ہم اِس دنیا میں اگر دوسروں سے منفرد دکھائی دیتے ہیں تو کس بنیاد پر؟ کردار کی بنیاد پر؟ طرزِ زندگی کی بنیاد پر یا پھر فکر و عمل کی بنیاد پر؟ کردار کی بنیاد پر بھی ہم دوسروں سے الگ دکھائی دے سکتے ہیں مگر یہ کوئی حتمی معاملہ نہیں۔ محض کردار کی بنیاد پر کوئی خود کو معاشرے کے لیے زیادہ مفید نہیں بناسکتا۔ محض طرزِ زندگی کی بنیاد پر بھی کوئی دوسروں سے منفرد ثابت نہیں ہوسکتا۔ طرزِ زندگی میں دکھاوا بھی ہوسکتا ہے۔ بہت سے لوگ ہوتے کچھ ہیں اور دکھائی کچھ اور دینے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
ایسے میں انفرادیت قائم کرنے کی ایک ہی صورت رہ جاتی ہے ... یہ کہ انسان فکر و عمل کے اعتبار سے خود کو بلند کرے۔ فکر و عمل کی بلندی کب ممکن ہے؟ اِس کی معقول ترین صورت یہ ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ سیکھے‘ یعنی علم بھی حاصل کرے اور فن میں مہارت بھی پیدا کرے۔ علم و فن کے حوالے سے خود کو منوانے کے لیے لازم ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرے۔ مطالعے ہی سے فکر و نظر کی بلندی نصیب ہوتی ہے‘ شخصیت نکھرتی ہے۔ مطالعہ کس چیز کا ہوتا ہے؟ ظاہر ہے‘ تحریر کا یعنی لکھی اور چھپی ہوئی بات کو ہم مطالعہ کہتے ہیں۔ آج کل ایسی بہت سی کتابیں بھی شائع ہو رہی ہیں جو لکھی نہیں گئیں! جی ہاں‘ کسی کی تقریر‘ گفتگو یا انٹرویو کو ضبطِ تحریر میں لاکر مضمون یا کتاب کی شکل میں شائع کرنے کا چلن بھی اب عام ہے۔ ایسی کسی بھی چیز کا مطالعہ فکری ساخت کو بلند کرنے میں کچھ خاص کردار ادا نہیں کرتا۔ لوگ جب خطاب یا گفتگو کرتے ہیں تو باتوں میں علمی اعتبار سے زیادہ دم نہیں ہوتا۔ ہو بھی نہیں سکتا۔ کوئی اگر علم کی پختگی بھی رکھتا ہو تو بولنے اور لکھنے کا فرق ختم نہیں کرسکتا۔ دیکھا گیا ہے کہ باضابطہ تسلیم شدہ اور احترام کے قابل سمجھے جانے والے اہلِ علم بھی جب بولتے ہیں تو کچھ اور ہوتے ہیں اور لکھنے بیٹھتے ہیں تو کچھ اور ہوتے ہیں۔
جب کوئی اہلِ علم پوری تیاری کے ساتھ کوئی کتاب لکھتا ہے تو اُس کا معیار تقریر سے کئی گنا ہوتا ہے۔ لکھتے وقت انسان درست ترین حوالے بھی درج کرتا ہے‘ حقائق کی درستی پر بھی متوجہ ہوتا ہے‘ زبان و بیان کی سلاست کا بھی خیال رکھتا ہے اور اِس نکتے کو بھی نظر انداز نہیں کرتا کہ کتاب خاصی طویل مدت تک ''متعلق‘‘ رہنی چاہیے۔ کسی بھی معاملے کو کتابی شکل میں لکھنے کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ جو کچھ لکھا جائے اُس کی نوعیت وقتی نہ ہو‘ بلکہ جب بھی لوگ پڑھیں تو محسوس کریں کہ وہ غیر متعلق یا از کار رفتہ نہیں ہوئی۔
مطالعہ انسان کو محض معلومات فراہم نہیں کرتا‘ بلکہ سوچنے کی تحریک بھی دیتا ہے۔ باقاعدگی سے مطالعہ کرنے والے جب اعلیٰ درجے کی تخلیقات سے مستفید ہوتے ہیں تو اُن کا سوچنے کا انداز ہی تبدیل نہیں ہوتا‘ معیار بھی بلند ہوتا ہے۔ مطالعے کے نتیجے میں اگر کوئی بہتر سوچنے کے قابل نہیں ہو پاتا تو پھر یہی سمجھا جائے گا کہ اُس کا مطالعہ معیاری نہیں ‘یعنی وہ اعلٰی درجے کی تخلیقات کا مطالعہ نہیں کر رہا۔
ویسے تو خیر مطالعہ انسان کو کسی نہ کسی حد تک بلند ہی کرتا ہے مگر مطالعے کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ انسان دوسروں کی سوچ یا نظریات کا اسیر ہو جاتا ہے۔ جب ہم دوسروں کو زیادہ پڑھتے ہیں تو اپنے خیالات ایک طرف رکھ کر اُنہی کے خیالات کو زندگی کا حصہ بنانے لگتے ہیں۔ مطالعہ انسان کو اگر سوچنا یا بہتر انداز سے سوچنا نہ سکھائے تو کس کام کا؟
جو لوگ بہت مطالعہ کرتے ہیں وہ متعلقین ‘یعنی مصنفین کے محض انداز ہی نہیں‘ خیالات سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اُن کی اپنی سوچ پیچھے رہ جاتی ہے اور پڑھی ہوئی باتیں فکری ساخت کا زیادہ حصہ بن جاتی ہیں۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ گفتگو کے دوران وہ بات بات پر اُن باتوں کا حوالہ دے رہے ہوتے ہیں ‘جو اُنہوں نے پڑھ رکھی ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی بہت زیادہ حوالے دینے سے اُن کی اپنی سوچ مشکوک ٹھہرتی ہے۔ سُننے والے سوچنے لگتے ہیں کہ یہ شخص خود بھی کچھ سوچتا ہے یا نہیں۔
رالف والڈو ایمرسن کا شمار اُن مفکرین میں ہوتا ہے جنہوں نے زندگی بھر اچھا سوچا اور اُسے لوگوں تک پہنچایا تاکہ وہ معیاری زندگی بسر کرنے کے حوالے سے بہتر تیاری کرسکیں۔ ایمرسن کے مضامین نے لاکھوں افراد کو بہتر زندگی بسر کرنے کی تحریک دی ہے۔ اِن مضامین میں ایمرسن نے زندگی کے انتہائی بنیادی موضوعات پر اپنی ٹھوس رائے دی ہے اور پڑھنے والوں کو بھی سوچنے پر مائل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ایمرسن نے کہا تھا ''مجھے دوسروں کی کہی ہوئی باتوں کا بار بار حوالہ دیئے جانے سے نفرت ہے۔ اہمیت اس بات کی ہے جو شخص مجھ سے بات کر رہا ہے وہ بتائے کہ اُسے کیا معلوم ہے‘ وہ کیا جانتا ہے۔ یعنی اُس کے خیالات مجھ تک پہنچنے چاہئیں ‘تاکہ اُس کی سوچ کی درستی یا کجی کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگاکر اپنی بات آگے بڑھاسکوں۔‘‘
کچھ لوگ بات بات پر دوسروں کے خیالات اور نظریات کا اس قدر حوالہ دیتے ہیں کہ اُن کے اپنے خیالات کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ قدم قدم پر یہی محسوس ہوتا ہے کہ: ع
منصور کے پردے میں خدا بول رہا ہے!
کسی خاص نکتے کی وضاحت کے لیے کسی کے خیالات کا حوالہ دینے میں کچھ ہرج نہیں مگر زیادہ زور اس بات پر رہنا چاہیے کہ آپ کیا سوچتے ہیں‘ کیا سوچنا چاہتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ گفتگو کے دوران جو کچھ بھی کہیں وہ دوسروں کا کہا ہوا ہو۔ اہمیت صرف اِس بات کی ہے کہ آپ کیا سوچتے ہیں اور کس طور اپنی رائے دوسروں سے منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے موقف کی مد میں آپ جو کچھ بھی بیان کریں وہ آپ کے اپنے خیالات کا عکس ہونا چاہیے۔ اِسی صورت دنیا کو آپ کی سوچ کا علم ہوسکے گا۔
سوچنا ہر انسان کے لیے لازم ہے مگر پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ سوچنے کا عمل ہے کیا۔ عام آدمی جس طور زندگی بسر کرتا ہے اُس کے تحت ماحول سے اثرات قبول کرنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ ماحول میں رونما ہونے والے واقعات انسان کو سوچنے سے زیادہ ردِعمل ظاہر کرنے کی تحریک دیتے رہتے ہیں۔ عمومی سطح پر لوگ محض ردِعمل کو سوچنا سمجھ لیتے ہیں۔ ماحول کو دیکھنے‘ محسوس کرنے‘ ردِعمل کا اظہار کرنے اور اِسی قبیل کے دیگر افعال سے سوچنے کا عمل بہت مختلف اور بلند ہے۔ خالص سوچ وسیع مطالعے کی بنیاد پر اور مشق کے نتیجے میں پروان چڑھتی ہے۔ جو لوگ سوچنے کے معاملے میں سنجیدہ ہوتے ہیں یعنی کسی بھی معاملے میں اپنی سوچ پروان چڑھانا چاہتے ہیں وہ دوسروں سے الگ دکھائی اور سنائی دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا نشست و برخاست کا انداز تک تبدیل ہو جاتا ہے۔ گفتگو کے دوران جب یہ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو فریقِ ثانی کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اُس کا سامنا کسی ٹھوس رائے رکھنے والے سے ہے۔
کسی بھی انسان کو اہم اُس وقت سمجھا جاتا ہے جب وہ دوسروں پر ظاہر کرتا ہے کہ وہ کیا جانتا ہے۔ کسی بھی انسان کی گفتگو اُس کی سوچ ہی کو ظاہر کرتی ہوئی ہونی چاہیے۔ سوچ بتاتی ہے کہ اُس نے کیا پڑھا ہے‘ کن لوگوں کی صحبت میں بیٹھا ہے‘ زندگی بسر کرنے کے آداب کس حد تک سیکھے ہیں اور دوسروں کو کیا دینا چاہتا ہے۔ دوسروں کے حوالے سے دینے کی بجائے آپ کو وہ بتانا چاہیے ‘جو آپ جانتے اور سوچتے ہیں۔