تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     06-09-2019

میڈیا اور ہائبرڈ وارفیئر

آج 6 ستمبر ہے اورپاکستانی قوم اس دن کویومِ دفاع کے طورپر مناتی ہے۔ 54 برس پہلے وطنِ عزیز پرازلی دشمن بھارت نے حملہ کیاتھا‘ اس کامنصوبہ تھا کہ 6 ستمبر1965 ء بروز پیر صبح کاناشتہ لاہور میں جاکرکیا جائے‘لیکن اس کی خواہش آج تک پوری نہیں ہوسکی۔ 1965ء میں میجرعزیزبھٹی شہید نشان حیدر نے بھارتی حملے کابھرپور جواب دیا‘وطن عزیز کے ایک ایک انچ کادفاع کیا اور اپنی جان کانذرانہ پیش کرکے بھارتی عزائم خاک میں ملادیئے۔ افواجِ پاکستان جب وطن عزیز کے چپے چپے کادفاع کررہی تھیں اوردشمن کے حملے ناکام بنا رہی تھیں‘ عین اسی وقت بی بی سی لاہور میں بھارتی فوج کے داخل ہونے اورقبضے کی جھوٹی خبر نشرکررہاتھا۔میڈیا کوپروپیگنڈے کے ہتھیار کے طورپر استعمال کرکے پاکستانی قوم اورافواج پاکستان کے جوانوں میں بددلی پھیلانے کی مذموم اورمربوط منصوبہ بندی کی گئی تھی‘ لیکن دشمن کواس کاکوئی فائدہ نہ ہوا اورفتح حق اورسچ کی ہوئی۔
نصف صدی کے بعد اب ایک بارپھر دشمن کی طرف سے ایسی ہی خطرناک صورت حال کاسامنا ہے۔ازلی دشمن بھارت کے وزیراعظم‘ عصرِحاضر کے ہٹلر‘ طاقت کے زور پر ہندو بالادستی کو مسلط کرنا اور پاکستان کی شہ رگ کومکمل طورپرکاٹنا چاہتے ہیں۔ میڈیاپہلے سے کہیں بڑاہتھیاربن چکاہے۔ففتھ جنریشن وار‘ہائبرڈ وار اورنہ جانے کیا کیا نئی اصطلاحات ایجاد ہوچکی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کاخصوصی درجہ ختم کرنے‘کشمیریوں پرظلم وستم‘مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج کی قتل وغارت گری اورکرفیو مسلط کرنے کو33 روزسے زائد کاعرصہ بیت چکاہے۔ دشمن ایک طرف پاکستان کی شہ رگ کو کاٹنا اورہندوتوا کے نظریے کو مسلط کرکے بھارت کے مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کی نسل کشی کرنا چاہتاہے تو دوسری طرف پاکستان کواپنے ہی میرجعفر اورمیرصادق جیسے کرداروں کی طرف سے ففتھ جنریشن وار اورہائبرڈ وار کاسامنا ہے ۔کوئی غیرنہیں‘ اپنے ہی غیروں کابیانیہ اجاگر کرنے میں پیش پیش ہیں۔ ایسے عناصرسیاستدانوں اوردانشوروں کے روپ میں مسلسل پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی اورعسکری قیادت نے کشمیرکاسوداکرلیا ہے۔
یہ لوگ اپنے بیانات اورسوشل میڈیا کے ذریعے مکروہ اوربے بنیاد الزامات لگارہے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان وائٹ ہائوس کے کوریڈور میں صدر ٹرمپ کے ساتھ چہل قدمی کے دوران اور عسکری قیادت نے پینٹاگان میں اپنے ہم منصبوں کے ساتھ ملاقات میں کشمیرکاسوداکرلیا ہے‘پھرپاکستانی دانشوروں اورسیاستدانوں کے یہی بیانات اورپیغامات مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کوسنوائے جا تے ہیں اوران محبانِ وطن کوبتایاجاتاہے کہ جس پاکستان کاآپ نام لیتے ہیں اور''کشمیربنے گا پاکستان ‘‘کے نعرے لگاتے ہیں اورجس پاکستان پرآس لگا کرآپ اپنی جان ‘مال ‘عزت وآبروقربان کررہے ہیں‘ اس پاکستان نے کشمیرکاسوداکرلیا ہے‘ اس لئے آپ تحریک سے توبہ کریں اورجو ہوچکا اسے قبول کرلیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان عالمی رہنمائوں کے ساتھ رابطے کرکے پاکستان کامقدمہ پیش کررہے ہیں‘ جبکہ سفارتی سطح پروزیرخارجہ شاہ محمودقریشی متحرک ہیں۔ پاکستانیوں کاکلچر اورسوچ ایسی بن چکی ہے کہ ہم سول‘بالادستی کاحسین خواب تودیکھتے ہیں‘ لیکن سویلین قیادت کی گفتگو کواہمیت نہیں دیتے تاوقتیکہ عسکری قیادت کی طرف سے لب کشائی نہ ہوجائے۔ ہم سیاسی قیادت کی بات سنجیدہ لینے کوتیار نہیں ہوتے اورشاید عالمی برادری بھی اب اسی مزاج کی عادی ہوچکی ہے۔ وہ بھی‘ پاکستان کے داخلی معاملات ہوں یا سکیو رٹی معاملات‘عسکری قیادت کے باضابطہ موقف کی منتظررہتی ہے۔ بھارت کی طرف سے مقبوضہ وادی پرکئے گئے حالیہ حملے کے بعد یہ عناصر اسی نوعیت کے ابہام پیداکررہے تھے‘ جن کاازالہ کرناشاید اب ضروری ہوگیاہے‘ ورنہ سوشل اورپرائیویٹ میڈیا پرکیا جانے والا یہ پروپیگنڈا کشمیریوں کیلئے‘کشمیرکاز کیلئے اورخودپاکستان کے قومی مفادات کے حوالے سے زہرقاتل بنتاجارہا ہے ‘اوراہم مسلم اورغیرمسلم ممالک کے سفارت کاربھی اپنے تئیں یہ معلومات اکٹھی کرتے نظرآتے ہیں کہ پاکستان کی عسکری قیادت موجودہ صورتحال کوکس نظر سے دیکھتی ہے۔
ایک ماہ کی خاموشی توڑتے ہوئے افواج پاکستان کے ترجمان میجرجنرل آصف غفور نے گزشتہ روز آئی ایس پی آر کے آڈیٹوریم میں ایک بھرپور پریس کانفرنس میں کشمیر‘مقبوضہ کشمیر اوربھارت کے عزائم پرپاکستان اورافواج پاکستان کابیانیہ واشگاف الفاظ میں بیان کیا۔ انہوں نے تمام اہداف کھول کھول کراس اندازمیں میڈیا کے سامنے رکھے کہ کوئی ابہام باقی نہ رہے۔کچھ زبانی اورکچھ لکھا ہواپڑھ کربتایا‘کچھ باتیں دانت پیس کر اورکچھ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بیان کیں۔ ان کے مخاطب میڈیا اورسوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا کرنے والے دانشوربھی تھے اوراپوزیشن کے وہ رہنما بھی جو اپنے ذاتی اور سیاسی فائدے کیلئے پاکستان کے مقدمۂ کشمیر کوکمزورکرنے پرتْلے ہوئے ہیں۔
یوٹیوب پرجھوٹا پروپیگنڈا کرنے والوں سے مخاطب ہوتے ہوئے جنرل آصف غفور نے کہا کہ کشمیر پر سوداہماری لاشوں پر ہی ہوسکتاہے۔ بہتّرسال سے اس کاز سے پیچھے نہیں ہٹے تواب کیوں ہٹیں گے۔خالی ہاتھ بھی لڑنا پڑاتولڑیں گے۔ جتنی تکالیف کشمیریوں نے اٹھائی ہیں اس سے دوگنا بھارت کواٹھانا پڑیں گی۔انہوں نے اسرائیل کوتسلیم کرنے کی باتوں کوبھی مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ پینٹاگان میں کشمیرکاسودا کرنے کے الزامات لغو اورجھوٹ کے سواکچھ نہیں۔
جنرل آصف غفورنے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم شہریوں کوپیغام دیا کہ پاکستان اور افواجِ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ تھے‘ہیں اوررہیں گے۔کشمیرہماری شہ رگ ہے اوراس کے لئے کسی بھی حد تک جائیں گے‘خواہ اس کی کوئی بھی قیمت اداکرناپڑے۔آخری گولی ‘آخری سپاہی‘ آخری سانس تک لڑیں گے اوریہ کہ کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کاوقت آپہنچاہے۔قارئین کے علم میں یہ بات لانا بھی ضروری ہے کہ بھارتی اقدام پرجوردعمل اورپاکستان کے حق میں جوآوازیں بھی اب تک بلند ہوئی ہیں‘ وہ عالمی ذرائع ابلاغ اورغیرمسلم ریاستوں اورمغربی حکومتوں کی طرف سے ہی ہوئی ہیں۔ مسلم ممالک اورمسلم ریاستوں کاسب سے بڑا فورم او آئی سی اب تک پوری طرح متحرک نہیں ہوسکا بلکہ کچھ براہ راست اورکچھ حکمران بین السطور پاکستان کوصبروتحمل کی تلقین ہی کرتے نظرآرہے ہیں۔کشیدگی کم کرنے کابھاشن دے رہے ہیں‘ صورتحال کومعمول پرلانے کیلئے پاکستان کو یکطرفہ اقدامات کے بدلے میں کچھ اقتصادی امداد کالولی پاپ بھی دے رہے ہیں۔ پاکستان سے ایسے مطالبات نہ صرف قابلِ قبول نہیں بلکہ یہ پاکستان اورکشمیریوں کے زخموں پرنمک پاشی کے مترادف ہیں۔ برادر مسلم ممالک سعودی عرب اوریواے ای کے وزرائے خارجہ نے بھی تازہ ترین صورتحال کے پیش نظر پاکستان کادورہ کیا۔وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی‘وزیراعظم عمران خان اورآرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ سے ملاقاتیں کیں‘ جن میں پاکستانی سول وعسکری قیادت نے قومی موقف دوٹوک اندازمیں پیش کیا اورپاکستان کی سرخ لائنوں کاتعین بھی کردیا کہ پاکستان کسی کوکسی بھی قیمت پران سرخ لائنوں کوعبور کرنے کی اجازت نہیں دے گااورنہ ہی اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹے گا۔
دونوں معزز مہمانوں کی آمدسے چند لمحے قبل افواج پاکستان کے ترجمان نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ پاکستان کاآگے کالائحہ عمل بھارت کے پانچ اگست کے اقدام کی واپسی تک محدودنہیں۔ دنیا دیکھے کہ اس مسئلے کوابھی حل ہوناہے۔فوجی تیاریوں کے بارے میں پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی ہماری پالیسی نہیں ہے۔جنگیں ہتھیاروں یامعیشت سے نہیں عزت‘غیرت اورعوامی اعتماد کے ساتھ لڑی جاتی ہیں مودی اورعالمی برادری سن لے کہ اب پاکستان کامطالبہ اورہدف آرٹیکل 370 اور35اے کی واپسی نہیں ‘ بلکہ پاکستان اب اس سے کہیں آگے کاسوچ رہا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ مسئلہ کشمیر کوحل کرنے کی سیاسی و سفارتی کوششیں جاری ہیں اوراگرسفارتی وسیاسی کوششیں ناکام ہوتی ہیں توپھر اس کافوجی حل‘طاقت کااستعمال اورجنگ واحد آپشن ہوگا۔
ہماری اطلاعات کے مطابق پاک فوج کے ترجمان نے جو موقف پریس کانفرنس میں کھلے عام بیان کیا کم و بیش یہی اندازِ گفتگو عرب وزرائے خارجہ کے ساتھ قدرے سفارتی آداب کے ساتھ بند کمرے میں اختیار کیا گیا۔اور دونوں مہمان وزرائے خارجہ پاکستان کے رویے میں کوئی تبدیلی لانے میں ناکام رہے۔
اب کچھ دیر کے لیے اپنے قارئین کرام کو مقبوضہ کشمیر لیے چلتے ہیں۔آخر ایسی کیا افتاد آن پڑی ہے کہ پاکستان کو صبر و تحمل اور مختلف مراعاتی پیکیج کا لالی پاپ دیا جا رہا ہے؟اگر مقبوضہ کشمیر میں صورتحال بھارت کے کنٹرول میں ہے تو پھر اس نوعیت کی سفارتی کوششوں کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی‘ لیکن زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔دہلی نواز کشمیری قیادت محبوبہ مفتی ‘فاروق عبداللہ‘عمر فاروق اور دیگر رہنما بھی ان دنوں قید میں ہیں۔مودی سرکار نے محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ کے پاس اپنے ایلچی بھیجے اور ان سے مدد طلب کی ہے کہ وہ اگر مودی سرکار کی حمایت کریں تو انہیں کچھ مراعات دی جا سکتی ہیں‘ لیکن دونوں رہنماوں نے اس کا جواب نفی میں دیا‘جبکہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی انتہائی قریبی خاتون صحافی کو مقبوضہ وادی میں بھیجا گیا کہ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں اپنی رپورٹ مرتب کرے۔بھارتی صحافی نروپاماسبرامنیم نے مقبوضہ وادی میں چند دن گزارنے کے بعد سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا'' کشمیر کی وادی میں چھ دن گزارے‘بڑی حیرانی ہوئی ‘بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر حل ہو گیا ہے‘ مگر زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ کشمیر میں بھارت کا اب کوئی دوست باقی نہیں بچا۔یہاں تک کہ وہ بھی دوست نہیں رہے جو خود کو اعتدال پسندکہتے تھے اور مقبوضہ وادی میں بھارت کا مقدمہ پیش کرتے تھے۔ ''بھارت کی کہانی ہمارے لیے ختم ہو چکی ہے‘‘،ایسے جذبات کا اظہار اور اس طرح کی آوازیں مجھے وادی میں بار بار سننے کو ملیں‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved