معیار ِتعلیم، سہولیات، رسائی، تعداد اور نظم و ضبط کے بارے میں بار ہاتبصرے سن کر میں اکثر سوچ میں پڑ جاتا ہوں۔ چونکہ میرا تعلق کئی دہائیوں سے شعبہ ٔ تعلیم سے رہا ہے ، اس لیے اخباری مضامین، تحقیقی مقالے ، خاص طور پر میڈیا پر تعلیم کے بارے میں گفتگو پیشہ ورانہ دلچسپی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ معلوم نہیں جامعات کے بارے میں لکھنے، یا بولنے سے پہلے کوئی کسی ایک ، یا زیادہ اداروں میں جانے کی زحمت گوارا کیوں نہیں کرتا؟ راسخ شدہ ذاتی رائے تعلیمی اداروں کے حقائق کا بدل نہیں ہوسکتی ۔ بہتر یہ ہے کہ رائے قائم کرنے سے پہلے اداروں میں جا کر اساتذہ اور طلبہ سے بات کرلی جائے ۔ ہر جامعہ ایک دوسرے سے کس طرح مختلف ہے، ملک کے کس حصے میں واقع ہے، وہاں کے سماجی ، سیاسی اور اقتصادی حالات کیسے ہیں؟ اور کون سے لوگ وہاں حکمران طبقات سے تعلق رکھتے ہیں؟
جامعہ پنجاب کی ایک اپنی تاریخ ، روایات ، اورپنجاب اور ملک کی ترقی میں ایک منفرد کردار ہے ۔ ایسے اداروں کی تشکیل اور ترقی میں وقت لگتا ہے۔ ایک صدی سے بھی زیادہ۔ بلوچستان یونیورسٹی جامعہ پنجاب سے ایک سوسال بعد قائم کی گئی۔ اس کا قیام 1970 ء میں عمل میں آیا۔ چند سال گزرنے کے ساتھ ہی ا س نے بلو چستان کی علمی تاریخ میں رنگ بھرنا شروع کردیا۔
نہ جانے جنرل محمد ایوب خان کے سنہری دور میں بلوچستان میں کسی یونیورسٹی کا قیام کیوں ممکن نہ ہو سکا۔ قبائلی معاشرہ، پسماندگی، طاقت کے مراکز سے فاصلہ، اور بڑھتے ہوئے احساس ِ محرومی کا تقاضا تھا کہ وہاں تعلیم کو عام کیا جائے ، معیاری ادارے بنائے جائیں، اور رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے میں کم از کم ایک یونیورسٹی تو ہو۔ لیکن اُس وقت سوچ کا زاویہ اور سیاسی ترجیحات کا دائرہ شہروں کی ترقی تک محدود تھا۔ بلوچستان اس ترقی سے محروم رہا۔ ایوب کے رخصت ہونے کے بعد مغربی پاکستان سے ون یونٹ کا خاتمہ ہواتودیگر صوبوں کی طرف بلوچستان بھی موجودہ صورت میں بحال ہوا۔
اکتوبر 1970 ء میں گورنر بلوچستان کے حکم نامے کے تحت یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ اس وقت تک پاکستان کو وجود میں آئے ربع صدی گزر چکی تھی ۔ جامعات کا کردار کسی علاقے، شہر ، صوبے یا ریاست میں تعلیم تک ہی محدود نہیں ہوتا۔ یہ وہاں کی تاریخ، ثقافت، سیاست اور سماجی رجحانات کی عکاسی کرتی ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے قیام سے وہاں طلبا اور عوام کیلئے تعلیم کے راستے کھلے۔ وہاں کا امیر طبقہ کراچی یا لاہور کا رخ کرتا تھا۔غریب خاندانوں کے بچے یا تو سکول کی تعلیم سے محروم رہتے‘ اگر سکول کی تعلیم حاصل کرلیتے تو اعلیٰ تعلیم کا خواب تک نہ دیکھ سکتے ۔ اب علم کا چراغ روشن ہوا تو ہر سو امید کی کرنیں پھوٹیں۔
بلوچستان یونیورسٹی کے اولین ادوار میں زیادہ تر اساتذہ باہر سے آئے تھے ۔ ان میں کچھ بڑے عالم فاضل اور تجربہ کار اساتذہ تھے جو بلوچستان کی ترقی کا خواب آنکھوں میں سجائے سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا سے یہاں آئے تھے ۔ کچھ اپنے اداروں سے مستعفی ہوکر، کچھ طویل رخصت لے کر۔ پروفیسر کرار حسین علمی اور ادبی دنیا میں بلند مقام رکھتے ہیں۔ اُنھوں نے بلوچستان یونیورسٹی کے بانی اور وائس چانسلر کے طور پر اس کی تعمیر و ترقی میں ایک مشکل دور میں کلیدی کردار ادا کیا۔ قبل ازیں وہ چھ سال تک گورنمٹ ڈگری کالج کوئٹہ کے پرنسپل رہ چکے تھے۔
بلوچستان یونیورسٹی کی بنیاد اعلیٰ اقدار پر رکھی گئی ۔ تعمیر اور ترقی کے کٹھن مراحل تدبر اور تدبیر سے طے کیے گئے۔ علم کا یہ پودا تناور درخت بن گیا۔ بلوچستان کے چٹیل میدانوں، لق ودق صحرائوں اور بے آب و گیاہ پہاڑوں سے ہزاروں طلبہ اس چشمۂ علم سے اپنی پیاس بجھانے آئے ۔ پروفیسر کرار حسین کے دور میں جس تعلیمی کلچر کی بنیاد پڑی، وہ رواداری، تکثیریت اور ہم آہنگی کے اصولوںپر پروان چڑھا تھا۔ بلوچستان یونیورسٹی صوبے کے لسانی اور علاقائی گروہوں کے نمائندہ کے طور پر ابھری۔ وہاں بلوچ، پشتون، بروہی، ہزارہ اور پنجابی، سب ایک سائبان تلے جمع ہو کر علم حاصل کرنے لگے۔ ایک جامعہ کا مقصد یہی سماجی ہم آہنگی پیدا کرنا ہوتاہے ۔مختلف پس ِ منظر سے تعلق رکھنے والے طلبا اور اساتذہ کا تبادلہ ٔ خیالات، نظریات کا ادغام اور سماجی اور سیاسی سوچ کا اظہار ایک تخلیقی اور تحقیقی ماحول پیدا کردیتا ہے ۔ اسی ماحول میں فکری پودا پروان چڑھتا ہے ۔ مغربی ممالک کی جامعات میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ان میں اُ ن کے اپنے معاشرے کے علاوہ دنیا کے دیگر حصوں کی بھی نمائندگی ہو‘ اس سے طلبہ کو دیگر مذاہب، ثقافتوں اور معاشروں کو سمجھنے کا موقعہ ملے گا اور تنگ نظری اور تعصب کا خاتمہ ہوگا۔
سب کو معلوم ہے کہ ہماری جامعات کے ساتھ کیا ہوا؟ سیاسی جماعتوں نے اپنی نرسریاں کھولیں، کچھ مذہب کے نام پر ، کچھ قومیت پرستی کے سہارے، کچھ نے نظریات کی کمند ڈالی اور طلبا سیاست کی آڑ میں جامعات میں گھس بیٹھے۔ آہستہ آہستہ یہ عناصر غالب آنے لگے ۔ مقامی اور علاقائی حرکیات میں فرق بڑھا۔ پنجاب یونیورسٹی میں ایک مذہبی جماعت نے قبضہ جمالیا۔ ایک لسانی تنظیم نے جامعہ کراچی پر۔ قومیت پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان اور خصوصاً بلوچستان کی محرومیوں اور وہاں ایک منتخب حکومت کے دوسری قومی منتخب حکومت کے ہاتھوں خاتمے نے فطری طور پر وہاں کے تعلیم یافتہ طبقے کو بلوچ قومیت پرستی کے جذبات اور نظریات کی راہ دکھائی ۔ جامعہ بلوچستان میں بلوچ طلبا تنظیموںنے مرکزی حیثیت حاصل کرلی ۔ دوسرے گروہوں نے بھی اپنی نرسریاں کھول لیں۔ کم و بیش دوعشرے قبل میں بلوچستان یونیورسٹی گیا تھا ۔ نئے داخلے ہورہے تھے ۔ داخلی راستے پر مختلف طلبا تنظیموں کے جھنڈے، استقبالی میزیں، منشور کی کاپیاں، اور سرگرم کارکن داخلے کیلئے آنے والوں کی ''رہنمائی‘‘ کیلئے مستعد تھے ۔ ایسا لگا‘قومی انتخابات کی مہم چل رہی ہے۔ میں اس سے پہلے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں بھی ایسے منا ظر دیکھ چکا تھا۔
عرصے سے خواہش تھی کہ اگر زیادہ نہیں تو دن کا کچھ حصہ وہاں گزاروں۔ اس کا اظہار اسلام آباد میں ایک قومی کانفرنس میں آئے ہوئے پروفیسر عالم مینگل صاحب سے کیا۔ گزشتہ ماہ جب کوئٹہ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج لیکچر کے لیے گیا تو موقع غنیمت جانا۔ نصف دن بلوچستان یونیورسٹی، اور باقی نصف بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز میں گزارا۔ پروفیسر عالم مینگل اب پرووائس چانسلر ہیں۔ اُنھوں نے اپنی مصروفیات سے وقت نکالا، اساتذہ سے تعارف کرایا، اور جامعہ کے بارے میں بات چیت کا موقعہ فراہم کیا ۔ سماجی علوم کے شعبوں کے علاوہ بلوچستان سٹڈی سنٹر میں جانے، اور وہاں اساتذہ سے ملاقات ،او ر تبادلہ ٔ خیالات کا موقع ملا۔ ایسا لگاجیسے جامعہ بلوچستان دوبارہ اپنی اصل بنیاد پر واپس آچکی ہے ۔ گزشتہ دس برسوں سے یونیورسٹی انتظامیہ ، اساتذہ اور بلوچستان کی سیاسی حکومتوں کے علاوہ قومی سلامتی کے اداروں نے اس کی بحالی کو اپنا اوّلین نصب العین بنا رکھا تھا ۔ جن اساتذہ سے تبادلہ ٔ خیال کرنے کا موقعہ ملا، وہ بہت خوش اور مطمئن نظر آئے ۔ اب وہ آزادی، عزت اور احترام سے اپنی تدریسی اور تحقیقی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس سے پہلے چند طلبا تنظیمیں جامعہ ، اساتذہ اور انتظامیہ پر حاوی تھیں۔
آخرکارسیاسی رہنمائوں اور قومی سلامتی کے اداروں کو خیال آہی گیاکہ اسلحہ بردار گروہوں کو یہاں سے نکالا جائے۔ اس میں کچھ عرصہ ضرور لگا، لیکن آج بلوچستان یونیورسٹی ایک بہترین تعلیمی ادارہ بن چکی ہے ۔ اس کا ماحول محفوظ اور پرسکون ہے ۔ کوئی غیر متعلقہ شخص شناخت اور اجازت کے بغیر اس میں داخل نہیں ہوسکتا۔ مرکزی لائبریری اور دیگر عمارتیں جدید سہولیات سے آراستہ ہیں۔ سٹڈی سنٹر بلوچستان کی قدیم اور جدید ثقافت کا ایک عمدہ نمونہ ہے ۔
اس وقت بلوچستان یونیورسٹی میں پندر ہ ہزار طلبہ اور طالبات زیر ِتعلیم ہیں۔ اساتذہ کی تعداد پانچ سو کے لگ بھگ ہے ۔ ان میں دو سو کے قریب پی ایچ ڈی ہیں۔ کچھ بیرونی ممالک سے فارغ التحصیل ہیں۔ ان اساتذہ کی محنت اور لگن نے ایک عرصے سے بیمارجامعہ کو ایک فعال ادارے میں تبدیل کردیا ہے ۔ انتظامیہ کی درختوں میں خصوصی دلچسپی کی وجہ سے جامعہ ایک وسیع سرسبز باغ کے مرکز میں واقع ہے ۔ صاف ستھری آب و ہوا کی وجہ سے اس کا قدرتی ماحول دنیا کی بہترین جامعات جیسا ہے ۔ اس سے بلوچ طلبا کے شعور اور مثبت رویے کی عکاسی ہوتی ہے ۔ فاضل مضمون نگاروں سے گزارش ہے کہ اپنی جامعات کے بارے میں خامہ فرسائی سے پہلے ان کا ایک مرتبہ چکر ضرور لگالیا کریں۔