تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     05-09-2019

تکلیف سے بچنا ہر بار درست نہیں

تکلیف سے بچنے کی کوشش انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ دنیا کا ہر انسان چاہتا ہے کہ جس تکلیف سے وہ بچ سکا ہے‘ اُس سے ضرور بچے۔ یہ عمل زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ رہنا ہی چاہیے ‘مگر کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ تکلیف سے بچنے کی کوشش ہر بار درست نہیں ہوتی؟ کوئی بھی الجھن اور پریشانی ہمیں ذہنی انتشار سے دوچار کرتی ہے۔ ٹھیک ہے‘ مگر کبھی کبھی یہ سب کچھ لازم اور سود مند بھی تو ہوتا ہے! تکلیف سے بچنے کی ہر کوشش انسان کے لیے سود مند نہیں ہوتی۔ بعض معاملات میں ہمیں جس تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ وہ ناگزیر بھی ہوتی ہے اور سود مند بھی۔ 
دنیا کا نظام ‘اسی طور چلتا آیا ہے۔ ہر زمینی حقیقت تلخ اور سخت ہوتی ہے۔ جو حقیقت پسندی کے وصف سے محروم نہیں ‘وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دنیا کو بہتر طور پر سمجھنے اور زندگی کے حقیقی تقاضوں کو نبھانے کے لیے لازم ہے کہ انسان حقیقت کا سامنا کرے۔ ہر زمینی اور ناگزیر حقیقت انسان کے لیے چیلنج کی طرح ہوتی ہے۔ ہر چیلنج انسان کو کسی نہ کسی سطح پر تکلیف سے دوچار کرتا ہے۔ جس معاملے کی درستی ہم پر لازم ٹھہرے اُس کا تبدیل کیا جانا ہمیں تکلیف دہ ہی محسوس ہوگا۔ 
دنیا کے ہر انسان کے لیے یہ حقیقت اچھی طرح سمجھ لینا لازم ہے کہ اس دنیا میں کوئی بھی بڑی تبدیلی پریشانی کا سامنا کیے بغیر واقع نہیں ہوئی۔ جس کسی نے بھی کچھ کرنا چاہا ہے‘ زندگی کا معیار بلند کرنے کی ٹھانی ہے اُسے آگے بڑھ کر الجھنوں اور پریشانیوں کو قبول کرنا پڑا ہے۔ کسی بھی نوع کی حقیقی تبدیلی انسان کو آسانیوں سے دور لے جاتی ہے۔ معاملات کا ڈھانچہ بدلنے کے لیے انسان کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ جب معمول سے ہٹ کر کچھ کیا جائے گا تو بہت کچھ لازمی طور پر بگڑے گا۔ تبدیلی بگاڑ کے بغیر واقع ہو ہی نہیں سکتی۔ 
کبھی کبھی ہم کسی معاملے میں پہنچنے والی تکلیف سے پریشان ہو اٹھتے ہیں۔ یہ ردِعمل فطری ہے ‘مگر ساتھ ہی ساتھ اور بھی تو بہت کچھ فطری ہے‘ مثلاً ہم اِس حقیقت پر غور کیوں نہیں کرتے کہ ہمیں کسی بھی حوالے سے کچھ نہ کچھ سکھانے والی ہر بات تھوڑی سی تکلیف دہ بھی ہوتی ہے۔ صورتِ حال کو تبدیل کرنے والی ہر بات کسی نہ کسی بات کو بگاڑ دیتی ہے۔ یہ بگاڑ ہمیں بہت بُرا لگتا ہے۔ ایسے میں قرینِ دانش یہ ہے کہ ہر تبدیلی سے پہنچنے والی تکلیف پر دکھ محسوس نہ کیا جائے‘ پریشان نہ ہوا جائے۔ 
انسان جب کسی بھی لگے بندھے معاملے کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بہت کچھ ہل جاتا ہے۔ دنیا کا معاملہ ہر دور میں ایسا ہی رہا ہے۔ جب ہم صورتِ حال کو جوں کی توں قبول کرکے زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں تب کسی بھی سطح پر کوئی الجھن دامن گیر نہیں ہوتی۔ معاملات ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح ہوں تو کہیں کوئی خرابی دکھائی نہیں دیتی۔ انسان کو یہ سب بہت اچھا لگتا ہے۔ 
ذرا غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ معاملات کا تبدیل نہ ہونا‘ صورتِ حال کا کسی ایک مقام پر ٹھہر جانا زندگی کا حُسن غارت کردیتا ہے۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر عمل مانگتی ہے۔ عمل کا مطلب ہے کسی نہ کسی تبدیلی کے لیے کی جانے والی کوشش۔ جب ہم کچھ تبدیل کرنے کی طرف رواں ہوتے ہیں تو تکلیف پہنچتی ہے۔ جو کچھ یومیہ بنیاد پر دکھائی دیتا ہو‘ ہماری زندگی کا حصہ ہو اُس کا اچانک دکھائی نہ دینا ہمیں الجھن سے دوچار کرتا ہے۔ ایسے میں تھوڑا بہت دل گرفتہ ہو رہنا بھی غیر فطری نہیں۔ توجہ اس نکتے پر مرکوز رہنی چاہیے کہ جو کچھ ہمیں تکلیف دے رہا ہوتا ہے ‘وہ کچھ نہ کچھ سکھا بھی رہا ہوتا ہے۔ 
