تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     06-09-2019

سرخیاں‘متن‘ ٹوٹا اور ضمیرؔ طالب

جب تک لاہور میں دانہ پانی لکھا ہے کوئی ختم نہیں کر سکتا: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''جب تک لاہور میں دانہ پانی لکھا ہے‘ کوئی ختم نہیں کر سکتا‘‘ اور اگر دانہ ختم بھی ہو جائے تو میں پانی پر گزارہ کر سکتا ہوں‘ کیونکہ پانی کبھی ختم نہیں ہو سکتا کہ بارشوں اور سیلابوں کا کوئی حساب ہی نہیں‘ بلکہ یوں سمجھیے کہ سارا دانہ پانی وزیراعظم ہی نے سٹور کر رکھا ہے اور انہوں نے مجھے اسی وقت پسند کر لیا تھا جب پہلی بار اُن کی نظر مجھ پر پڑی تھی‘ کیونکہ اپنی صحت مندی وغیرہ کے طفیل میں تو دور سے ہی نظر آ جاتا ہوں۔ سو‘ یہ پہلی نظر کا عشق ہے ‘جو اب تک قائم ہے‘ لیکن میرے خلاف کئی لوگ اُن کے کان بھرتے ہی رہتے ہیں اور وہ کافی حد تک کانوں کے کچے بھی ہیں‘ جسے پنجابی میں لائی لگ کہا جاتا ہے جیسا کہ انہیں بہلا پھُسلا کر اربوں روپے بھی معاف کروا لیے گئے تھے۔ وہ تو بھلا ہو رئوف کلاسرا جیسے صحافیوں کا‘ جنہوں نے بروقت انہیں آگاہ کر دیا‘ ورنہ اسی سخاوت کی وجہ سے اُن کے خلاف جو ریفرنس آنا تھا‘ اُسی میں سے وہ کبھی نہ نکل پاتے۔ آپ اگلے روز دنیا نیوز کے ٹی وی پروگرام آن دی فرنٹ میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
لڑکھڑاتی حکومت کو ایک لات مارنے کی دیر ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''لڑکھڑاتی حکومت کو ایک لات مارنے کی دیر ہے‘‘ البتہ اگر انہوں نے مجھے لات پہلے مار دی تو اور بات ہے ‘کیونکہ مجھے حفاظتی تحویل میں لینے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں اور اوپر سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے کشمیر کا بہانہ بناتے ہوئے میرے لاک ڈائون پروگرام میں شمولیت سے بھی معذرت کر دی ہے اور اسی لیے میں نے حکومت کو لات مارنے والی بات کہی تھی‘ لیکن حکومت چونکہ لاتوں کا بھوت سمجھتی ہے‘ اس لیے پہل ان ہی کی طرف سے ہو گی اور میں اگر لات نہ مار سکا تو اُن کے پھٹے میں ٹانگ تو اڑا ہی سکوں گا ‘ اس لیے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں اور اگر اس ٹانگ سے کام نہ لیا گیا تو یہ پڑے پڑے ویسے ہی بیکار ہو جائے گی ۔ آپ اگلے روز روہڑی میں جے یو آئی کے متعدد رہنمائوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خان کی تبدیلی نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور ن لیگ کے مرکزی رہنما چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''عمران خان کی تبدیلی نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا‘‘ حالانکہ یہ کام پوری خوش اسلوبی کے ساتھ ہم پہلے ہی کر چکے تھے اور اب اس نے ہماری نقل کرتے ہوئے انہی کی گہرائیوں سے نکال کر اسے دوبارہ غرق کر دیا ہے؛ حالانکہ یہ بیڑہ پہلے ہی اتنا کمزور تھا کہ بار بار غرق ہونے کی اس میں سکت ہی نہیں تھی‘ جس کے عوض اُسے بیڑے کی صرف بددعائیں ہی ملیں گی؛ حالانکہ ہم نے برسر اقتدار آ کر اسے ایک بار پھر غرق کرنا تھا‘ جبکہ پہلے ہی اس پر کافی خرچہ اٹھ چکا تھا ‘کیونکہ بیڑے کو غرق کرنے کیلئے سمندر تک لے جانا ابھی کوئی معمولی اور آسان کام نہیں‘ لیکن ہماری روایت ہے کہ ہم مشکل کام کو بھی چیلنج سمجھ کر کرتے ہیں۔ آپ اگلے روز مسلم لیگ کی مرکزی رہنما مریم نواز کی پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
صفایا 
بھارت بڑھ بڑھ کر جو جنگ کی باتیں کر رہا ہے‘ اسے شاید یہ اندازہ نہیں کہ یہ اگر شروع ہو گئی‘ تو ایٹمی مرحلے تک بھی جا سکتی ہے‘ جس صورت میں بقول شیخ رشید احمد بھارت کے مندروں میں نہ گھنٹیاں بجیں گی‘ نہ گھاس اگے گی اور یہاں بھی گھاس نہیں ہوگی‘ کیونکہ ایٹمی جنگ سے دونوں ملکوں کا خدانخواستہ صفایا ہی ہو کر رہ جائے گا اور جس کے نتیجے میں کروڑوں مسلمان تو پھر بھی دُنیا میں باقی رہ جائیں گے۔ ہندوئوں کا تو بیج ہی مارا جائے گا اور مودی صاحب کی ہندوتوا بھی اسی گرد و غبار میں ناپید ہو جائے گی۔ اس لیے موصوف اپنی قوم ہی کی نسل کشی کی راہ ہموار کر رہے ہیں اور بقول شاعر مشرق ع
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
اور‘ اب آخر میں ضمیرؔ طالب کی شاعری‘ اس نوٹ کے ساتھ کہ انہوں نے جو اشعار اگلے روز بھجوائے تھے ‘وہ مجھے موصول نہیں ہوئے:
آپ جس کو خموشی کہتے ہیں ضمیرؔ
احتجاجی کوئی صدا ہی نہ ہو
اب خبر تک نہیں ہوتی اُس کو
شہر سے ہو کے چلا جاتا ہوں
جاگتے میں جہاں جا سکتا نہیں
میں وہاں سو کے چلا جاتا ہوں
ہر حقیقت بھی حقیقت نہیں ہوتی ہے ضمیرؔ
سارے افسانے بھی افسانے کہاں ہوتے ہیں
عشق میں دخل نہیں کوئی ارادے کا ضمیرؔ
یہ نماز ایسی ہے جو ہوتی ہے نیّت کے بغیر
کسی کی مجھ پر نظر نہیں ہے
بڑے مزے سے میں جی رہا ہوں
ہر ایک چیز کوئی اور چیز ہے یہاں پر
ہر ایک شخص کوئی دوسرا نکلتا ہے
اور ثبوت بنائے جا سکتے ہیں
فیصلہ اور کرایا جا سکتا ہے
گر اس تخت پہ ہم نہیں بیٹھ سکیں گے
تو یہ تخت گرایا جا سکتا ہے
سیمنٹ‘ سریا‘ گیس اور بجلی کچھ بھی
اپنے ملک میں سب کچھ کھایا جا سکتا ہے
یہ ری پورٹ دبائی جا سکتی ہے
وہ ریکارڈ جلایا جا سکتا ہے
ایک وہ خواب تھا جو نیند میں ہوتا تھا‘ ضمیرؔ
ایک یہ خواب ہے سونے نہیں دیتا مجھ کو
آج کا مقطع
ایسا ہی تھا موسم ظفرؔ ایسی ہی فضا تھی
جب ٹوٹ رہے تھے مرے اندر کے ستارے

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved