکر کیا۔ سفر کے دوران انسان کو جہاں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے‘ وہیں پر ا س کومختلف اُتار ‘ چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حدیث ِپاک سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو بلاضرورت سفر سے گریز کرنا چاہیے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا؛ سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے‘ آدمی کو کھانے پینے اور سونے ( ہر ایک چیز ) سے روک دیتا ہے‘ اس لیے جب کوئی اپنی ضرورت پوری کر چکے تو فوراً گھر واپس آ جائے۔‘‘دیکھنے میںآیا ہے کہ انسان جب دنیاوی امور کی انجام دہی کے لیے سفر کرتا ہے تو بالعموم اس طرح عبادات کرنے کے قابل نہیں رہتا‘ جس طرح حالت اقامت میں کر رہا ہوتا ہے‘ لیکن نبی کریم ﷺ نے مسافر کو یہ بشارت سنائی ہے کہ اس کو اقامت کے دوران کی جانے والی عبادات کا ثواب سفر میں بھی ملتا رہتا ہے۔ صحیح بخاری میں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘وہ کہا کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر کرتا ہے ‘تو اس کے لیے ان تمام عبادات کا ثواب لکھا جاتا ہے‘ جنہیں اقامت یا صحت کے وقت یہ کیا کرتا تھا۔سفر میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں پر عبادات کی تخفیف کی ہے ؛چنانچہ سفر میں نماز کو قصر ادا کرنا سنت نبوی شریف ہے‘ اسی طرح مسافر کے لیے دوران سفر روزے رکھنا ضروری نہیں ہے۔ صحیح بخاری میں حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ سے رویایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی میں سفر میں روزہ رکھوں؟ وہ روزے بکثرت رکھا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اگر جی چاہے تو روزہ رکھ اور جی چاہے افطار کر۔
بہت سے لوگ سفر پر اکیلے روانہ ہو جاتے ہیں۔ انسان کو حتی المقدور کوشش کرنی چاہیے کہ سفر میں اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی ساتھی موجود ہواور اس کو اکیلے سفر کرنے سے ممکن حد تک گریز کرناچاہیے۔ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ''جتنا میں جانتا ہوں‘ اگر لوگوں کو بھی اکیلے سفر ( کی برائیوں ) کے متعلق اتنا علم ہوتا تو کوئی سوار رات میں اکیلا سفر نہ کرتا‘‘۔
مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی کئی مرتبہ کئی مرتبہ رشتہ داروں سے ملاقا ت ‘ علاج ومعالجہ یاکسی ضروری کام سے سفر پر نکلنا پڑتا ہے۔ احادیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عورتوں کو مردوں سے بھی کہیں بڑھ کر اکیلے سفر کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ بات فتنے کا باعث بن سکتی ہے اور ان کی عزت اور ناموس کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی عورت اپنے محرم رشتہ دار کے بغیر سفر نہ کرے اور کوئی شخص کسی عورت کے پاس اس وقت تک نہ جائے‘ جب تک وہاں ذی محرم موجود نہ ہو۔ ایک شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ! میں فلاں لشکر میں جہاد کے لیے نکلنا چاہتا ہوں‘ لیکن میری بیوی کا ارادہ حج کا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو اپنی بیوی کے ساتھ حج کو جا۔
سفر کی صعوبتوں اور تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا یقیناً مردانگی ہے۔ نبی کریم ﷺ سفر کی صعوبتوں کو بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا کرتے تھے اور سفر کے دوران آپ‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ خوش طبعی بھی فرمایا کرتے تھے۔ صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ( ایک مرتبہ ) ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ( سفر میں ) پیلو کے پھل توڑنے لگے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو سیاہ ہوں انہیں توڑو ‘ کیونکہ وہ زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: کیا آپ نے کبھی بکریاں چرائی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا‘ جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔
ویسے تو کسی بھی دن سفر کیا جا سکتا ہے ‘لیکن جمعرات کے دن کو ترجیح دینی چاہیے ۔اس لیے کہ اس دن سفر کرنا نبی کریم ﷺ کو پسند تھا۔ صحیح بخاری میں کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ غزوہ تبوک کے لیے جمعرات کے دن نکلے تھے۔ آپﷺ جمعرات کے دن سفر کرنا پسند فرماتے تھے۔
سفر کے دوران اگر انسان کسی مشکل کا شکار ہو جائے اور اس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہ آ رہی ہو تو ایسی صورت میں انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر خلوص سے دعامانگنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے مسافر بندوں کی دعاؤ ں کو قبول ومنظور فرماتے ہیں۔ صحیح بخاری میں غار کے پتھر کی حدیث مذکور ہے کہ پہلی امت کے تین آدمی کہیں سفر میں جا رہے تھے۔ رات ہونے پر رات گزارنے کے لیے انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لی‘ اور اس میں داخل ہو گئے۔ اتنے میں پہاڑ سے ایک چٹان لڑھکی اور اس نے غار کا منہ بند کر دیا۔ سب نے کہا کہ اب اس غار سے تمہیں کوئی چیز نکالنے والی نہیں‘ سوا ئے اس کے کہ تم سب‘ اپنے سب سے زیادہ اچھے عمل کو یاد کر کے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ جب تینوں مسافروں نے خلوص سے اللہ سے دعا مانگی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے چٹان کو ہٹا دیا اور وہ سب باہر نکل کر چلے گئے۔
سفر میں اپنے وسائل کا درست استعمال کرنا اور اضافی اشیائے خورونوش کو ضرورت مند لوگوں کو فراہم کرنا باعث برکت اور ثواب ہے اور اس میں بخیلی کا مظاہرہ کرنا کسی بھی طور پر جائز اور درست نہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ''تین طرح کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے بات بھی نہ کرے گا‘ نہ ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا ‘بلکہ انہیں سخت درد ناک عذاب ہو گا۔ان میں سے ایک وہ شخص جو سفر میں ضرورت سے زیادہ پانی لے جا رہا ہے اور کسی مسافر کو ( جسے پانی کی ضرورت ہو ) نہ دے‘‘۔
انسان تو انسان رہے سفر میں انسان کو حیوانات کے بھی کام آنا چاہیے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا‘ ایک شخص راستے میں سفر کر رہا تھا کہ اسے پیاس لگی‘ پھر اسے راستے میں ایک کنواں ملا اور وہ اس کے اندر اتر گیا اور پانی پیا۔ جب باہر آیا تو اس کی نظر ایک کتے پر پڑی جو ہانپ رہا تھا اور پیاس کی سختی سے کیچڑ چاٹ رہا تھا۔ اس شخص نے سوچا کہ اس وقت یہ کتا بھی پیاس کی اتنی ہی شدت میں مبتلا ہے‘ جس میں میں تھا؛ چنانچہ وہ پھر کنویں میں اترا اور اپنے جوتے میں پانی بھر کر اس نے کتے کو پلایا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا یہ عمل مقبول ہوا۔ اور اس کی مغفرت کر دی گئی۔ صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ‘ کیا جانوروں کے سلسلہ میں بھی ہمیں اجر ملتا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں‘ ہر جاندار مخلوق کے سلسلے میں اجر ملتا ہے۔
سفر کو مکمل کرکے ہر انسان اپنے گھر پہنچنے کے لیے بے تاب ہوتا ہے اور اپنے گھر پہنچنے کا احساس انسان کو نئی ہمت اور نئی توانائی فراہم کر دیتا ہے۔ خود نبی کریم ﷺ بھی سفر سے واپسی پر مدینہ طیبہ کو دیکھ کر اس سے محبت کا اظہار فرمایا کرتے تھے۔ صحیح بخاری میں حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب کبھی سفر سے واپس آتے اور مدینہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری تیز فرما دیتے اور اگر کسی جانور کی پشت پر ہوتے تو مدینہ کی محبت میں اسے ایڑ لگاتے۔
گھر سے فطری محبت کے تحت ہر انسان اپنے گھر جلد از جلد پہنچنا چاہتا ہے‘ لیکن سنت نبوی شریف سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر انسان اس موقع پر اپنی منزل پر پہنچنے سے پہلے اگر نوافل کو ادا کرلے تو یہ بات اس کے لیے بہت بہتر ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت کعبؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب دن چڑھے سفر سے واپس ہوتے تو بیٹھنے سے پہلے مسجد میں جا کر دو رکعت نفل نماز پڑھتے تھے۔
سفر سے واپسی کے حوالے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو رات کے اندھیرے میں اپنے گھر اترنے کی بجائے دن کے وقت یا شام سے قبل اپنے گھر پہنچنا چاہیے۔ اس لیے کہ رات کے وقت واپس پہنچنے کی صورت میں گھر والے بے آرام ہوتے ہیں اور مسافر کو صحیح طور پر خوش آمدید بھی نہیں کہہ پاتے‘ جس کی وجہ سے انسان پر کئی مرتبہ غم یا جھنجلاہٹ کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (سفر سے ) گھر رات کے وقت اترنے سے منع فرمایا۔
اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ ( سفر سے ) رات کو گھر نہیں پہنچتے تھے یا صبح کے وقت پہنچ جاتے یا دوپہرکے بعد (زوال سے لے کر غروب آفتاب تک کسی بھی وقت تشریف لاتے ) ۔
اگر سفر پر جانے سے قبل اور واپسی پر آتے ہوئے کتاب وسنت کی تعلیمات پر عمل کر لیا جائے تو یقینا انسان کا سفر ہر اعتبار سے اس کے لیے دنیا وآخرت کی بھلائیوں کو سمیٹنے کا سبب بن سکتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں سفر کے دوران نبی کریم ﷺ کی سیرت و تعلیمات کو مدنظر رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)۔