ہر دور میں دنیا کی یہی ریت رہی ہے۔ انسان نے جب بھی کچھ سیکھا ہے‘ تب اُس نے تھوڑی بہت الجھن بھی جھیلی ہے‘ کچھ نہ کچھ تکلیف بھی اٹھائی ہے۔ تکلیف سہے بغیر انسان سیکھ نہیں پاتا۔ یہ ممکن ہی نہیں۔ اپنے قریب ترین ماحول میں اگر کوئی تبدیلی دکھائی نہ دے رہی ہو تو ہم پُرسکون رہتے ہیں۔ ہم ہر حال میں سُکون ہی تو چاہتے ہیں۔ مگر یہ بھی سوچا جائے کہ ہمیں سُکون اُس وقت میسر ہوتا ہے جب ماحول میں کوئی بھی تبدیلی واقع نہیں ہو رہی ہوتی‘ اپ گریڈیشن کا نام و نشان نہیں ہوتا! کسی بھی ماحول کو اپ گریڈ کرنے‘ بہتر زندگی کا سامان کرنے کے قابل بنانے کے لیے لازم ہے کہ اُسے تبدیل کیا جائے۔ مثبت تبدیلی کے لیے بہتر بنایا جانے والا ماحول ہی ہمارے لیے بہتر زندگی کا سامان کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔ 
سکھانے کا عمل انسان کے لیے ہمیشہ ہی بہت پریشان کن ثابت ہو یہ لازم نہیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پہلے سے اچھی خاصی تیاری کرنا پڑتی ہے۔ کسی بھی تبدیلی کے رونما ہونے سے پہلے اُس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں سوچنا اور تیاری کرنا لازم ہے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ بہت کچھ سیکھتے ہیں اور زیادہ تکلیف محسوس نہیں کرتے۔ سیکھنے کے عمل میں انسان کو اپنے اندر بہت کچھ تبدیل ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ کچھ سیکھنے کے لیے انسان کو بہت کچھ ''اَن سیکھا‘‘ کرنا پڑتا ہے۔ سوال کچھ نیا سیکھنے کا نہیں‘ بلکہ سیکھے ہوئے سے دامن کش ہونے کا ہے۔ یہ مرحلہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جو کچھ انسان کی فکری ساخت‘ معمولات یا مجموعی طور پر پورے وجود کا حصہ بن چکا ہو اُس سے بخوشی کنارا کرنا کسی کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ اِس معاملے میں دل پر اچھا خاصا جبر کرنا پڑتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اپنے علاقے میں جس عمارت کو آپ ایک زمانے سے دیکھتے آئے ہوں جب اُسے مسمار کیا جارہا ہوتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کے اپنے وجود کا کوئی حصہ کاٹ کر الگ کیا جارہا ہے! جب کسی پرائی چیز کے مٹنے کا دکھ ہوتا ہے تو پھر اپنے وجود کے کسی حصے سے الگ ہونے کا دکھ کیسا ہوگا؟ یقینا شدید اور بہت حد تک ناقابلِ برداشت۔ 
بھرپور ترقی‘ توازن اور استحکام اُسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے معاملات کو باقاعدگی سے درست کرنے پر متوجہ رہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماحول بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ ایسے میں ہمارا بدلنا بھی ناگزیر ہے۔ خود کو بدلنے کی ایک صورت یہ بھی ہے انسان کچھ نیا سیکھے۔ نیا سیکھنے کے عمل میں جس پریشانی‘ الجھن یا تکلیف محسوس ہو اُسے جھیلنا لازم ہے۔ یہ سب کچھ ہم سے غیر معمولی ذہنی تیاری کا تقاضا کرتا ہے۔ کسی بھی ماحول میں کامیاب وہی لوگ رہتے ہیں جو ہر مثبت تبدیلی کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں۔ جو تبدیلی ہماری زندگی کا معیار بلند کرتی ہو وہ برداشت کیے جانے کے حوالے سے کسی نہ کسی حد تک مشکل بھی ثابت ہوتی ہے۔ اِس کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا لازم ہے۔ سیکھنے کے عمل میں ہمیں بہت کچھ ترک کرنا ہوتا ہے اس لیے یہ عمل بالعموم خاصا تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔ ایسی ہر تکلیف کو سہنا ہی اِس بات کی دلیل ہے کہ ہم اپنے آپ کو بدلنے اور اپ گریڈ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تکلیف سے بچنے کی کوشش اچھی بات ہے مگر یہ ہر بار درست نہیں۔ کچھ سیکھنے کے عمل میں پہنچنے والی تکلیف کو ہنس کر گلے لگانے والے ہی شاہراہِ ہستی پر دوڑتے چلے جاتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved