تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     06-09-2019

شاید ہمارا مقدر ہی خراب

یہ غالباً 1968 ء کی سردیوں کی ایک صبح تھی۔ میونسپل پرائمری سکول چوک شہیداں میں صبح کی اسمبلی ہو رہی تھی۔ ہر روز سے تھوڑا ہٹ کر تھڑے پر ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص بھی کھڑا تھا۔ سکول میں کوئی ماسٹر بشمول ہیڈ ماسٹر صاحب کے پینٹ یا شرٹ نہیں پہنتا تھا۔ سب شلوار قمیض اور بعض اس کے اوپر ویسٹ کوٹ پہنتے تھے۔ پہلے والے ہیڈ ماسٹر صاحب خادم کتھیلی صاحب بہت ہی خوش پوشاک تھے۔ سردیوں میں جناح کیمپ، سیاہ شیروانی، سفید شلوار اور سیاہ موکیشن پہنتے تھے۔ گرمیوں میں جناح کیمپ کی جگہ کبھی کبھار سفید ململ والی دو پلی ٹوپی پہنتے۔ سیاہ شیروانی کی جگہ سفید رنگ کی شیروانی زیب تن کرتے اور موکیشن کی جگہ سیاہ رنگ کا پلین دیسی کھسہ پاؤں کی زینت ہوتا۔ نئے ہیڈ ماسٹر صاحب داڑھی کو مہندی لگاتے تھے اور شلوار قمیض کے اوپر واسکٹ پہنتے تھے۔ تھڑے پر موجود اس نئے شخص نے سیاہ پینٹ اور کوٹ پہنا ہوا تھا۔ ہم پہلے پہل سمجھے کہ شاید یہ کوئی سکول انسپکٹر ہے۔ تب ہمارے نزدیک سب سے بڑا افسر سکول انسپکٹر ہوا کرتا تھا۔ کبھی کبھار جب سکول انسپکٹر کا دورہ ہوتا تھا۔ سارا سکول چمکایا جاتا تھا۔ دروازے سے لے کر ہیڈ ماسٹر صاحب کے کمرے تک‘ راستے کے دونوں اطراف چونے کی لکیر ہوتی تھی۔ ٹاٹ خوب اچھی طرح جھاڑے جاتے تھے اور دیواروں پر لگے رنگین چارٹوں پر کپڑا مارا جاتا تھا۔ اس روز یہ سب کچھ بھی نہیں ہوا تھا لیکن اسمبلی میں بابو نما شخص موجود تھا۔
تلاوت، قومی ترانے اور ''لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ پڑھنے کے بعد ہیڈ ماسٹر صاحب نے ان صاحب کا تعارف کروایا۔ یہ چوک شہیداں پر اکبرر وڈ کے ایک بینک کے منیجر صاحب تھے۔ انہوں نے پہلے بچت کے موضوع پر ایک مختصر سا خطاب کیا اور پھر سکول کے بچوں کو دعوت دی کہ وہ پانچ روپے سے بینک میں اکاؤنٹ کھولیں اور اپنی بچت کو اس اکاؤنٹ میں جمع کریں۔ دل تو میرا بہت کیا کہ میں بھی اس بینک میں اپنا اکاؤنٹ کھولوں مگر جیب میں صرف چار آنے تھے جو آدھی چھٹی میں مزے کرنے کے لیے بطور جیپ خرچ روزانہ ملتے تھے۔ تب میں سکول کے ان چند خوشحال بچوں میں سے تھا جنہیں جیب خرچ کے لیے اتنی بڑی رقم ملتی تھی۔ چودھری محمد حسین کپڑے والوں کا بیٹا جمیل روزانہ آٹھ آنے یا روپیہ بھی لے کر آ جاتا تھا‘ باقی کوئی آنہ، کوئی دو آنے، بعض ٹکہ یعنی دو پیسے یا خالی ہاتھ ہی آ جاتے تھے۔ ٹاٹ والے سکول کی ماہانہ فیس غالباً آٹھ آنے یا بارہ آنے تھی۔ کسی کے پاس پانچ روپے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ سو بینک منیجر صاحب تقریر فرما کر خالی ہاتھ واپس چلے گئے‘ لیکن میرے دل میں ان کی تقریر سے جو شمع روشن ہو چکی تھی وہ بھلا اکاؤنٹ کھولے بغیر کہاں چین لینے دیتی۔ میں اگلے روز ابا جی سے ضد کرکے پانچ روپے جیب میں ڈال کر سکول چلا گیا۔ آدھی چھٹی میں سکول کی پیچھے والی دیوار کے سوراخ میں سے نکل کر نعیم موٹے کی گلی سے شارٹ کٹ مار کر بھاگم بھاگ بینک پہنچا‘ سیدھا منیجر صاحب کے کمرے میں گیا اور جیب سے پانچ روپے نکال کر ان کے سامنے میز پر رکھ دیئے۔ منیجر صاحب نے ایک مختصر سا فارم پُر کیا۔ میرے سامنے رکھا اور اس پر دستخط کرنے کو کہا۔ بھلا میں نے دستخط کب کیے تھے؟ سو زندگی میں پہلی بار دستخط کی ضرورت پڑی تو بڑی سوچ بچار کے بعد انگریزی کا Kلکھا اور اس کے گرد گھما کر ایک دائرہ سا بنایا اور پھر سانپ کی طرح ایک لہرے دار لکیر کھینچی اور بس دستخط ہو گئے۔ اس دوران منیجر صاحب نے عزت افزائی کرتے ہوئے ایک عدد کولڈ ڈرنک پلائی اور میں ان کا اکاؤنٹ ہولڈر بن گیا۔
کیا زمانہ تھا؟ تب ہمارا بینکنگ سسٹم ہندو بنیے یا مہاجن کی پیروی کرتا تھا اور چھوٹی سے چھوٹی رقم بھی نہایت عزت و آبرو سے بینک میں جمع کر لیتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں آدھی چھٹی میں کبھی ایک روپیہ اور کبھی دو روپے بینک جمع کروانے جاتا تھا۔ ایک عدد چیک بک بھی اسی روز مل گئی تھی جس روز اکاؤنٹ کھولا تھا اور ایک عدد جیبی سائز کی پاس بک بھی ملی جس میں جمع خرچ کا حساب ہوتا تھا اور ہمہ وقت پتا چلتا رہتا تھا کہ آپ کے اکاؤنٹ میں کتنے پیسے جمع ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔ بینکوں کو اربوں روپے کا نفع ہونے لگا۔ بعض بینکوںنے تو تھوڑے پیسے والے اکاؤنٹس کی باقاعدہ حوصلہ شکنی شروع کر دی کہ ایسے لوگ کسی اور بینک میں چلے جائیں۔ بعض اونچے ناموں والے بینکوںنے داخلی دروازے کے سامنے کاؤنٹر پر ایک دو فر فر انگریزی بولنے والی خواتین بٹھا دیں جنہیں دیکھ کر بے چارے دیہاتی تو مارے گھبراہٹ کے بینک کے دروازے سے ہی واپس لوٹ جاتے ہیں۔ بینک سٹیٹمنٹ، چیک بک، اے ٹی ایم کارڈ وغیرہ کے حصول پر فیس عائد کر دی۔ غرض ہر سہولت ادائیگی سے مشروط کر دی گئی۔
اللہ خوش رکھے شوکت ترین صاحب کو‘ جب میاں نواز شریف کی دعوت پر 1997ء میں ایک بینک کے صدر کے طور پر پاکستانی بینکنگ سیکٹر میں داخل ہوئے تو نئی نئی اختراعات ہمراہ لائے۔ اپنے بینک میں کم از کم رقم بلامعاوضہ رکھنے کا قانون متعارف کروایا۔ اس کے تحت اگر کسی اکاؤنٹ ہولڈر کے ا کاؤنٹ میں جمع شدہ رقم پانچ ہزار روپے سے کم ہو تو اس اکاؤنٹ سے ماہانہ معاوضہ منہا کرنا شروع کر دیا۔ اب مجھے یاد نہیں کہ یہ کٹوتی کتنی تھی لیکن میرا خیال ہے یہ ماہانہ پچاس روپے تھی۔ یعنی اگر آپ کے اکاؤنٹ میں پانچ ہزار روپے سے کم رقم ہے تو بینک آپ کے اکاؤنٹ سے سالانہ چھ سو روپے کاٹ لے گا۔ یہ اکاؤنٹ Maintenance فیس تھی۔ بینک کا کہنا تھا کہ اتنی کم رقم پر بینک کو کسی قسم کا نفع تو ایک طرف رہا الٹا نقصان ہو رہا ہے‘ لہٰذا بینک آپ کے اکاؤنٹ کو برقرار رکھنے پر جو خرچہ کر رہا ہے آپ اس کی ادائیگی کریں۔ یہ غالباً 1998ء کا واقعہ ہے جب یہ کٹوتی شروع ہوئی۔ ان کی دیکھا دیکھی دیگر بینکوں نے بھی یہ کٹوتی شروع کر دی اور چھوٹے اکاؤنٹ ہولڈرز کے اکاؤنٹس سے بلامبالغہ کروڑوں روپے کاٹ لیے گئے۔ تھوڑے عرصے کے بعد سٹیٹ بینک کو اس کی اطلاع ملی تو اس نے سب بینکوں کو جرمانے کر دیے۔ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ پیسے تو غریب اکاؤنٹ ہولڈر کے کٹے تھے اور بینک کی جیب میں گئے۔ جرمانہ مرکزی بینک کی جیب میں چلا گیا‘ اس ساری تگ و دو کا اکاؤنٹ ہولڈر کو کیا فائدہ ہوا؟ بجائے اس کے کہ ناجائز کاٹے گئے پیسے واپس اس اکاؤنٹ ہولڈر کو ملتے جس کے اکاؤنٹ سے کاٹے گئے تھے جرمانے کی رقم مرکزی بینک نے کھری کر لی۔
یہی اب دو سو آٹھ ارب روپے والی معافی کا معاملہ تھا۔ یہ وہ رقم ہے جو گیس انفراسٹرکچر سرچارج کی مد میں عوام سے پانچ سال کے دوران عوام سے وصول کئے گئے تھے۔ مثلاً صرف یوریاکھاد پر کسان نے فی فوری 405روپے ادا کیے تھے۔ کھاد بنانے والی کمپنیوں نے کسانوں سے فی بوری یہ 405روپے کی رقم وصول کی۔ ایل این جی ٹرمینل بنانے کیلئے گیس پر عائد سرچارج وصول کیا گیا۔ کھاد فیکٹریوں اور بجلی بنانے والے بجلی گھروں کے مالکان نے پانچ سال تک یہ رقم عام آدمی سے وصول کی‘ لیکن یہ رقم آگے سرکاری خزانے میں جمع کروانے کے بجائے اس پر سٹے آرڈر لے لیا اور رقم اپنی جیب میں ڈالی جاتی رہی‘ حالانکہ یہ رقم ‘جو گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کے نام پر 2011ء میں حکومت پاکستان نے عائد کی تھی‘ ملک میں گیس کے انفراسٹرکچر اور ایران و ترکمانستان سے گیس لانے کیلئے پائپ لائن کی تعمیر پر خرچ ہونا تھی۔ کل وصول شدہ رقم 416 ارب تھی۔ آدھی حکومت نے برابر کر لی اور آدھی صنعتکاروں کو مع سود معاف کردی گئی تھی۔ جب یہ ساری خبریں مجھ تک پہنچیں تو میں نے سوچا کہ ہمارا اور آپ کا شاید مقدر ہی خراب ہے۔ پہلے والے حکمران ہمارے ساتھ یہی کچھ کر رہے تھے اور موجودہ حکمران بھی۔ بہرحال اس حوالے سے جاری کیا گیا آرڈیننس اب وفاقی حکومت نے واپس لے لیا ہے‘ جو کہ خوش آئند ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ عوام سے وصول کی گئی یہ رقم اس انفراسٹرکچر پر خرچ کی جائے‘ جس کے لیے جمع کی جاتی رہی تاکہ قومی ترقی کی راہ ہموار ہو سکے یا پھر ان لوگوں کو واپس کی جائے جن سے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی مد میں وصول کی جاتی رہی ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved