ویسے تو ان دنوں پاکستان کے کسی شہر،قصبے یا بستی کا نام لیں، بیشتر کیبل آشنا لوگ وہاں الیکشن لڑنے والوں کا نہ صرف شجرہ نسب کھول کے بیٹھ جائیں گے بلکہ یہ تک بتانا شروع کر دیں گے کہ وہاں سے جیت سکنے والے کون کون ہو سکتے ہیں اور اگر جمہوریت دشمنوں نے خدا نخواستہ ان کے محبوب لیڈر اغوا کر لیے تو وہ خود کس کس کے دستِ حق پرست پر بیعت کر کے اپنی ’قومی خدمات‘ کا آغاز نئے مالی سال سے پہلے ہی کرنا چاہیں گے۔مثال کے طور پر میَں اگر بڑے بڑے شہروں کی بجائے ملتان کے جنوب میں واقع ایک تاریخی شہر شجاع آباد کا نام لوں تو خود میرے تصور یا سیاسی یادداشت میں پیپلز پارٹی کے ایک جذباتی رکن قومی اسمبلی ابھر کے سامنے آ جائیں گے،جو 1988ء میںگورنر پنجاب جنرل ٹکا خان کے سامنے میاں صاحب کی پولیس اساس سیاست کے خلاف بات کرتے ہوئے تقریباً رو پڑے اور کہا کہ اگر ان کے علاقے کے ایس ایچ او کو نہ ہٹایا گیا تو وہ اسے یا خود کو گولی مار لیں گے۔ (گورنر کے تب کے پرنسپل سیکرٹری طارق محمود کو یہ مکالمے یاد ہوں گے،ویسے وہ غضنفر علی گل کو بھی ایک جاذبِ اشک رومال دے دیا کرتے تھے)۔خدا کا شکر ہے کہ سید خاندان کے اس سپوت کے عندیئے میں موجود ایسی طمنچہ بازی کی نوبت نہیں آئی۔وہ اب میاں نواز شریف کے ایک جاں نثار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں ، بلکہ انہوں نے اپنے محبوب قائد کے جلسے میں یہ اعلان بھی کیا ہو گاکہ ہم پولیس اور پٹواری کو نئے پاکستان کی تعمیر میں استعمال کریں گے،جس پر پٹواریوں اور پولیس والوں نے بھی تالیاں بجائی ہوں گی‘ اگر ان کے دلوں میں چھوٹے میاں صاحب کی ہیبت اور خدشہ ابھی باقی ہے۔پتا نہیں متوالوں کو یہ یاد بھی رہا ہے یا نہیں کہ جنرل مشرف کی بغاوت کے دن میاں صاحب شجاع آباد میں ہی جلسہ کر رہے تھے اور پرانے ملتانیوں کی یادداشت میں لوگ یہاں آنکھیں بنوانے آیا کرتے تھے،اب اس جماعت کی طرف سے وفا،ایثار اور قومی خدمت کی بازیابی کے لیے کھلے ٹینڈر دئیے جاتے ہیں،تاکہ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل سستی روٹی کے ان تنوروں کو ابلنے ہی نہ دے،جہاں سے طوفانِ نوح بر آمد ہونے کی عادت رکھتا ہے۔ ویسے پاکستان پیپلز پارٹی پر بھی آج کل پیغمبری وقت آیا ہوا ہے،اس کی فکری قیادت ہمارے رحمن ملک فرما رہے ہیں،وہ کسی حالیہ پریس کانفرنس سے خطاب کے لیے تشریف لا رہے تھے تو ان کی گاڑی کو کسی ایسے ٹرک نے ٹکر مار دی،جسے کوئی شیر خان چلا رہا تھا مگر ان سے غالباً کسی صحافی نے یہ سوال نہیں کیا کہ یہ ان گاڑیوں میں سے تو نہیں تھی،جنہیں ایک سو کی تعداد میںروزانہ کوئٹہ سے خریدا جاتا تھا یا اچھے دنوں میں پانچ دس کی حقیر تعداد میں اپنے ماتحت مگر مستعد افسروں سے نذرانوں کی صورت میں وصول کی جاتی تھیں۔ اب عمران خان نے جو اعلان کیا ہے کہ ہم نے پانچ سو مگر مچھوں کی فہرست بنا لی ہے اور ان کے پیٹ چاک کر کے کرپشن کا پیسہ نکالا جائے گا۔خدا کرے ایسا ہو جائے کہ ہمارے وطن میں آج سے پچاس سال پہلے بائیس خاندانوں کے پیٹ چاک کرنے کی بات ہوتی تھی،ممکن ہے یہ پیٹ چاک ہوئے ہوں اور ان میں سے نئے سیاسی رہنما یا ڈکٹیٹروں کے ساتھی بھی برآمد ہوئے ہوں،اب یہ کوئی ہرن تو تھے نہیں کہ میَں کہہ سکوں کہ ایک ایسی کستوری سے میرے پسندیدہ کرکٹر جاوید میاں داد بھی فیض یاب ہوئے۔ویسے ہمارے ہاں کے مگر مچھ اپنے آنسوئوں کے لیے مشہور ہیں،جنہیں آپ لاکھ کہیں کہ جھوٹے آنسو بہانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے مگر جن بزرگوں نے ان کی توبہ قبول کی،وہاں یہ مگر مچھ نہیں،بابا جی کی جوئیں کہلاتے ہیں۔یقین نہ آئے تو منگھوپیر کی درگاہ پر جا کر وہاں کے مگر مچھ دیکھ لیجیے۔ عمران خان کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ وہ جنگل میں رُکی ہوئی پاکستان کی وہ گاڑی چلا سکتا ہے،جس کا نقشہ شوکت تھانوی نے اپنے لازوال مضمون’سودیشی ریل‘ میں کھینچا ہے۔ مگر ساتھ ہی مجھے یہ خیال بھی آتا ہے کہ اس کے دائیں بائیں جو گدی نشیں بیٹھے ہیں،اگر انہوں نے ان تمام مگر مچھوں کی توبہ کچھ نذرانوں کے عوض قبول کر لی اور انہیں بھی اپنی درگاہوں کے تالابوں میں چھوڑ دیا اور اپنے کھال مست نظام کی جوئوں کے طور پر مشہور کر دیا تو یہ ہو سکتا ہے کہ لوگ انہیں جوئوں کی بجائے جونکیں کہنا شروع کردیں کہ میرے تعصب کے مطابق ہمارے موجودہ پیروں سے زیادہ روشن ضمیر ان کے مرید ہیں جو انتخابات میں انہیں ذلیل و خوار ہونے دیتے ہیں۔ ہم سکول ماسٹروں کے ساتھ یہ تو رہتا ہے کہ کبھی تمہید اصل مضمون کی جگہ لے لیتی ہے ۔ ماجرا یہ ہے کہ آج میَں نے آپ کو سرائیکی کے عوامی شاعرشاکر شجاع آبادی کاایک شعر سنانا تھا۔یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ شاکر سے بھی پہلے ایک سرائیکی شاعر تھا،سوبھا شجاع آبادی،جس نے دیوان مولراج کے دور میں دو انگریز افسروں کے قتل کے حوالے سے اور برٹش راج کے خلاف سرائیکی میں وہ نظم لکھی تھی،جو ’وار‘ کہلاتی ہے۔انگریزوں نے اپنے مقتولین کی یادگار ایک لاٹ کی صورت میں بہاء الد ین زکریا ؒاور شاہ رکن عالم ؒکے مقبروں اور آں جہانی قدیم ترین پرہلاد کے مندر کے قریب بنا رکھی ہے،مگر ہمارے ہاں آزاد لوگوں کو کبھی خیال نہیں آیا کہ سوبھے کی یہ وار ہی اپنے قلعے پر آویزاں کر دیں۔ بہرطور اسی شجاع آباد کا شاعر یہ شاکر ہے،جس کی مقبولیت ہمارے تمام سیاسی امید واروں سے کہیں بڑھ کر ہے۔اس کی کتاب ’کلامِ شاکر‘ کی ورق گردانی کرتے ہوئے ایک شعر نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔سِجھ تو آپ جانتے ہیں سورج کو کہتے ہیں،یہاں اس کے طلوع کا وقت یا صبح مراد ہے،دیگر،مغرب کا وقت ہے،لال اشارہ ٹریفک سگنل ہے اور وہ بے حس اشارہ،جسے اس سے غرض نہیں کہ انتظار میں کس کس کی عمر اکارت گئی۔شعر یہ ہے: سِجھ دا کھڑاں، دیگر آ گئی لال اشارے! کُجھ تاں سوچو یہ جو نئے نظام کے انتظار میں کروڑوں غریب پچھلے چھیاسٹھ سال سے اپنے اپنے خوابوں کی پوٹلیاں باندھے کھڑے ہیں اور ان میں میری طرح کے لوگوں کی دیگر یا شام آ گئی،کون سا لال اشارہ ہے جو تبدیلی آنے نہیں دیتا۔جھوٹی سچی زرعی اصلاحات ہوئی تھیں تو عوامی پارٹی کے سیکرٹری جنرل سردار فاروق خان لغاری ان کے خلاف ضیاء الحق دور میں اپیل کرنے چلے گئے تھے اور بعد میں ہماری سیاست جاگیرداری کے خاتمے میںلال اشارہ بن گئی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved